• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی تعلقات میں سربراہان مملکت کی ایک بڑی نشست میں بیٹھنے کی ترتیب ایک چھوٹاسا اشارہ، مسکراہٹوں کا تبادلہ،سنجیدگی اور گرم جوشی سے کیا گیا مصافحہ اور پس منظر میں نظر آتے ملکوں کے جھنڈے ایک ایسا سفارتی پیغام ہوتا ہے جو مشترکہ اعلامیوں، بیانات ، انٹرویوز سے کہیں زیادہ متوقع بدلتے عالمی حالات واقعات، نئے پرانے دوستوں سے بنتے بگڑتے تعلقات پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ ان اہم ترین بیٹھکوں میں کوئی ترتیب بھی محض اتفاقیہ نہیں ہوتی۔ ہر لیڈر کی نشست اور ساتھ بیٹھی شخصیت آنکھوں کی جنبش ،مسکراہٹ کا ہر زاویہ ایک ایسا خاموش پیغام ہوتا ہے جو زبان سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ عالمی سیاست میں توپوں کی گھن گرج کے دوران ایسی بیٹھکیں امن کوششوں میں ہونے والی پیش رفتوں کے اسباب پیدا کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس سے قبل پاک سعودی تاریخی دفاعی معاہدے نے جس طرح عالمی سیاست کا اچانک رخ بدلا ہے اس کے بعد اقوام متحدہ اجلاس کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ کی مسلم ممالک کے سربراہان ،وزائے خارجہ سے مشترکہ ملاقات کی سرکاری طور پر جاری ہونے والی تصویر میں ٹرمپ کے برابر نشست پر ترکیہ کے صدر طیب اردوان سنجیدہ فکر،ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھے اور پس منظر میں سعودی عرب قطر،اردن، ترکیہ، مصر،انڈونیشیا ، متحدہ عرب امارات کے پرچموں کے عین درمیان پاکستان کا سبز ہلالی پرچم مرکزی مقام پر صاف دکھائی دیا۔ یہ سب محض اتفاق نہیں بلکہ دنیا کو ایک واضح پیغام ہے کہ پاک بھارت جنگ میں عظیم فتح کے بعد سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کی اہمیت اور عالمی و علاقائی سیاست میں پاکستان کے مرکزی کردار کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ بظاہر یہ ایک عام سا پروٹوکول محسوس ہوتا ہے لیکن بین الاقوامی سیاست میں یہ منظر پاکستان کیلئے ایک بڑا اعزاز اور علاقائی مرکزیت کا گہرا اظہار ہے۔ بین الاقوامی سفارت کاری میں ملکوں کے پرچم کی ترتیب اپنی مخصوص زبان رکھتی ہے۔ ان کا ایک انچ آگے پیچھے ہوجانا کبھی سفارتی بحران پیدا کردیتا ہے تو کبھی نئے اتحادیوں کو ایک ایسا مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جس نے مستقبل کے اہم ترین فیصلوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوتاہے۔ ٹرمپ کے ساتھ مسلم ممالک کے سربراہان ،نمائندوں کی بیٹھک کے اختتام پر وزیراعظم شہبازشریف،نائب وزیرعظم اسحاق ڈار کی امریکی صدرسے تقریباً 39 سیکنڈ کی تعارفی علیک سلیک،گرم جوشی کے ساتھ مسکراہٹوں کا تبادلہ، ہاتھوں کے اشاروں سے سمجھ آنے والی گفتگو،دراصل وائٹ ہاؤس میں وزیراعظم شہبازشریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی ٹرمپ سے ملاقات کے خوش گوار دوستانہ تعلقات کے بڑھتے امکانات کا اظہار تھا جو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کی ابتدائی تفصیلات، تصاویر، ویڈیوز کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا وزیراعظم شہبازشریف ،فیلڈ مارشل عاصم منیر کو عظیم رہنما قرار دیتے ہوئے یہ کہنا کہ فیلڈ مارشل بہترین،وزیراعظم پاکستان بھی شاندارشخصیت ہیں۔ یہ خراج تحسین دونوں ملکوں کے مضبوط ہوتے تعلقات کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس ملاقات سے قبل امریکی صدر ٹرمپ ترکیہ کے طیب اردوان سے وائٹ ہاؤس میںالگ سے ملاقات کرچکے تھے اور انہوں نے ترکیہ کے صدر کو ایک مضبوط شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ مجھ سے جو کچھ (ایف 35 طیارے) مانگ رہے ہیں مجھے لگتا ہے کہ میں دینے پرمجبور ہوجاؤں گا۔ پاکستان و ترکیہ کے سربراہان مملکت کی ٹرمپ سے ملاقاتوں کا مرکزی نکتہ غزہ کی صورت حال ،آزاد فلسطین ریاست کے قیام،انتظامی سکیورٹی معاملات اور حماس کی قید سے یرغمالیوں کی رہائی، مشرق وسطیٰ خصوصاً اسرائیل کے قطر پر حملے اور یقیناً پاکستان افغانستان بھارت کشیدگی ،دہشت گردی کے امور بھی زیر بحث آئے ہوں گے۔ جس کا اظہار وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیہ میں کچھ اس طرح سے کیا گیا ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف نے صدر ٹرمپ کو امن کاعلم بردار قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمے کیلئے مخلصانہ کوششوں میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کی جرا ت مندانہ ، دلیرانہ، فیصلہ کن قیادت کو سراہا اور اقرار کیا کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان بھارت کے درمیان جنگ بندی میں سہولت فراہم کرکے جنوبی ایشیا میں ایک بڑی تباہی کو ٹالنے میں مددکی ۔ یہ ملاقات وائٹ ہاؤس اوول آفس میں ایک گھنٹہ بیس منٹ تک جاری رہی لیکن اعلامیے میں پاک بھارت کشیدگی کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی بارے مکمل خاموشی دیکھی گئی۔ تاہم امریکی دفتر خارجہ پہلے ہی اس بات کی وضاحت کرچکا تھا کہ مسئلہ کشمیر بارے ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ دونوں ملک شملہ معاہدے کے تحت دوطرفہ مذاکرات سے معاملے کو حل کریں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ ٹرمپ پاکستان کیساتھ مضبوط‘ خوش گوار تعلقات کے عوض ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ۔ دوسری طرف افغان طالبان انتظامیہ بگرام ایئربیس واپس کرنے سے انکاری ہے۔ چین بھی اس کا مخالف ہے جبکہ نیویارک میں ٹرمپ کی مسلم لیڈروں سے ملاقات میں کچھ اس طرح کی بے چینی پائی گئی ہے کہ امریکی صدر انہیں یقین دلا رہے تھے کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے علاقے پر قبضے کی اجازت نہیںدیں گے۔ دوسری طرف اسرائیل کسی قسم کی جنگ بندی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ سعودی عرب امریکی حفاظتی چھتری سے نکلنا چاہتا ہے۔ امریکی اتحادی روسی تیل کی خریداری پر پابندی قبول نہیں کررہے ۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی بین الاقوامی تنازعات میں الجھتی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ اگر بھارت امریکہ تعلقات میں کشیدگی ختم ہوگئی تو کیا پاکستان ٹرمپ کی پہلی ترجیح ہوگا؟ یقیناً یہ سوال اور خدشات ہر باشعور شہری کے ذہن میں گردش کررہے ہیں۔ ان خدشات کو صرف پاک سعودی دفاعی معاہدہ ہی تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ مسلم ممالک کے سربراہان اگر سیاسی،اقتصادی،عسکری اتحاد کو اہمیت دیں۔ پاکستان ،چین امریکہ کے درمیان تعلقات میں مخلص رابطہ کار بن کر اپنی موجودہ متوازن خارجہ پالیسی برقرار رکھے تو یہ مرکزیت ایک قیمتی موقع بن سکتی ہے ورنہ امتحان سے تو ہم ازل سے ہی گزر رہے ہیں۔ ہمیں معاشی بحران ،سیاسی عدم استحکام ،بدانتظامی سے نکل کر اس مرکزیت کو عملی قوت میں بدلنا ہوگا ورنہ یہ علامتی مرکزیت صرف تصویروں تک ہی محدود رہ جائے گی۔

تازہ ترین