• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ عاقبت نااندیش افراد یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے کہ پاکستان کا اسرائیل سے کیا لینا دینا؟ اسرائیل، پاکستان سے بہت دور ہے اور ہماری فضائیہ وہاں تک پہنچ سکتی ہے نہ ہی ہمارے میزائلوں کی وہاں تک رسائی ہے۔ اس دسترس کو سابق آمر جنرل پرویز مشرف نے روک دیا تھا اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کو بھی ڈانٹ دیا تھا کہ میزائلوں کی اسرائیلی سر زمین تک رسائی کی اجازت نہیں، صرف بھارت تک رسائی کو ہی کافی سمجھیں۔ واللہ اعلم باالصواب، اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا مبالغہ تاہم یہ سچ ہے کہ ایک فوجی میوزیم میں آج بھی ایک اسرائیلی پائلٹ کی وردی لٹکی ہوئی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے ناداں کچھ بھی کہیں حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل کا نشانہ پاکستان اور امریکہ کا چین ہے اسلئے اس نے نئی بساط بچھا دی ہے۔ عین اس وقت جب امریکی سر جوڑے بیٹھے بگرام ایئر بیس کو افغانستان سے چھیننے کامنصوبہ بنارہےتھے ۔ پاکستان اور سعودی عرب باہمی دفاع کے معاہدے پر پہنچ چکے تھے، اِدھر یہ معاہدہ ہوا اور اُدھر امریکی صدر نے افغانستان کے بگرام ایئر بیس کا قبضہ لینے کی خواہش کا اعلان کر دیا۔

عرب ممالک بشمول سعودی عرب آج سے پہلے تک امریکہ کو اپنا محافظ مان کر اپنے پر تعیش محلات میں چین کی نیند سویا کرتے تھے لیکن برا ہو انکل سام کا کہ اسکے بغل بچہ اسرائیل نے ایک بے وقوفی کر کے عرب ممالک کو اپنے دفاع کیلئے نئی حکمت عملی بنانے پر مجبور کر دیا۔ پاک سعودی معاہدہ کئی برسوں سے جاری سعودیہ اور پاکستانی تعلقات کا ہی تسلسل ہے جس میں فوجی اور معاشی تعاون بھی شامل ہے۔ پاکستان دہائیوں سے سعودی عرب کے ساتھ فوجی تعاون کر رہا ہے اگرچہ سیاسی قیادتوں کی وجہ سے ان تعلقات میں اتار چڑھاؤ بھی آتے رہے ہیں لیکن فوجی سطح کے تعلقات حکومتوں کے سود و زیاں سے ماورا ہوتے ہیں۔ اس وقت کم و بیش دو ہزار کے لگ بھگ پاکستانی فوجی جوان سعودی عرب میں تربیت، مشاورت اور سیکورٹی کیلئے موجود ہیں۔ پینسٹھ سال سے پاکستان، سعودی فوجیوں کو تربیت دیتا آرہا ہے اور ضرورت پڑنے پر فوج بھی بھیجتا رہا ہے۔ یہ معاہدہ اسی تعاون کو باضابطہ شکل دیتا ہے، کوئی نیا معاہدہ نہیں ہے ہاں البتہ نیوکلیئر معاملے پر بات مبہم رکھی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مقامات مقدسہ کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو ایسی صورت میں پاکستان کیا کرے گا، یہ واضح رہے کہ اسکی شاید نوبت ہی نہ آئے۔ اب سعودی عرب کے فوجی اڈے پاکستان کی دسترس میں ہیں اور پاکستان کسی بھی خطرے کی صورت میں بہترین عسکری صلاحیت کو بروئے کار لائیگا اور ارض مقدس سمیت اس سر زمین کے چپے چپے کا دفاع کریگا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان سے نیوکلیائی حمایت مانگ سکتا ہے تاہم یہ طے ہے کہ اس کی کبھی نوبت نہیں آئے گی لیکن یہ سچ ہے کہ ہماری ایٹمی قوت ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس نے اس خطے میں طاقت کے توازن کو قرار رکھا ہوا ہے ورنہ ہمارا پڑوسی دشمن کب کا ہماری سرحدوں کی لکیر کو حرف غلط کی طرح مٹا چکا ہوتا۔ اسے جو تازہ جارحیت کا مسکت جواب ملا ہے اس کے بعد وہ آج تک اس کی وضاحتیں ہی دیتا پھر رہا ہے۔ پاک سعودی دفاعی معاہدے سے اگر امریکی اور اسرائیلی پہلے آگاہ ہوتے تو ایسا کبھی نہ ہونے دیتے۔ سعودی عرب ہی نہیں عرب ممالک کا ’’کرائے کا دفاع‘‘ اس وقت امریکی فورسز کررہی ہیں، اصل مشکل اس وقت درپیش آئے گی جب سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے کہیں گے کہ مسلم فوج عرب ممالک کا دفاع کرےگی، اب آپ کی مزید خدمات کی عربوں کو ضرورت نہیں لہٰذا آپ تشریف لے جاسکتے ہیں۔ یہ مرحلہ اعصاب شکن ہوگا کیونکہ اس سے عرب ممالک اسرائیل کی گرفت سے نکل جائیں گے اور وہ کبھی ایسا نہیں چاہے گا دراصل امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے، دیکھا جائے تو عرب ممالک کا فوجی محاصرہ کر رکھا ہے۔ عرب ممالک کے چاروں اطراف کم فاصلے پر جدید میزائل بھی نصب ہیں اور فوج بھی تعینات ہے، امریکی بحری بیڑے بھی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کےدباؤ پر ایران سے بغیر کسی تحریری معاہدےکے یک طرفہ جنگ بندی کرائی گئی لیکن اسرائیلی جارحیت پر کوئی قدغن نہیں وہ اب امدادی سامان لے جانے والے فلوٹیلاز کو نشانہ بنا رہا ہے۔ غزہ، فلسطینیوں کیلئے بھوک پیاس کا کربلا بن چکا ہے اور کوئی اسرائیل کی کلائی مروڑنے والا نہیں اگر ایسے میں کوئی دھول چٹا سکتا ہے تو وہ پاکستان ہے ۔اگرچہ پاکستان کی اسرائیل کے ساتھ کوئی سرحد نہیں ملتی لیکن وہ بھارتی سر زمین سے پاکستان کے خلاف جارحیت میں فریق بن چکا ہے اور اس کے وزیر اعظم نے کئی بار پاکستان کا نام لے کر گیدڑ بھبکیاں بھی دی ہیں۔ سفارتی تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی قیادت نے اسے براہ راست کوئی جواب نہیں دیا نہ ہی اس کا کوئی بظاہر نوٹس لیا گیا تاہم امریکہ کے صدر سے اس حوالے سے بات کی جانی چاہیے ۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ بہت ہمہ جہت ہے اور اس کے اثرات آگے چل کر بہت نمایاں ہوں گے۔ یہ کہنا یقیناً غلط نہیں ہوگا کہ اسرائیل تک پاکستان کی سپاہ کو اس معاہدے کے بعد رسائی حاصل ہوگئی ہے۔ سعودی عرب کے ایک ائیر بیس سے کوئی بارہ میل کے فاصلے پر اسرائیل موجود ہے۔

تازہ ترین