ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اقدامات کی بدولت عام آدمی کا بچّہ بھی اعلیٰ تعلیم سے مستفید ہو رہا ہے۔ بیرونِ مُلک اسکالر شپس، نیشنل، indignous، میرٹ اسکالر شپس کے علاوہ پس ماندہ اضلاع کے طلبہ کے لیے ٹیوشن فیس کی مد میں امداد قابلِ تحسین اقدام رہا ہے، جب کہ ڈگری ہولڈر اسکالرز کے لیے آئی پی ایف پی اور ٹی ٹی ایس جیسے منصوبے بھی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔
نیز، فیکلٹی کی استعدادِ کار بڑھانے کے لیے کورسز اور فیلوشپس نے بھی یقیناً تعلیمی معیار کی وسعت اور تنوّع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ایچ ای سی جامعات کے لیے ریگولیٹر کی حیثیت سے بھی اہم ہے۔ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹرز میں یونی ورسٹیز کے اجرا سے لے کر گریجویٹس اور انڈر گریجویٹس پروگرامز کی منظوری تک کمیشن کے بنائے گئے قواعد وضوابط کی پاس داری ضروری ہے اور قواعدوضوابط کی خلاف ورزی پر پروگرام بند یا معطّل بھی کردیئے جاتے ہیں۔
یہاں اہم مدعا اُردو زبان کا مقدمہ ہے۔ قیامِ پاکستان سے کالجز میں گریجویشن کی سطح پر چار لازمی مضامین(اسلامیات/ اخلاقیات، مطالعۂ پاکستان، انگریزی، اردو)اور کچھ اختیاری ہوا کرتے تھے(اور اب بھی ہیں)۔یونی ورسٹی گرانٹ کمیشن کے زمانے تک یونی ورسٹیز سے پرائیویٹ بی اے کرنے والے طلباء وطالبات کے لیے بھی یہی شرط تھی۔
ایچ ای سی نے جب بی ایس(16سالہ ڈگری پروگرام) کا اجرا کیا اور بی اے، بی ایس سی ختم کیا، تو گویا انٹرمیڈیٹ کے بعد طلبہ براہِ راست ایم اے میں داخل ہو گئے۔ یہ یاد رہے، ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام (ADP)میں نصاب کم و بیش بی ایس کے اوّلین چار سمسٹرز والا ہی ہوتا ہے۔اِس سلسلے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ہر شعبے کے لیے پروگرامز کی ایک فہرست جاری کی جاتی ہے، جس میں عمومی طور پر پروگرامز تین کیٹیگریز میں تقسیم ہوتے ہیں۔
مثلاً میجر کورس، جنرل کورس اور الائیڈ کورس۔ جنرل کورس وہ ہے، جو ہر یونی ورسٹی کے تمام شعبہ جات کے طلبہ لازمی پڑھتے ہیں، جیسے قرآنِ پاک کی تعلیم، مطالعۂ پاکستان، کمپیوٹر اور انگریزی۔ اب تو مینیجمنٹ سائنسز کا کورس بھی جنرل کیٹگری میں شامل ہے، مگر یہاں اُردو کا کوئی ذکر نہیں۔الائیڈ کورسز میں اکنامکس، ریاضی، سائنس، قانون اور سوشیالوجی وغیرہ شامل ہیں۔حیرت انگیز طور پر اُردو ان میں بھی شامل نہیں۔
کچھ یونی ورسٹیز کے چند شعبہ جات الائیڈ کورس کے طور پر(کیوں کہ ان میں گنجائش ہوتی ہے) اردو یا اقبالیات پڑھا رہے ہیں۔2023ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ایک کورسFable, Wisdom Literature & EPIC کے نام سے جنرل کیٹگری میں متعارف کروایا(جس میں اقبال کی نظمیں، سعدی کی حکایات، کلیلہ ودمنہ کہانی اور شاہ نامہ فردوسی کا ایک باب شامل تھا)، یونی ورسٹیز میں یہ اُردو یا انگریزی زبانوں میں پڑھایا جانے لگا۔
اسے بھی کاؤنسل والے پروگرامز (انجینئرنگ، فارمیسی، لاء، کمپیوٹر سائنس، آئی ٹی) نے اپنے نصابات میں شامل نہیں کیا۔ امسال ایچ ای سی نے کئی بی ایس پروگرامز کے نئے نصاب (Curriculum) کی فہرست جاری کی ہے، جس میں پہلے کی طرح اُردو کا کہیں ذکر نہیں، بلکہ Fable کا جنرل کورس بھی غائب ہے۔ اسے بنیاد بنا کر فیبلز کا کورس پڑھانے سے بھی معذرت کر لی گئی ہے۔
جامعات میں اردو مخالفت(دشمنی نہیں) شاید بے خیالی میں ہو رہی ہے۔الائیڈ کورسز میں ایچ ای سی نے گنجائش رکھی ہوئی ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو ہدایات بزبانِ انگریزی ہوتی ہیں اور ان کی توجیہہ و توضیح بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کو قومی زبان کی ترقّی وترویج سے بھی پہلے اس کی حفاظت کا ذمّہ لینا ہو گا۔ وہ انڈر گریجویٹس لیول پر اُردو کو لازمی مضمون کے طور پر نافذ کرے اور اس کے لیے کورس آؤٹ لائن جاری کرے تا کہ دورانِ تدریس ابہام باقی نہ رہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن تمام کاؤنسلز کو(بشمول پاکستان بار کاؤنسل، میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل، انجینئرنگ کاؤنسل، نیشنل کمپیوٹنگ ایجوکیشن اینڈ ایکریڈیشن کاؤنسل) اردو زبان وادب کی ترویج وترقّی کے لیے آمادہ کرے، کیوں کہ ایچ ای سی زیادہ نہیں، تو اُردو کو انگریزی جتنی اہمیت(بطور مضمون)جامعات میں دِلانے کی قوّت تو رکھتا ہے۔