• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے دوست ملک چین کو ایک غیرمعمولی اور آزمائشوں و قربانیوں سے بھرے لانگ مارچ کے بعد آزادی کی نعمتوں سے سرفراز کرنے اور نئے سفر پر گامزن کرنے والے عظیم رہنما ماؤزے تنگ کا جب انتقال ہوا تو یہ چینی قوم کیلئے فطری طور پر دُکھ کی گھڑی تھی۔ اس وقت چیئرمین ماؤزے تنگ کے معتمد ساتھی، جنگ آزادی کے اہم رہنما اور عوامی جمہوریہ چین کے پہلے وزیراعظم چواین لائی کے الفاظ قوموں کی جدوجہد کی تاریخ کا اہم نقش بن گئے۔ انہوں نے اپنی قوم کو پیغام دیا :’’غم کو طاقت میں بدل دو‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ چینی عوام نے اس پیغام کا مفہوم درست طور پر سمجھا اور غم کی کیفیت کو اس عزم اور جہد مسلسل میں اضافہ کا ذریعہ بنایا جس نے عوامی جمہوریہ چین کو استحکام، طاقت ،معیشت،ٹیکنالوجی کے اس مقام پر پہنچا دیا جہاں صدر شی جن پنگ کی قیادت میں وہ آج نظر آ رہا ہےاور اس قیادت کی گرویدگی کے مظاہربھی دنیا کے سامنے ہیں۔ایک بڑی آبادی والے ملک کے عوام کی غیر معمولی تعداد کو غربت کی لکیر سے باہر نکالنا آسان کام نہیں تھا۔ صنعت، زراعت، آئی ٹی، مصنوعی ذہانت سمیت مختلف شعبوں میںچینی ترقی کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ فوجی سامان کی تیاری میں وہ کمال حاصل کیا کہ چینی جہازوں اور دوسرے آلات کے استعمال نے حالیہ پاک بھارت جنگ کے درمیان بھارت کو بدترین ہزیمت کے ساتھ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ نئی دہلی کے حکمراں جن جنگی جہازوں کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے وہ پاک فضائیہ کے ہاتھوں ریت کا ڈھیر بن گئے۔ حال ہی میں جاپانی شکست کا یادگار دن مناتے ہوئے جس چینی اسلحہ کی نمائش کی گئی اس نے دنیا کو انگشت بدنداں کردیا جبکہ سفارتی میدان میں چین کی کامیابی مذکورہ پریڈ کے موقع پر موجود سربراہانِ مملکت و حکومت کی موجودگی سے تو ظاہر ہے ہی، بعض خلیجی ممالک کے اختلافات دور کرنے اور خطے میں کشیدگی دور کرنے کی سرگرم کا وشوں سے بھی نمایاں ہے۔ چین کا مذکورہ حوالہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ یہ ہمارے بالکل سامنے کا ہے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وقت کے چیلنجوں کا جن اقوام نے سامنا کیا، وہی سربلندی اور ترقی کے ارفع مقام سے ہمکنار ہوئیں۔ جو اقوام قدرتی یا غیر قدرتی تباہی و مشکلات کو چیلنج کے طور پر دیکھتی اور حالات کا جائزہ لیکر مستقبل کی ضرورت کے حوالے سے جہانِ نو کی منصوبہ بندی کے ساتھ پوری تندہی سے تعمیر میں لگ جاتی ہیں ان کے لئے ہر چیلنج آگے بڑھنے کا ذریعہ اور زینہ بن جاتا ہے۔ برطانیہ کی تاریخ میں لندن میں کئی روز تک جاری اور شہر کوخاکستر کرنے والی ایک آگ کا تذکرہ تفصیل سے ملتا ہے۔ مگر آگ بجھنے کے بعد حکومت اور عوام نے ایک پلان کے تحت مل کر جو جدوجہد کی اس سے ایسا جدید لندن وجود میں آیا جو وقت گزرنے کے ساتھ جدید تر ہوتا چلا گیا۔ کئی اور ممالک میں آگ لگنے اور اس پر قابو پانے کے واقعات کتابوں میں درج ہیں۔ عزم و ہمت کی داستانوں کا خلاصہ یہی ہے کہ جہد مسلسل رائیگاں نہیں جاتی۔ ناممکن نظر آنے والے بعض مرحلے اس طرح ممکن بنتے ہیں کہ معجزوں کا گمان ہوتا ہے۔ جاپان 1945ء میں اپنے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے ایسے واقعہ سے دو چار ہوا جس کے ذکر سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ تابکاری اثرات سے متاثر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد سامنے آئی جس کے ریڈیائی اثرات کئی نسلوں تک منتقل ہوتے رہے۔ مگر جاپانی قوم نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر تابکاری اثرات کے حامل افراد کی دیکھ بھال (جو عام مریضوں کی نسبت مختلف نوعیت کی حامل تھی) خوش اسلوبی سے کی اور ایٹمی تباہی سے ہونے والے نقصانات کے اثرات زائل کر کے بحالی و ترقی کے کاموں کی طرف بھی بھرپور توجہ دی۔ جاپانی صنعت و حرفت سمیت مجموعی معیشت کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک موقع پر جب صرف ایک دن کیلئے تمام کرنسیوں کو کھلی منڈی میں ’’فلوٹ‘‘ کی آزادی دی گئی تو جاپانی کرنسی نے اپنا لوہا منوالیا۔

مذکورہ واقعات اور مثالوں کا ذکر اس حوالے سے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ سیلاب کی تباہی سے پاکستان کو ہونے والا نقصان اگر چہ تاریخی اعتبار سے انتہائی غیر معمولی ہے لیکن پاکستان وہ ملک ہے جو اپنے قیام کے وقت سے ہمسایہ ملک کی ریشہ دوانیوں کومسلسل ناکام بناتا چلا آرہا ہے۔ چار جنگوں کے باوجود دشمن کی توقع کے خلاف زندہ تر ہے ۔ایٹمی ملکوں میں شمار ہوتا ہے ،اور مئی کے مہینے میں بھارت کی مسلط کردہ جارحیت کو شرمناک ہزیمت سے دوچار کرچکا ہے۔ پاکستان کی حربی صلاحیتوں اور مستعدی کا اعتراف دنیا بھر میں کیا گیا اسکے وقار و اعتبار کا مختلف زاویوں اور ذریعوں سے اظہار سامنے آرہا ہے۔ حالیہ پاک سعودی دفاعی معاہدہ اس کی مثال ہے جبکہ خطے کے امن و استحکام کے مفاد میں علاقائی نوعیت کے وسیع تر انتظام کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد مسلم ممالک کے درمیان منظم یکجہتی کی اہمیت اجاگر ہو رہی ہے ۔ اس منظر نامے میں وزیراعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کے 80-ویں اجلاس کے موقع پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹا لینا جارجیوا سے ملاقات کے دوران حالیہ سیلاب سے پاکستانی معیشت پر اثرات کو آئی ایم ایف جائزے میں شامل کرنے کی جوتجویز پیش کی اس پر سنجیدہ توجہ کی امید ہے۔ جبکہ ورلڈ بینک کے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک 2026-2036 ءکے تحت پاکستان سے 40 ارب ڈالر کا تاریخی وعدہ کیا جاچکا ہے۔ پاکستان بلاشبہ ایک ایسی صورت حال سے دو چار ہے جس میں بھارت نے پانی کو بطورِ ہتھیار استعمال کرکے مشکلات میں اضافہ کیا ۔

اس مشکل گھڑی میں مرکز اور صوبوں بالخصوص پنجاب سندھ کی حکومتیں پوری طرح فعال رہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کی بحالی اورریلیف کی کاوشیں تیزتر کرنے کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں اسکاؤٹنگ ، شہری دفاعِ تنظیم ، گرلز گائیڈزجیسی تنظیموں کو بھرپور طور پر منظم وفعال بنانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی فوری ، مختصر مدتی ، وسط مدتی اور طویل مدتی پلان کے تحت ایسے اقدامات ضروری ہیں جو موجودہ مشکلات کو مایوسی کا ذریعہ نہ بننےدیں اورآج کا دکھ اچھے کل کیلئے تعمیر نو کے بھر پور عزم کی عملی تفسیر بنا نظر آئے۔ہمیں ثابت کرنا ہے کہ آئندہ برس کیلئے جس بارش و سیلاب کی پیش گوئی کی گئی ہے اس سے نمٹنے کیلئے ہم پوری منصوبہ بندی کے ساتھ مستعد و تیار ہیں۔

تازہ ترین