عالمی سیاسی افق پر ان دنوں پاکستان کا ستارہ خوب چمک رہا ہے۔ سارے عرب ممالک پاکستان کی بلائیں لے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ پاکستانی قیادت کے صدقے واری جا رہے ہیں۔ معرکہ بنیان مرصوص میں پاکستان کی شاندار فتح اور بھارت کی عبرت ناک شکست کے بعد پوری دنیا میں پاکستان ایک نئی شناخت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم پوری آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا ہے۔معرکہ بنیان مرصوص کے دوران بے مثال قیادت کرتے ہوئے پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والے مسلح افواج کے سربراہ جنرل عاصم منیر اندرون اور بیرون ملک پاکستانیوں کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ آج سے قبل یہ کون سوچ سکتا تھا کہ پاکستانی وزیراعظم فیلڈمارشل کے ہمراہ وائٹ ہاؤس جائیں گے وہاں انہیں ریڈ کارپٹ استقبال ملے گا اور صدر ٹرمپ یہ کہیں گے کہ آج دو بڑی عظیم الشان شخصیات میرے پاس بطور مہمان تشریف لا رہی ہیں۔ پاکستان کے خارجہ محاذ پر فیلڈ مارشل عاصم منیر نےجس طرح پاکستان کی سویلین حکومت کا ساتھ دیا ہے یہ یقینی طور پر اس ہائبرڈ نظام کی کامیابی ہے جو ان دنوں پاکستان میں روبہ عمل ہے۔کچھ عرصہ پہلے تک ٹرمپ پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکا الزام عائد کیا کرتے تھے اب وہ پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ پر بات کر رہے ہیں۔صدر ٹرمپ نےپہلے دور صدارت میں اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کو اپنا ’دوست‘ کہا تھا لیکن ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاک امریکہ تعلقات ایک بار پھر اُتار چڑھاؤ کا شکار ہو گئے۔ صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں کوئی بھی پاکستانی راہنما وائٹ ہاؤس نہ گیا یہاں تک کہ فون پر بات تک نہ ہوئی۔لیکن گزشتہ جمعرات کو صدر ٹرمپ پاکستان کے سیاسی اور عسکری رہنماؤں سے ملاقات سے قبل ہی وزیرِ اعظم شہباز شریف اور پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو عظیم رہنمااور بہترین شخصیات قرار دیتے ہوئے نظر آئے۔ صدر ٹرمپ نے اس سال مئی میں پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ رکوانے میں بھی کردار ادا کیا تھا اور اس ملاقات کے دوران پاکستانی رہنماؤں نے پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ روکنے اور قیام امن کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں’مین آف پیس‘قرار دیا۔ حکومت پاکستان انہیں نوبل پرائز کیلئے پہلے سے ہی نامزد کر چکی ہے۔پاکستان اور امریکہ کے مابین حالیہ تاریخ میں تعلقات سب سے بہترین سطح پر ہیں۔ لیکن ان تعلقات کے اثرات پاکستان اور مشرق وسطی پر کس طرح مرتب ہوں گے ابھی تک کچھ کہنا مشکل ہے۔عالمی تعلقات ہمیشہ اپنے مفادات کے تابع تشکیل دیے جاتے ہیں۔پاک بھارت جنگ سے پہلے جب پاکستان معرکہ حق میں سرخرو نہیں ہوا تھا تب صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ملکوں کا آپس کامعاملہ ہے لیکن جونہی پاکستان نے بھارت پر فتح حاصل کی اور پاکستان کا ایک موثر کردار بنتا ہوا نظر آیا تو فوری طور پر صدر ٹرمپ کا رویہ بھی تبدیل ہو گیا۔
میری دانست میں امریکہ کے لیے ایران ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور فیلڈ مارشل عاصم منیر،صدر ٹرمپ کو یہ باور کروا چکے ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ معاملات کو بہت بہتر سمجھتے ہیں اس بات کا امکان ہے کہ وہ پاکستان کو لے کر ایرانی مسئلے کا کوئی حل نکالیں اور اسکے بدلے پاکستان کو بھی بلوچستان میں دہشت گردوں اور دیگر علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لڑنے والے عناصر کے خلاف کارروائی میں مدد مل سکتی ہے۔ امریکہ کو یہ بھی اندازہ ہے کہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے معاملات میں بھی معاون بنایا جا سکتا ہے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اور پاکستانی رہنماؤں کے مابین مشرق وسطیٰ کے معاملات پر بھی ضرور بات چیت ہوئی ہوگی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے نے پوری دنیا کو باور کروایا ہے پاکستان کے مشرق وسطی کے تمام ممالک کے ساتھ مثالی تعلقات ہیں اور اگر پاکستان اور سعودی عرب کے دفاعی معاہدے کے تناظر میں موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو بظاہر ایسے لگتا ہے کہ پاکستان ایران کے علاوہ مشرق وسطی میں بھی ایک نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے ایک ایسا کردار جس سے امریکہ بھی فائدہ اٹھا سکے۔فیلڈمارشل عاصم منیر خارجہ محاذپر ایک بہترین سفارت کار کا کردار بھی نبھا رہے ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے رواں برس جون میں امریکی صدر کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی تھی جبکہ مئی میں ہونے والے پاک بھارت ٹاکرے کے بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر نے خلیجی ممالک اور وسطی ایشیائی ممالک کا بھی دورہ کیا تھا۔ جولائی میں ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس میں انہوں نے ان دوروں اور ملاقاتوں کو کامیاب سفارت کاری قرار دیا تھا ۔ پاکستان کی سویلین حکومت نے فوج کے سربراہ کے خارجہ پالیسی کے کردار کو تسلیم بھی کیا ہے جو کہ ایک خوش آئند امر ہے۔وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں فیلڈ مارشل کی موجودگی سے ایک طرف تو پاکستان کا موثر کردار سامنے آیا تو دوسری طرف ہر عالمی فورم پر پاکستان ایک باوقار اور متحرک کردار ادا کرتا ہوا دکھائی دے رہاہے۔ان ملاقاتوں کا باقاعدہ اعلامیہ تو روایتی سا ہے لیکن امریکہ کی نظر ان معدنی ذخائر پر ہے جو بلوچستان کے پہاڑوں میں مدفون ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معدنی ذخائر کے معاہدے ضرور کیے جائیں لیکن معاہدوں میں ملکی مفادات کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے اور یقیناً ایسا ہی ہوگا۔