• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے ستمبر میں بڑے سیاسی معرکے مارے، جن میں ایک وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کی ٹرمپ سے ملاقات ہے، ( اصل واقعہ جو دھماکے کی حیثیت رکھتا ہے وہ سعودیہ اور پاکستان کا دفاعی معاہدہ ہے) جس کا باقاعدہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا، ویسے تو صدر ٹرمپ نے جو چھکا مارا اور وزیر اعظم کے ساتھ فیلڈ مارشل سے بھی اوول آفس میں لمبی ملاقات کی، اس کے اعلامیے کی ضرورت اسلئے نہیں کہ چہرے بتا رہے ہیں کہ میٹنگ میں ٹرمپ صاحب بے تحاشہ ٹک ٹاک کرنے کے موڈ میں تھے۔ ہم کہ جو 78 برس سے تھینک یو امریکہ کے لئے کہتے سوچتے رہے کہ ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا ہوا‘‘۔ ڈر بھی ماضی کو مڑ کر دیکھنے سے آ رہا تھا کہ ہمارے طلسم ہوشربا میں اردن سے آگے، مکے پہ گولیاں چلائی گئی تھیں اور پھر سعودی عرب ہو کہ امریکہ، پرانے پہاڑے سر میں گھومنے لگے کہ عرب میں تو کزن کزن کی خونریزی کی لمبی تاریخ ہے اور امریکہ کی بے وفائی تو سینےپہ مونگ دلنے جیسی رہی ہے۔

ان دونوں نئے رشتوں میںایک چھینٹ پڑ گئی کہ پاکستان کے وفد کے اراکین کے نام تو فارن آفس سے بھیجے گئے تھے۔ اس میں کوئی ردوبدل نہیں تھا مگر یہ شمع کہاں سے روشن ہوئی کہ سوائے وزیر اعظم صاحب کے ، باقی سب نے صفائی کیلئے اپنی اپنی جھولیاں پھیلا دیں۔ ان میں ایک بھی ابن صفی نہ تھا ورنہ کہتا ’’بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستان کے لئے۔‘‘

یہ منظر نامہ تو ستمبر ختم ہونے سے فائلوں میں چلا گیاکہ پشاور میں اور آزاد کشمیر میں ایسا گھمسان کارن پڑا کہ آج تک کشمیر کی تمام ٹیلی فون لائنیں بند ہیں۔ پشاور میں تحریک کے جلوس کا منظر دیکھ کر بی بی بے نظیر کی آمد پہ جوش و خروش یاد آگیا۔ مگر یہ نالہ وہیں کا وہیں۔ توشہ خانہ ہے کہ زنبیل، سات گھنٹے تک مسلسل بحث ہوتی رہی۔ ابھی سیلاب نے جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ میں، آبادیوں کو دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ بلاول کے لئے ، فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ گزشتہ سیلاب زدگان کے لئے بلاول نے ورلڈ بینک سے رقم لے کر 3ہزار ایک کمرے کے مکان، جھونپڑی والوں کو بنا کر دیے نہ کوئی شور نہ جھگڑا۔ بات بھی تمیز سے کی جائے تو پھر بھی بدلہ لینا گوارا ہو سکتا ہے۔ بہرحال سندھی خواتین کہہ رہی ہیں کہ نہ کپاس ہے کہ ہم روزی کمائیں اور شہداد کوٹ کی خواتین اپنے گھروں میں دہی بلونے کے لئے بے چین ہیں۔ سجاول اور کوٹری کے دیہاتوں میں خواتین جانوروں کے لئے گھاس ڈھونڈ رہی ہیں۔ برباد تو گھروں کے علاوہ پورے کا پورا نظام ہوا جس میں اسکول ، اسپتال اور مسجدیں تک اذان کے لئے ترس رہی ہیں۔

پنجاب میں بہت اچھا بورڈ ہر اسکول کے سامنے نظر آیا کہ ’’بچوں کو مارنا منع ہے، استاد نوکری سے برخاست کر دیئے جائیں گے۔‘‘ اب وہی گلہ کہ اسکول بنیں گے، بچے پڑھیں گے تو شامت یار بھی دیکھی جائیں گی مگر سندھ سے خبر آئی ہے کہ 5ارب روپے کتابوں کے لئے دیے جا چکے ہیں نہ کتابیں ہیں اور نہ اسکول، اس پورے سال میں دیامیر، گلگت سے لے کر مانسہرہ میں جانوروں اور انسانوں کے لئے پناہ گاہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ اور سردی اور وہ بھی شمالی علاقوں میں برف باری کچھ دنوں کی بات ہے ۔ مریم بی بی کا یہ کہنا کہ یا تو اپنے فنڈز میں سے یا اپنے علاقے کے جاگیرداروں کے ہاتھ مروڑ کے پیسے نکلوائے جائیں۔ وہ لوگ جو برات میں ڈالرز اور موبائلز لٹاتے ہیں ان کے ہاتھ مروڑے جائیں یا پھر جو رقم یونی سیف، ایشین بینک اور امیر ممالک سے آرہی ہے۔ اس کو مساوی سطح پر تقسیم کیا جائے۔

ایک دن مریم بی بی نے اپنے رضا کاروں کو پورے پنجاب کا سروے کرنے اور تباہی کا اندازہ لگانے کے لئے منتخب کیا، مناسب یہ ہوتا کہ پٹواریوں اور لوکل گورنمنٹ کے تجربہ کار لوگوں کو گھر بنانے میںاور حکومتی عہدیداروں کو ساری سڑکیں، ڈیم اور پل بنانے کے لئے دوسری حکومتوں کے تجربہ کار رضا کار بلا کر بات آگے بڑھائی جاتی مگر یہاں تو ساس نندوں والا بے جا اور بے ضرورت مسئلہ چھیڑ دیا گیا ہے۔

پورے ملک میں اس سال برسات مئی سے شروع ہو کر ستمبر تک چلی ہے اور ابھی مزید بارشوں کا بھی خطرہ ہے ۔یوں تو ٹائی فون ابھی انڈونیشیا اورتھائی لینڈ میں رواں ہیں۔ دنیا موسم کے لحاظ سے بالکل بدل گئی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ دس منزلہ عمارتیں جو مغرب کو دیکھ کر بنائی جانے لگیں پھر وہ زلزلے اور کلاؤڈ برسٹ سے زمین پر آرہی ہیں۔ ان کا متبادل، تلاش کرنے کو کم از کم تباہ شدہ ملکوں کے سینئر انجینئر اور ماہرین تعمیرات کیا پھر اسی ایک چھت، ایک کمرہ اور آنگن واپس دیں گے۔ مگر مغرب کی نقل میں ہم مشترکہ خاندانی نظام کو خیر باد کہہ کر، بیٹے ماں باپ کو خاندانی گھروں سے نکال کر پریم چند کے افسانے شطرنج کا منظر واپس لے آئے ہیں۔

اب ہر روز یو ٹیوب پر بزرگوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ ’’پریشان نہ ہو، تنہا مت رہو۔ دوستوں کی چوکڑی جماؤ۔ کیسے اچھے خیال ہیں۔‘‘ جب کہ ہمارے دیہاتوں میں ایک کمرے کے گھر بنائے گئے۔ پھر مچھروں نے ڈینگی پھیلا دیا۔ سب پارٹیاں مل کر بیٹھیں تو شاید سیاسی ریت کی آندھی قابو میں آ سکے۔

تازہ ترین