• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک زمانہ تھا ، جب انسان کے دکھ سکھ محدود تھے۔ اسے اپنے اہلِ خانہ یا زیادہ سے زیادہ قبیلے والوںسے کوئی خوشی یا کوئی غم نصیب ہوتا ۔ایک زمانہ تھا، جب کہیں میلہ منعقد ہوتا تو انسان کو کھیل تماشہ دیکھنے کو ملتا۔ وقت بدلتا گیا۔ سینما ہاؤس وجود میں آئے ۔ کمپیوٹر ایجاد ہوا۔ فون کب کا ایجاد ہو چکا تھا۔ ٹیکنالوجی سستی ہوتی چلی گئی ۔ پہلے پہل امرا میںسے کوئی ٹی وی خریدتا تو پورا گاؤں نظارہ کرنے آتا۔انٹرنیٹ ایجاد ہو گیا۔ خشکی اور سمندر میں تاریں بچھا دی گئیں ۔ پوری دنیا کے انسان ایک دوسرے کے ساتھ مستقل رابطے میں آگئے ۔ یہاں سے بربادی کا آغاز ہوا۔ انٹرنیٹ سے مزین اسمارٹ فون میں وہ سب کھیل تماشے موجود ہیں، جس کا کسی سینما اور میلے میں تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا۔ فیس بک، واٹس ایپ، ٹویٹر، نوٹیفکیشن پہ نوٹیفکیشن ۔ انسان کی زندگی ہی نوٹیفکیشن بن کر رہ گئی ۔ نوٹیفکیشن کی طرف دھیان ہوا اور گاڑی نہر میں جا گری۔

محفل میں انسان کی باڈی لینگوئج بدل جاتی ہے ۔ نمایاں ہونے اور توجہ ملنے پر انسان کو سرور حاصل ہوتاہے ۔محفل میں اگر خواتین بھی آپ کی بات پر قہقہے لگائیں تو کئی جبلتوں کا تعامل ۔ ایک شخص کی بات پر قہقہہ بلند ہو تو دماغ میں سرور انگیز کیمیکلز خارج ہوتے ہیں۔ اسی لیے محفلوں میں جملے بازی ہوتی ہے ۔اب جتنی دیر محفل جمی رہے گی، وہ نشے کی دوسری ڈوز حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے گا، فقرے اچھالتا رہے گا۔ یوں دشمنیاں پڑیں گی۔ محفلیں تو کبھی کبھار جمتی ہیں ۔ سوشل میڈیا کی محفل کا چراغ گُل ہوتا ہی نہیں ۔

عام محفل میں دو چار لوگ ہوتے ہیں ۔سوشل میڈیا کی محفل میں پچاس ہزار فالوورز آپ کے اور دو لاکھ اُس کے ، جس پر فقرہ اچھالا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہنسانے پہ لذت بھی زیادہ ملتی ہے مگر چوٹ کا درد بھی شدید۔ لوگ ایک دوسرے کے سیاسی اور مذہبی نظریات پہ چوٹ کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے ہیرو کی تذلیل کرتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ سوشل میڈیا تو ایک ہنڈولا ہے ۔ لوگ آپ کے پانچ سال پہلے کی ایک پوسٹ پہ تبصرہ کریں گے ، جو مضحکہ خیز ثابت ہو چکی ہوگی ۔ مکرنے کی کوئی صورت نہیں ۔بعض اوقات کوئی شخص واقعی گہری حکمت آمیز بات کرتا ہے ۔ اس کے بعد ہوتا وہ ہے جو میاں محمد بخش نے کہا تھا:

خاصاں دی گل عاماں اگے، نئی مناسب کرنی

مٹھی کھیر پکا محمد کتیاںا گے دھرنی

قصورآٹھویں فیل کے سامنے پی ایچ ڈی مقالہ پیش کرنے والے کا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح فالوورز کی تعداد بڑھتی ہے ، اسی طرح دشمنوں کی بھی۔ وہ تاک میں ہوتے ہیں کہ آپ سے کوئی حماقت سرزد ہو ۔ اس دنیا کی سب سے خطرناک شے کیا ہے ؟ انسان سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں ۔ انسان کو بھی مگر انسان ہی مارتا ہے ۔ ہر دماغ اپنے اندر ایک پوری کائنات ہے ، خواہ ان پڑھ ہو۔ ہر انسان میں دوسرے کو ٹرول کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ جب آپ ایک لاکھ فالوورز کے سامنے روز پیش ہو رہے ہیں اور انکے سامنے بھی ، جنکے اپنے لاکھوں فالوورز ہیں تو آپ مستقل خطرے میں ہیں ۔ایک نہ ایک دن وہ نکتہ بھی آپ کے گلے پڑ جائے گا جو تحریر لکھتے ہوئے آپ کے ذہن میں تھا ہی نہیں ۔ جو جتنا زیادہ نامور ہے، اتنازیادہ خطرے میں ۔ سوشل میڈیا پہ تحریکِ انصاف والے غالب ہیں ۔ ان کے احساسات یہ ہیں کہ ہمارے لیڈر کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے ۔ فلاں دانشور کو دوسروں کی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا، خان کی آنکھ کا تنکا نظر آجاتا ہے ۔ پھر وہ اس شخص کو ٹرول کرتے ہیں ۔لکھنے والے نے پہلی بار ایسی ٹرولنگ دیکھی ہوتی ہے ۔ اس کاسکون برباد ہو جاتاہے ۔ پھر یا تو وہ مستقل خاموش اور رنجیدہ ہو جاتاہے ، یا مستقل طور پر تحریک ِ انصاف پہ چوٹ کرنے میں مصروف ۔

اس سب میں جو چیز بری طرح ضائع ہوتی ہے ، وہ وقت ہےاورسکون بھی ۔ آپ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اچھا وقت گزارنے کے قابل نہیں رہتے ۔کالم لکھنے کی توتنخواہ ملتی ہے ۔سوشل میڈیا پہ مگر آپ فی سبیل اللہ دوسروں کی چھترول کر رہے ہیں اور اپنی چھترول کروا رہے ہیں ۔ جب انسان خطرے میں ہوتا ہے تو اس کے جسم میں اہم کیمیکلز خارج ہوتے ہیں ۔ سوشل میڈیا کی اس جنگ میں آپ کی ذہنی و جسمانی صحت کا جنازہ نکل جاتا ہے ۔نفس اپنی تذلیل کا رنج کبھی نہیں بھولتا۔

یوں یہ سوشل میڈیا، جسے آپ کھیل تماشہ سمجھے تھے، بربادی بن جاتا ہے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو روزانہ خطاب کرنے کی کوئی ضرورت ہے بھی نہیں کہ وہ کسی اخبار یا ٹی وی میں ملازم نہیں ۔ فوکس کرنے کی صلاحیت برباد ہو جاتی ہے ۔ آپ کا ذہن غیر ارادی طور پر مستقل اگلے کانٹینٹ کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔آپ سوشل میڈیا کے پسِ منظر ہی میں جینا شروع کر دیتے ہیں تاکہ لائکس حاصل کر کے حب جاہ اور غلبے کی جبلت سے تسکین حاصل کر سکیں ۔

یہی وقت اگر آپ کس فن یا عبادت میں بسر کرتے تو آپ کے درجات کتنے بلند ہو جاتے ۔ روز چند آیات یاد کریں ، ایک دن آپ حافظ بن جائیں گے ۔روزانہ فیس بک استعمال کرنے سے آپ کیابنیں گے ؟ آپ کا زیادہ تر وقت دوسروں کے کمنٹ پڑھنے میں گزرے گا۔آپ کی دیکھا دیکھی آپ کی اولاد بھی یہی سیکھ رہی ہے ۔ آپ اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ کے ساتھ توجہ سے بات نہیں کر سکتے ۔آپ کو ایک نشئی کی طرح سوشل میڈیا کے نشے میں غرق کر دیاگیا ہے ۔ اس سوشل میڈیا میں ، جس پہ ایک دن آپ کو بے عزت ہو کر رہنا ہے ، خواہ آپ کتنے ہی چالاک ہوں۔ آپ نیک نیتی سےمذہبی خیالات بھی پیش کریں توایسا ایسا تیز و تند اختلاف دیکھیں گے کہ حیرت ہوگی ۔ مفت مشورہ دیں گے اور ذلیل ہوں گے ۔

سوشل میڈیا ایک کیچڑ کی مانند ہے ۔خاک آلود ہوئے بغیر آپ دوسروں کو داغدار نہیں کر سکتے ۔ یہ سب دیکھ کر انسان سوچنے لگتا ہے کہ میں کیوں یاجوج ماجوج کی طرح فیس بک کی اس دیوار کو چاٹ رہاہو ں جو کل پھر اتنی ہی بلند ہو جائے گی ۔یہ وہ مشقت ہے ، جس کا حاصل کچھ بھی نہیں ۔ کھایا پیا کچھ نہیں ، گلاس توڑا بارہ آنے۔

تازہ ترین