قطر میں حماس کی سیاسی قیادت پر اسرائیل کے حملے نے مشرق وسطی میں فوجی کشیدگی کے خطرات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے پہلے اسرائیل اسی طرح کی کارروائیوں میں ایران میں موجود حماس کی قیادت کو نشانہ بنا چکا ہے جبکہ فلسطین کے نہتے عوام پر اسرائیل کے مظالم کا سلسلہ بھی اکتوبر 2023 ءسے مسلسل جاری ہے اور اس دوران 64 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ اس عرصے میں اسرائیل اپنے ہمسایہ مسلم ممالک میں بھی متعدد مرتبہ اسی نوعیت کی فوجی کارروائیاں اور حملے کر چکا ہے جو کہ مسلمہ عالمی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اسرائیل کا حالیہ حملہ اس لحاظ سے بھی تشویشناک ہے کہ قطر نہ صرف امریکہ کا اتحادی ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈا بھی یہیں موجود ہے۔ اس کے باوجود امریکہ نے نہ صرف اسرائیل کے قطر پر حملے کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا بلکہ اس کے بعد بھی اسرائیل کی کھل کر مذمت نہیں کی بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی قرار داد کی مخالفت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ اسے قطر یا عرب ممالک سے تعلقات کی نسبت اسرائیل کی خوشنودی زیادہ عزیز ہے۔
واضح رہے کہ قطر کی حکومت امریکہ کی حمایت سے غزہ میں جنگ بندی کو یقینی بنانے کیلئے ہونے والے مذاکرات کی میزبانی اور ثالثی کر رہی ہے لیکن اسرائیل کے اس حملے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے امریکی پالیسی کو ماننے کیلئے بھی تیار نہیں ہے۔ اس حوالے سے قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے خطاب کے دوران بھی یہ نشاندہی کی ہے اسرائیل اس طرح کے اقدامات کرکے غزہ میں جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں کو پٹری سے اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو موجودہ صورتحال تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال عرب ممالک کیلئےلمحہ فکریہ ہے۔ اب ان ممالک میں یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ انہیں اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے امریکہ پر مکمل انحصار کی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سوچ کا اظہار حال ہی میں ہونے والی عرب اسلامی ممالک کے سربراہی اجلاس میں ہونے والی تقاریر سے بھی ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ دوحہ میں ہونے والے عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہوں کے ہنگامی سربراہی اجلاس میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیل کے حملے کی کھل کر مذمت کی گئی ہے لیکن اس حملے کا جواب دینے یا مستقبل میں اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ اس اجلاس میں جہاں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت مشترکہ دفاعی طریقہ کار کو فعال بنانے پر زور دیا گیا وہیں یہ تجویز بھی دی گئی کہ نیٹو کی طرز پر اسلامی ممالک کی مشترکہ فورس تیار کی جائے اور کسی بھی رکن ملک پر حملے کو سب پر حملہ سمجھ کر جواب دیا جائے۔
واضح رہے کہ گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے رکن ممالک کے سیکورٹی خدشات کو دور کرنے کیلئے پہلے ہی ایک دفاعی معاہدہ کیا ہوا ہے۔ تاہم اسرائیل کی جارحیت کو روکنے یا اس حوالے سے درپیش خطرات کا جواب دینے کیلئے یہ کونسل کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی ۔
دوسری طرف سربراہی اجلاس سے قبل رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈارنے اسلامی ممالک کے مشترکہ دفاع کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے یہ تجویز پیش کی تھی کہ خطے میں اسرائیل کی عسکری منصوبہ بندی کی نگرانی کیلئے ایک عرب-اسلامی ٹاسک فورس قائم کی جائے تاکہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کی روک تھام کیلئے ہم آہنگ طریقے سے مؤثر اقدامات کئے جا سکیں۔ قبل ازیں قطر پر اسرائیلی حملے کے فوری بعد وزیر اعظم شہباز شریف بھی قطر کا دورہ کرکے قطر سے کھل کر اظہار یکجہتی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری پر بھی زور دیا ہے کہ اسرائیل کو جنگی جرائم کیلئے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔ غزہ پر جاری حملوں سے لے کر ابتک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسرائیل کسی بھی عالمی قانون کا احترام کرنےکیلئے تیار نہیں ۔
ایک ایسے وقت میں جب غزہ امن معاہدے پر مذاکرات ایک ممکنہ پیش رفت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اسرائیل نے ایک اہم ثالث ملک کی سرزمین پر حملہ کرکے عالمی سفارت کاری کو سبوتاژ کرکے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوشش سے پیغام دیا ہے کہ وہ آئندہ بھی عرب ممالک میں اس نوعیت کی فوجی کارروائیاں کر سکتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل خطے میں امن کے ہر امکان کو عسکری طاقت کے بل بوتے پر ختم کرنے پر تلا ہوا ہے۔
اس کے باوجود عرب اسلامی ممالک کے سربراہی اجلاس کے اعلامیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عرب ممالک اب بھی امریکہ سے یہ امید لگائے ہوئے ہیں کہ وہ اسرائیل کے جارحانہ عزائم کو روکنے میں ان کی مدد کرے گا۔
اگرچہ سفارتی سطح پر یہ کوشش جاری رہنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کو اسرائیل سے دفاع کیلئے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کیلئے بھی تیاری شروع کر دینی چاہیے۔ اس حوالے سے پاکستان ناصرف ان کی بھرپور مدد کرسکتا ہے بلکہ انہیں اسرائیل کی کسی بھی ممکنہ جارحانہ کارروائی سے محفوظ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔