اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے اپنی سچائی کے ذریعے دنیا میں انقلاب برپا کیا اور انصاف پسندی کے ذریعے معاشرے کی مکمل تشکیل میں مدد دی۔ مکمل معاشرہ انسان کو اسکی عظمت کا احساس دلاتا ہے۔ پوری دنیا معاشرتی بگاڑ کی شکار ہے جسکے اثرات ریاست 'حکومت اور معیشت پر پڑ رہے ہیں اور ریاستوں کے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پرانے زمانے کے رسم و رواج کو ہم نے چھوڑا نہیں پاکستان میںاب بھی غیرت کے نام پر قتل و غارت کا سلسلہ کئی جاری ہے جس سے معاشرے پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ہمارے ہاں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین اور مردوں کو بھیانک طریقہ سے قتل کرنا معاشرے کی روایات تصور کیا جاتا ہے اسلام ایسی قتل و غارت کی ممانعت کرتاہے اورکسی کو ناحق قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں بے شمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ پاکستان کے دوسرے صوبوں کی نسبت بلوچستان میں قبائلی نظام کے سبب اسکا رواج زیادہ ہے ۔ بلوچستان کے اپنے رسم و رواج کیساتھ روایتی قوانین بھی ہیں کچھ ماہ قبل غیرت کے نام پر ایک شادی شدہ جوڑے کو جرگے کے فیصلے پر پسند کی شادی کرنے پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا، سوشل میڈیا پر یہ اسٹوری ٹاپ پر رہی۔ صوبائی حکومت نے اس پر ایکشن لیا مریم نواز شریف نے بھی اسکی شدید مذمت کی اور ایسے واقعات کو معاشرہ کا ناسور قرار دیا۔ اس واقعہ کا نوٹس بلوچستان ہائیکورٹ نے لیا۔ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نے کوئٹہ کے نواحی علاقے ڈیگاری میں پسند کی شادی کرنیوالے جوڑے بانو ستک زئی اور احسان اللہ سمالانی کے قتل کا نوٹس لیکر ایڈیشنل چیف سیکریٹری اور آئی جی بلوچستان کو طلب کیا۔ دوسری جانب کوئٹہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ اختر شاہ نے مقتولہ کی قبر کشائی کا حکم بھی دیا۔ علاوہ ازیں بلوچستان کے علاقے سنجدی ڈیگاری میں پیش آنیوالے افسوسناک واقعے میں 20 ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ واقعے کا مقدمہ بھی ہنہ اوڑک تھانے میں درج کیا گیا ۔کوئٹہ پولیس نے ملزمان کیخلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ زیر دفعہ 302ت پ اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔ مدعی نے تھانہ میں تحریری درخواست دی تھی کہ ویڈیو وائرل ہوئی جس میں خاتون اور مرد کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔ایف آئی آر کے متن کے مطابق پولیس نفری کے ہمراہ جائے وقوعہ سنجدی ڈیگاری مارگٹ پہنچی معلومات کرنے پر علم ہوا کہ واقعہ عیدالاضحیٰ سے تین روز قبل کا ہے، واقعہ میں بانو بی بی اور احسان اللہ کو فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ مدعی مقدمہ کا کہنا تھاکہ تمام افراد مرد اور خاتون کو قتل کرنے سے قبل سردار شیر باز خان کے پاس لیکر گئے، واقعہ کے دوران ویڈیو بنائی گئی اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپ لوڈ کر کے عوام میں خوف و ہراس پھیلایا گیا۔ فائرنگ کرنیوالوں میں شاہ وزیر، جلال، ٹکری منیر، بختیار، ملک امیر، عجب خان شامل تھے، سردار شیر باز خان نے فیصلہ سنایا کہ خاتون اور مرد کار و کاری کے مرتکب ہوئے انہیں قتل کر دیا جائے۔معاملے میں جان محمد، بشیر احمد اور دیگر 15نامعلوم افراد بھی شامل تھے فیصلے کے بعد مرد اور خاتون کو گاڑیوں میں لیکر سنجدی ڈیگاری مارگٹ لاکر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ اس واقعہ کو کافی ماہ گزر چکے ہیں مگرصوبے کے عوام میں ابھی تک خوف وہراس پھیلا ہوا ہے۔ اسلام امن کا درس دیتا ہے اور ایسے واقعات کو نا حق کہتا ہے معاشرے میں ایسے واقعات کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ۔ اس بات کی نہ معاشرہ اجازت دیتا ہے نہ ہی حکومت اجازت دیتی ہے۔ ریاست اور حکومت کو ملزمان سے تھوڑی سی بھی نرمی نہیں برتنی چاہئے۔ غیرت کے نام پر قتل سے معاشرے میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے جرگہ سسٹم کو ایسے فیصلے کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں کیونکہ اسلام اور معاشرہ باہمی رضا مندی سے شادی کرنیکی اجازت دیتا ہے۔ بلوچستان اور ملک کے دیگرعلاقوں میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ریاست کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے اعدادوشمار کی بابت ایک رپورٹ گزشتہ دنوں سامنے آئی ہے جسکے مطابق بلوچستان میں گزشتہ 6برس کے دوران غیرت کے نام پر 232 افراد قتل کئے گئے۔ بتایا گیا کہ نصیرآباد میں 73، جعفرآباد میں 23مردوخواتین غیرت کے نام پر قتل کئے گئے۔ مستونگ 18،ضلع کچھی میں 17افراد جھل مگسی میں 18اور کوئٹہ میں 11مرد وخواتین کاروکاری کی نذر ہوئے جبکہ 2019ء میں 52، 2020ء میں 51 افراد غیرت کے نام پر قتل کئے گئےسال 2021ء میں 24،2022ء میں 28افراد،2023ء میں 24افراد غیر ت کے نام پر قتل کئے گئے۔ سال 2024ء میں 33افرادکو سیاہ کاری کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ رواں سال اب تک 33افراد غیرت کے نام پرقتل ہوئے جن میں 19خواتین اور 14مرد شامل ہیں۔