’’جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اِس ہفتے ایک بڑی بزنس ڈیل کے سلسلے میں ’’دی اسٹائلش ہوم‘‘ کی جنرل مینجر بزنس اینڈ ڈویلپمینٹ کے ساتھ ہماری میٹنگ ہے۔ اِس میٹنگ میں میرے ساتھ آفان، حیدر اور اریحا ہوں گے۔ آپ لوگوں کے ٹاسکس، مَیں آپ کو تھوڑی دیر تک ای۔میل کرتا ہوں۔ آپ سب اچھی طرح تیاری کر لیجیے گا۔ کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ عادل صاحب نے رواں ہفتے میں ہونے والی ایک اہم میٹنگ سے متعلق اپنی ٹیم کو بریفنگ دی۔ عادل صاحب اِس کنسٹرکشن کمپنی میں جنرل مینجر کے عُہدے پر تھےاور اُن کی کوششوں ہی سے یہ ڈیل ہونے جا رہی تھی ۔
اگر یہ ڈیل فائنل ہوجاتی اور اُنھیں ’’دی اسٹائلش ہوم‘‘ کا تعمیراتی پراجیکٹ مل جاتا، تو کمپنی کو بڑا منافع ہوتا اور اُس کے نتیجے میں عادل صاحب کے عُہدے اور مراعات میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ اِس سے پہلے ’’دی اسٹائلش ہوم‘‘ کے مختلف عہدے داران سے اُن کی چار پانچ میٹنگز ہو چُکی تھیں، بس ڈیل کے فائنل ہونے یا نہ ہونے کا انحصار اِسی میٹنگ پر تھا، سو، وہ اِس میٹنگ پربہت سنجیدگی سےکام کر رہے تھے۔ آفان اور حیدر اُن کی ٹیم کے منجھے ہوئے ممبرز تھے اور اریحا تجربہ کار ہونے کے ساتھ ساتھ خاصی فیشن ایبل اور آزاد روش خاتون تھی، جو محنت سے زیادہ اپنی اداؤں، مختصر،چست لباس اور لگاوٹ بَھرے انداز سے کام نکلوانا جانتی تھی۔ اور وہ اپنےاِس انداز کو اپنے پروفیشن کی ’’ڈیمانڈ‘‘ کہتی تھی ۔
میٹنگ کا دن آن پہنچا۔ عادل صاحب اپنی ٹیم سمیت وقت سے پہلے کانفرنس روم موجود تھے۔ سب انتظامات مکمل تھے۔ وقتِ مقررہ پر’’دی اسٹائلش ہوم‘‘ کی جنرل مینجر، سعدیہ خان اپنی ٹیم کے ہم راہ کانفرنس رُوم میں داخل ہوئیں تو سب نے کھڑے ہو کراُن کا استقبال کیا۔ باقی سب تو اپنی اپنی سیٹس پر بیٹھ گئے، مگر عادل صاحب توجیسے بیٹھنا بھول ہی گئے ۔ وہ حیرت سے مغلوب، ٹکر ٹکر سعدیہ خان کی شکل دیکھ رہے تھے،جب کہ عادل صاحب کی ٹیم اپنے باس کے ردِعمل پر بہت حیران سی اُنھیں تَک رہی تھی۔
’’عادل صاحب! بیٹھیے پلیز۔‘‘ معاً سعدیہ خان کی دھیمی، مہذّب وشائستہ سی آوازاُبھری۔ ساتھ ہی اُنھوں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا، تو عادل صاحب نے فوراً خُود کو سنبھالا اور اپنی کرسی پر ٹک گئے۔
……٭٭……٭٭……
پانچ سال پہلے کا وہ دن، سعدیہ خان کبھی نہیں بھولی تھی اورعادل صاحب نے کبھی وہ دن یاد نہیں کیا تھا۔ پانچ سال پہلے عادل صاحب اِس کمپنی میں بطور مینیجر آئے تھے، اُس وقت ان کو بزنس ڈویلپمینٹ کے لیے اپنی ٹیم بنانی تھی۔ دو لوگ پہلے سے کام کررہے تھے۔ ایک سعدیہ خان اور دوسرا مکرم مرزا۔ دونوں کی کارکردگی سے کمپنی مطمئن تھی۔ تاہم، عادل صاحب کو اپنی ٹیم کے لیے تین نئے لوگوں کی تعیناتی کی اجازت دی گئی تھی۔ سعدیہ خان کے کام میں کبھی کوئی کوتاہی یا کمی نہیں ہوتی تھی، مگر عادل صاحب کو اُس کےحلیے سے سخت کوفت ہوتی تھی۔
سعدیہ خان شلوار قمیص یا کُرتے پاجامے کے ساتھ، جسم اور شانوں پر پورا دوپٹا پھیلا کراوڑھتی اورساتھ سر پرحجاب ہوتا۔ عادل کے پچھلے آفس میں اِس پوسٹ پر کام کرنے والی لڑکی بہت ماڈرن تھی اور عادل کے نزدیک سیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق ایسی ہی ماڈرن لڑکی کی ضرورت یہاں بھی تھی۔ سعدیہ کوعادل صاحب کام کے حوالے سےتو کچھ کہہ نہیں سکتے تھے، توکسی نہ کسی حوالے سے اُس کے پہناوے اور حجاب کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔ عادل صاحب کو اپنے ارد گرد بَنی سنوری، فیشن ایبل، بولڈ، شوخ وشنگ تتلیوں سی لڑکیاں ہی اچھی لگتی تھیں۔
’’سعدیہ! آپ اگراپنااسٹائل تھوڑا سا بدل لیں، تو بہت ترقی کریں گی۔‘‘ شروع میں سعدیہ اُلجھ کر اُن کی طرف دیکھتی اورخاموش رہتی، مگرجب یہ بات روز روز ہونے لگی، تو اُس کا ضبط بھی جواب دے گیا۔ ’’کیا ہوا ہے، میرے اسٹائل کو؟‘‘ ایک روز اُس نے پوچھ ہی لیا۔ ’’دیکھیں ناں، اتنا کچھ تو پہنا ہوتا ہے آپ نے…‘‘ اُنھیں کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ ’’کیا مطلب…؟‘‘وہ بھی آج کُھل کر بات کرنے کے مُوڈ میں تھی۔ ’’مطلب، یہ حجاب وغیرہ اب کون لیتا ہے۔ اگر آپ یہ حجاب اُتارکرخُود کو تھوڑا سا ماڈرن کر لیں، تو مَیں آپ کی پروموشن کردوں گا۔
خُود کو تھوڑا سا بدل کر آپ بہت اُوپر جاسکتی ہیں۔‘‘عادل صاحب نےاُسے جیسے لالچ دیا۔ ’’دیکھیے سر! یہ حجاب مَیں نےاللہ کے حُکم کی پابندی میں لیا ہوا ہے، اِس لیے یہ تو نہیں اُترے گا۔ رہ گئی بات، ترقی کی، تو مَیں ایسے ترقی سےباز آئی، جو آپ کو غلط طریقے اور راستے سے جا کر حاصل کرنا پڑے۔ باقی رہ گئی بات ’’آج کل‘‘ کی، تو سو سال بھی گزرجائیں، تو حرام ، حرام ہی رہے گا، حلال نہیں بن جائے گا۔‘‘ وہ دوٹوک بات کرکے وہاں سے اُٹھ گئی۔ ’’میری ایک بات یاد رکھنا، یہ حجاب تمھاری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا رہے گا۔‘‘ عادل صاحب کا جملہ اُس کی پشت پر گونجتارہا۔
عادل صاحب کوسعدیہ خان کی یہ جرأت ذرا پسند نہ آئی تھی۔ وہ اُسے بہانے بہانے سے تنگ کرنے لگے۔ کام زیادہ اور وقت کم دینے لگے، جس سے یقینی طور پر اُس کا کام متاثر، کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے۔ لیکن اِس سے پہلے کہ عادل صاحب اُس کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر اُسے نوکری سے برخاست کرتے۔ اُس نے خود ہی استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ فیصلہ بظاہر اُس کے خلاف جا رہا تھا، مگر اُس کا دل مطمئن تھا کہ اُس نے دنیاوی فائدے کے لیے اللہ کے حُکم سے رُوگردانی نہیں کی۔
’’ہماری ترقی اور کام یابی کا راستہ تب رُکتا ہے، جب ہم اللہ کے بنائےقوانین اور احکام سے رُوگرادنی کرتے ہیں۔ اللہ کے احکام ماننے والوں کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں کام یابی اور ترقی کاوعدہ ہے۔ یہ لیجیے، میرااستعفیٰ، زندگی رہی، تو کبھی یہ بات آپ پر بھی ثابت ہوجائے گی۔‘‘ و ہ اپنا استعفیٰ عادل صاحب کی میز پر رکھ کرباہر نکل آئی تھی۔ عادل صاحب تلملا کر رہ گئے، مگر کچھ کر نہ سکے۔ وہ دُبلی پتلی، سادہ سی لڑکی اتنی مضبوط تھی کہ اپنا استعفیٰ اُن کے منہ پر مار گئی تھی۔ عادل صاحب کے سارے الفاظ، سارے بیان اُس وقت ساکت و خاموش کھڑے تھے۔
……٭٭……٭٭……
وہی سعدیہ خان، آج اُسی ’’حُلیے‘‘ میں عادل صاحب کے برابر منصب پر بیٹھی پوری کام یابی سے اپنی ذمّے داریاں نبھا رہی تھی۔ اُس کمپنی کی ملازمت چھوڑنےکےتھوڑے عرصے بعد ہی سعدیہ خان کو ’’دی اسٹائلش ہوم‘‘ میں جاب مل گئی تھی، جہاں اُس نےاپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور آج وہ اپنی محنت کے جائز صلے کے طور پر جنرل مینیجر کے عُہدے پر کام کر رہی تھی۔ میٹنگ کے دوران جس طرح اُس نے ہرپوائنٹ پرتنقیدی، مگر مثبت بات چیت کی، اُس سے سب کواُس کی پیشہ وارانہ مہارت کابہت اچھی طرح اندازہ ہو رہا تھا۔
چار گھنٹے کی طویل میٹنگ کے بعدڈیل تقریباًفائنل ہوگئی تھی۔ ہر ایک سعدیہ خان کے سلجھے، محتاط اور مثبت اندازِ گفتگو سے بےحدمتاثر نظر آرہا تھا۔ میٹنگ کے بعد لنچ تھا۔ سعدیہ خان نے معذرت کر لی کہ دوسرے ہاف میں اُن کی کسی اور کمپنی کے ساتھ میٹنگ ہے۔ عادل صاحب شرمندہ سے نظریں چُرائے پِھررہے تھے۔ سعدیہ خان نے ثابت کیا تھا کہ اُس کا حجاب اُس کی دنیاوی ترقی میں ہرگز رکاوٹ نہیں تھا بلکہ اپنی پرانی کمپنی چھوڑنے کےبعد تو اُسے نئے سرے سےتگ ودو کا آغاز کرنا پڑا، مگر وہ ہمّت نہیں ہاری، نہ ہی اپنی سوچ اور انداز بدلا لیکن پھر یہ بھی تھا کہ دنیا میں سب لوگ عادل صاحب جیسی سطحی سوچ بھی نہیں رکھتے۔ کئی باشعور اور گہری سوچ رکھنے والے تہہ میں چھپے گُہر تلاشتے ہیں اور اُن کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، نہ کہ ظاہری حلیے سے جانچ کر ٹُھکرا دیتے ہیں۔