گزشتہ دنوں مجھے سعودی عرب کے سفر کا موقع ملا۔ یہ سفر محض ایک مشاہدہ نہیں بلکہ احساس، ایمان اور تعلق کی ایک روحانی داستان بن گیا۔ جدہ کی سمندری ہوا میں تجارت اور ترقی کی خوشبو تھی، مکہ مکرمہ کی فضاؤں میں طہارتِ دل، مدینہ منورہ کی گلیوں میں رحمت و محبت کا سکون، اور ریاض کی شاہراہوں پر جدیدیت اور وژن 2030ءکی جلوہ گری۔ یہاں کام کرنیوالے پاکستانی اپنی محنت، دیانت اور خلوص سے اس مقدس سرزمین کے تعمیری خوابوں کو حقیقت بنا رہے ہیں۔ جدہ کے صنعتی علاقوں سے لے کر ریاض کے تعمیراتی منصوبوں تک، پاکستانی قوم کا کردار نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ میں نے مزدوروں، انجینئرز، ڈاکٹروں، تاجروں اور طلبہ سے گفتگو کی، ان کی باتوں میں وطن کی خوشبو، آنکھوں میں اُمید کی روشنی اور دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ پاکستان ترقی کرے اور سعودی عرب کے ساتھ اس کے تعلقات مزید مضبوط ہوں۔ اس سفر کے دوران میری ملاقات کئی کامیاب پاکستانیوں سے ہوئی۔ یوں تو یہاں کا ہر پاکستانی ایک اپنی الگ داستان لیے ہوئے ہے۔اپنی جوانی کے قیمتی سال سرزمین حرمین کو دے کر نہ صرف انہوں نے سعودی عرب کی ترقی میں مثالی کردار ادا کیا بلکہ پاکستانی معیشت کو بھی سہارا دیا ہے۔جدہ میں میری ملاقات جناب مطلوب الٰہی صاحب سے ہوئی جو اس وقت کئی بڑی کمپنیوں اور اداروں کو تکنیکی سپورٹ فراہم کر رہے ہیں اور جدہ کے کامیاب پاکستانی بزنس مینوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہی کے ہمراہ مجھے عمرہ کرنے کا سعادت نصیب ہوئی۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران روضہ رسولؐ پر کئی پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی مختلف کاروبار سے منسلک پاکستانی یہاں پر بھی اپنی قابلیت اور اہلیت کا لوہا منوائے ہوئے ہیں۔یہاں پر حاجی یونس بلوچ صاحب کے کاروباری ویژن نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ریاض میں قیام کے دوران حیرت انگیز انکشافات میرے سامنے تھے میں یہاں پر ایسے لوگوں سے ملا جن کو یہاں آئے ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر خالد بخش ان میں سے ایک تھے۔یوں تو دنیا بھر میں پاکستانی ڈاکٹرز عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں لیکن ریاض میں ڈاکٹر خالد کی عزت اور مقام انکے کردار کا منہ بولتا ثبوت تھا۔آپ ریاض کے بااثر شہریوں میں شمار ہوتے ہیں۔سعودی شاہی خاندان کیساتھ قریبی مراسم رکھتے ہیں اور یہ پاکستان کے ایسے سفیر ہیں جنہیں نمود و نمائش کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ وہ سر جھکائے خاموشی کے ساتھ پس منظر میں رہ کر پاکستان کے سفیر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ رانا محمد اشرف رانا حیدر علی اور ان کے خاندان یہاں پر 45 سالوں سے مقیم ہیں اور سعودی عرب کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔کچھ پاکستانی نوجوان بھی مجھے ملے جو اب ترقی کے زینوں پر قدم رکھ رہے ہیں۔ مبشر حسن گوندل ان میں سے ایک تھے جو ایک بڑی کمپنی میں ایگزیکٹو کے عہدے پر فائز ہیں اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگ انکے ماتحت کام کر رہے ہیں۔یہ مجھے بتا رہے تھے کہ اب پاکستانی نوجوان،یورپین امریکن اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے وابستہ پروفیشنلز کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں اور کئی کمپنیوں میں ایگزیکٹو عہدوں پر موجود ہیں۔ ریاض میں ہی ملک ساجد محمود خالد سے ملا جو کہ تعمیراتی کمپنی میں کام کرتے ہیں ان کی اہلیت اور قابلیت دیکھ کر سر فخر سے بلند ہوگیا کہ ایسے نوجوان جو سعودی عرب کی ترقی میں متحرک کردار ادا کر رہے ہیں اگر پاکستان میں ان کو موقع فراہم کیا جائے تو وہ پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ریاض میں ادبی تنظیم حلقہ فکر و فن نے ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا جسکے روح رواں کامران حسانی اور مسلم لیگ ن ریاض کے صدر عدنان بٹ تھے۔وقار نسیم وامق،پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما وسیم سجاد،،رانا عمر فاروق جنرل سیکرٹری مجلس پاکستان، بابائے ریاض قاضی اسحاق میمن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان، اہل قلم اور اور اہل علم سے خوبصورت ملاقات نے روح کو سرشار کر دیا۔سب احباب اور تنظیمات کا مفصل ذکر تو ممکن نہیں لیکن میں علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ سعودی عرب میں موجود تارکین وطن نے مجھے حیران کر دیا ہے یہ لوگ خاموشی سے سعودی عرب اور پاکستان کے مابین ایک ایسے پل کا کردار ادا کر رہے ہیں جو مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو نہ صرف مضبوطی فراہم کرے گا بلکہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں لاکھوں پاکستانی اس وقت خدمات سر انجام دے رہے ہیں یہ سارے لوگ پاکستان کے سفیر ہیں یہ سب پاکستان کے پرچم بردار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی ایسے کاروباری اور تعمیراتی ماحول پیدا کیا جائے کہ ان کی خدمات سے یہاں پر بھی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ یہ لوگ پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کرنے کے خواہشمند ہیں اگر انہیں یہاں پر تحفظ میسر ہو،یہ لوگ پاکستانی معیشت کو آکسیجن فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ پاکستانی نوجوانوں کو دربدر ہونے سے بچا سکتے ہیں اگر انکی صلاحیتوں پر اعتماد کیا جائے۔ اگر دونوں ممالک اس اخوت کو تعلیم، ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کی سمت لے جائیں تو یہ دوستی نہ صرف دونوں قوموں کیلئے خوشحالی کا ذریعہ بنے گی بلکہ پوری امتِ مسلمہ کیلئے ترقی و استحکام کا پیغام ثابت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کو بھی اپنے بیرونِ ملک شہریوں کو صرف ترسیلاتِ زر کا ذریعہ نہیں بلکہ قومی ترقی کے حقیقی سفیر سمجھنا چاہئے۔