• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بلوم برگ‘‘ کی تازہ رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کی ابھرتی معیشتوں میں دوسرے نمبر کی حامل ریاست کہا گیا ہےاورپاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں سب سے بڑی کمی دکھائی۔بلوم برگ کے اعداد و شمار کے مطابق ابھرتی ہوئی معیشتوں میں صرف ترکیہ پاکستان سے آگے ہے۔ رپورٹ کے بموجب گزشتہ 15ماہ (جون 2024سے ستمبر 2025ء تک) میں پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات کے حوالےسے 2200پوائٹس کی نمایاں بہتری آئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد پائیدار معاشی بہتری کی راہ پر کامیابی سے گامزن ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی افریقہ، ایل سلواڈور اور دیگر ممالک کی معیشت میں بہتری بہت کم رہی جبکہ مصر، نائیجریا اور ارجنٹائن جیسے ممالک میں خطرات مزید بڑھے ہیں ۔ رپورٹ میں اخذ کیا گیا یہ نتیجہ برسوں سے معاشی مشکلات سے دوچار پاکستانیوں کے لئے حوصلہ افزا ہے کہ سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستانی معیشت برسوں سے جس سنگین کیفیت کی طرف بڑھتی محسوس ہو رہی تھی، اس سے نکلنے کے لئے میاں شہباز شریف کی حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سخت شرائط قبول کرنا پڑیں جن کے نتیجے میں عام لوگوں ،بالخصوص متوسط اور نچلے طبقے کے افراد کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ٹیکس اسٹرکچر میں بار بار تبدیلی ،پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا موجب بنی۔ یہ اضافہ دیگر اشیا پر لگائے گئے ٹیکس کے ساتھ مل کر مزید بھاری ہوتا رہا جبکہ اشیائے ضرورت یعنی سبزی، گوشت، اناج، مصالحہ جات سمیت کھانے پینے کی چیزوں اور لباس سمیت فوڈ باسکٹ کا حصہ کہلانے والی تمام چیزیں مہنگائی کی اونچی سطحوں کی طرف بڑھتی رہیں۔ یہ صورت حال پریشان کن ضرور تھی مگر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے پاکستانی عوام قومی جذبے کے ساتھ اپنی حکومت کے ساتھ کھڑے رہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط سخت تو ہوتی ہیں مگر مالیاتی ڈسپلن اور بعض معاملات میں دیرپا نتائج کی حامل اصلاحات لانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ وطن عزیز کے لئے آزمائش میں اضافے کی یکے بعد دیگرے جو صورتیں سامنے آتی رہیں ان میں حالیہ مون سون بارشیں اور ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب بھی شامل ہو گیا۔ یوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں گلیشیروں کے پگھلاؤ اور کلاؤڈ برسٹ سے آگے بڑھ کر پنجاب اور سندھ میں سیلابی ریلوں سےکھڑی فصلوں کی تباہی،پوری پوری بستیوں کے زمین بوس ہونے سمیت ایسے مسائل سامنے آئے جن کا اس سے پہلے تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ پنجاب میں صورت حال بہت زیادہ سنگین رہی جبکہ سندھ میں بھی غیر معمولی تباہی پھیلی، پوری پوری بستیوں کے لوگوں کو اپنے مویشیوں سمیت نقل مکانی کرنا پڑی۔ سیلابی پانی کی سطح اتنی بلند تھی کہ کشتیوں کا سہارا لینا پڑا۔ لاکھوں کی تعداد میں ہونے والی نقل مکانی کے متاثرین کو سایہ، بستر، خوراک ، دوائیں فراہم کرنے سمیت انتظامی مسائل اتنے وسیع تھے کہ اگر متعلقہ حکومتیں پہلے سے منصوبہ بندی نہ کرتیں تو نمٹنا مشکل ہو جاتا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے اپنی ٹیموں کے ساتھ خود سیلاب زدہ علاقوں میں جا کر امدادی کاموں کی نگرانی کی جبکہ سندھ کی پوری کابینہ بھی وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی سرکردگی میں متحرک رہی ۔ پختونخوا اور بلوچستان میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور اور سرفراز بگٹی نے دن رات متاثرین کی خدمت کیلئے ایک کر دیئے۔ مذکورہ رہنماؤں اور ان کی ٹیموں کی کاوشیں سراہے جانے کے قابل ہیں ۔ تاہم ہنگامی حالات میں اچھے سے اچھے انتظام میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں رہ جاتی ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے اور آئندہ برس جس سیلاب کی پیش گوئی کی گئی ہے اس کے ضمن میں مزید احتیاطی تدابیر ملحوظ رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اتنے بڑے امدادی انتظامات کے لئے خطیر سرمائے کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ بعد ازاں متاثرہ خاندانوں کی بحالی سمیت دیگراقدامات بھی بڑے سرمائے کے متقاضی ہوتےہیں۔ ان امور پر جو توجہ دی گئی وہ لائق تحسین ہے۔ اس باب میں بعض دوست ملکوں کے امدادی عطیات قابل قدر ہیں۔ تاہم حکومتی سطح پر سیلاب سے ہونے والے نقصانات کےازالے کیلئے تاحال عالمی امداد کی اپیل نہیں کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پہلے اپنے زور بازو پر معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کریں گے۔ مکمل اندازہ لگانے کے بعد اگر ضرورت پڑی تو عالمی برادری سے تعمیر نو کے لئے رجوع کریں گے۔ دو اکتوبر کو پشاور میں منعقدہ بزنس سمٹ بینک میں ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے اپنے وسائل کا صحیح استعمال کیا تو 2047 تک عالمی بینک کے اندازے کےمطابق 3ٹریلین معیشت بن سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آبادی اور موسمیاتی تبدیلی پر کنٹرول ہو تو ہم اس سے آگے بھی جا سکتے ہیں۔ محمد اورنگزیب کے مطابق تین عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کو اپ گریڈ کیا ہے تو اس سے کمرشل بینکوں اور عالمی اداروں کے ساتھ فنڈز کے معاملات میں بھی مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس 38ارب ڈالر ترسیلات زر آئیں جبکہ رواں برس41ارب ڈالر زرمبادلہ آنے کی توقع ہے۔ وزیر خزانہ کا مذکورہ بیان ملکی معیشت کے حوالے سے پر اعتمادی ظاہر کر رہا ہے۔ جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ملک میں سرمایہ کاری لانے اور تجارت بڑھانے کے لئے فیلڈ مارشل عاصم منیر، مختلف شعبوں کے ماہرین اور وزرا کے ساتھ دوست ملکوں کے دورے کئے۔ خلیجی، عرب وسط ایشیائی ملکوں کیلئے وزیر اعظم کے دورے اور پیر کے روز ملائیشیا میں موجودگی ثمر آور ہو رہی ہے۔ مختلف دوست ملکوں کے وفود کی پاکستان آمد کی صورت میں بھی معاہدوں، ایم او یوز وغیرہ پر دستخطوں سے دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے راستے کھلےہیں۔ صرف وسطی ایشیائی ملکوں سے تجارت 2.41ارب ڈالر تک جا پہنچی جبکہ اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سے تجارت بڑھانے اور اس ملک میں سرمایہ کاری کو خاص اہمیت دی۔ اسی طرح پاک سعودیہ دفاعی معاہدےسے جہاں پاک فوج کو حرمین شریفین کی حفاظت کیلئے وہاں اپنی پہلے سے موجودگی بڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ سعودی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں سمیت کئی صورتیں دونوں ملکوں کیلئے فائدہ مند ہونگی۔ اس معاہدے میں دیگر ملکوں کی شمولیت کے اثرات پاکستانی معیشت کیلئے مزید حوصلہ افزا ہونگے۔

تازہ ترین