یہ ہفتہ نوبیل انعام پانے والوں کیلئے مخصوص ہے۔ امن کا انعام بھی اس میں شامل ہے جس کوحاصل کرنے کی توقع میں بہت مجھ جیسے بے وقوف اور ملکوں کے سربراہ بھی شامل ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ امن کے مقابل بدامنی پھیلا نے والے کو انعام تو نہ دیا جائے جو دنیا بھر میں سڑکوں پر کھڑے امن پسند لوگوں کی عالمی رائے کو قابل توجہ ہی نہیں جانتا۔ اب چونکہ اسکو اسلحہ دینے والا اور فنڈز فراہم کرنے والا خود خواب خرگوش میں مبتلا ہے۔ اسلئے مجبوراً مذاکرات پر بیزاری کے ساتھ آمادہ ہوا ہے۔ 1967ء سے اب تک فلسطینیوں کو ان کے ملک سے کبھی نکالا، قتل کیا ،کبھی بھوکا مارا، کبھی غزہ کے سارے علاقوں کو غارت اور بچوں ، عورتوں کو بے گھر کیا ۔ یاسر عرفات جیسے رہنما اور محمود درویش جیسے شاعر، نوحہ گری کرتے اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے رہے ہیں مگر اسرائیل کے نام پر دجال حکمران ہے اور فخریہ، امریکی صدر کے ساتھ ملاقاتیں کر رہا ہے۔اس سال نو مہینے اور دو سال کے سارے مہینے غارت گری، قدرتی آفات، سیلاب اور زلزلوں کے عذاب میں آبادیوں کی آبادیاں خاک ہو کر رہ گئیں۔ پاکستان اُن چند ممالک میں شامل ہے جہاں طوفانی بارشوں،برف باری اور پہاڑوں کو ریزہ کر کے گلیشیر کو شرمندگی میں پگھلنے پرمجبور کیاگیا۔
پاکستان نے اس سال بہت سے تجارتی معاہدے کئے۔ ہمارے صدر اور فیلڈ مارشل کے ساتھ وزیراعظم دستخط کرتے ہوئے تصویروں میں دکھائے گئے۔ ہم نے سعودیہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی کیا ،ہم نے چین کو آگے رکھ کر سینکڑوں لوگوں کو زراعت ، تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھجوا بھی دیا مگر حسرت ان غنچوں پر ہے جو بن کھلے مر جھا گئے کہ فنڈز کے وعدے ، اپنے اپنے ملک میں لیبر منگوانے کے وعدے اور تجارتی معاہدوں میں سے شائد ایک بھی ابھی عمل کی منزل تک نہیں پہنچ سکا ۔اب جب آئی ایم ایف سوال اٹھا کر جواب بھی مانگ رہا ہے تو ہم وہیں ہیں، آدھی دنیا کےملکوں میں جاکر معاہدوں کو سائن کرتے ہوئے سعودی شہزادے کیساتھ تصویر اتروا رہے ہیں۔ واقعی استقبال تو بالکل طلسم ہوشربااور پری زاد کی طرح کیا گیا مگر ابھی کوئی شعلہ بھی بھڑکا نہیں اور فنڈنگ ایجنسیاں کھپ ڈال رہی ہیں کہ سارے پیسے کیوں اور کیسے ختم کرکے ہماری طرف پھر طلب کی جھولی رکھ دی ہے۔پیسہ ہے ہی بُری چیز، چاہے گھروں کا معاملہ ہو کہ حکومتوں کا کہ آج کل اربوں روپے سرکاری اکائونٹ سے بھی غتربود کئے گئے اور کئی محکموں کے سربراہوں نے واقعی عملے کے ساتھ مل کر، نانی جی کی فاتحہ پڑھی۔
اب تک تو معاشی ڈھنڈورے کا پول کھلا ہے۔ انتظامی بدقماشیوں سے پردہ بھی سیلاب نے اٹھا دیا ہے۔ تو تو میں میں زبانی نہیں، سیاسی سطح پر الم نشرح کی جارہی ہے۔ یوں تو افغانستان جو اب تک عبوری حکومت کے نام پر کشتی چلا رہا ہے، وہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بن کر، ہماری ہمسائیگی کو کیش کر رہا ہے۔ اور رہا ہندوستان، وہ اب ساری نسلوں کی ذمہ داری، نفرتوں کے جال کیساتھ، پاکستان کے اوپر چڑھا رہا ہے۔ ہر چند مسلمان کا نام سن کر مودی صاحب کو پتنگے لڑ جاتے ہیں مگر افغان وزیر اس وقت ہندوستان کا دورہ کرکے شاید بتانا چاہتے ہیں کہ جو اڈے امریکہ نے بنائے تھے ان میں کسی کو بھی ہم نہ چھیڑ رہے ہیں اور نہ مستقبل میں ارادہ ہے۔ البتہ چین سی پیک کی شاہراہ میں افغانیوں کو مجبوراً شامل کر رہا ہے۔
اب آجائیں وزیرستان سے شروع ہو کر گلگت اور گوادر میں جرگوں کی طرف جہاںقبائلی رسوم کے تحت ہر چیز جائز ہے مگراس میں ایسے بھی جرگے شامل ہیں جہاں بیٹی کوماں غیرت کے نام پر جرگے میں بلا کر مروادیتی ہے۔ لوگ تماشہ دیکھتے ہیں ۔ پھر عورت کا نام دیکھ کرہمارے عدالتی سرکردہ لوگ دھمکیاں دیتے ہیں کہ باز آجاؤ ورنہ ابھی ہتھکڑی لگوادیں گے۔ایسے سنجیدہ مگر بے محل اعترافات و خود صوبائی اور وفاقی اسمبلیاں، کارندے اور عدم اعتماد کی دھمکیاں۔ ہماری پوری تاریخ جسے (کالم نگار) روز دہرا کر اپناکالم مکمل کرتے ہیں۔ حکومت جس کو چاہے ناپسندیدہ کہہ کر اندر کر سکتی ہے۔جن لوگوں نے چین، جاپان اور ملایشیا تک کے دورے کر ڈالے اور ستم یہ ہے کہ پاکستان سے گوشت بھجوانے کا وعدہ بھی کر لیا۔ میرا قصائی کہہ رہا تھا اب آپ بھی گدھے کا گوشت کھا ئیں گی۔
فلوٹیلا کا لمبا قافلہ جو 400کشتیوں پر مشتمل تھا ،ا سپین سے چل کر غزہ پہنچنا چاہتا تھا۔ اسکا انجام تو سب کے ذہن میں دارورسن کے انداز میں موجود تھا مگر ہمت اور حوصلہ قابل داد ہےان تمام لوگوں کا۔ ر عونت زدہ اسرائیلی فوجوں نے22سالہ گریٹاتھون برگ کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک روا رکھا، واپس وطن پہنچ کر اس نےساری دنیا کو ظلم کی تفصیل بتائی اور میں اپنی تمام قوم کی جانب سےسینیٹر مشتاق صاحب کے اسرائیلی جیل میں ہونے اورقوت برداشت کی داد دے رہی ہوں ۔حکومت میں ہمت کتنی ہے جب مشتاق صاحب وطن واپس آئیں گے تو پتہ چلے گا۔