آپ حیران ہوں گے کہ عقلِ کل کون سی بیماری ہے لیکن جناب یہ ایسی بیماری ہے جو تمام سماجی بیماریوں کی ماں یا اُم الامراض ہے۔ کیونکہ یہ پورے معاشرے بلکہ قوم کو موت کے گھاٹ اتارنے کی صلاحیت رکھتی ہے عقل کل کے مرض میں مبتلا شخص خود کو عالم اور فہم و فراست کا سرچشمہ اور باقی سب کو جاہل ،کند ذہن اور نا اہل سمجھتا ہے وہ جو خود کو ہر قسم کے احتساب سے بالاتر مقدس ہستی سمجھتا ہے اور خود کو نعوذ باللہ خدائی صفات سے متصف کر لیتا ہے اور مذہبی لحاظ سے شرک کا مرتکب ہونے سے بھی نہیں ڈرتا کیونکہ شرک خدا کی ان مخصوص صفات کو اپنانے کا دعویٰ کرنا ہے جو وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور اپنائے جس میں علم و فراست اور فہم و شعور کا سرچشمہ یعنی عقل کل ہونا، قادرِ مطلق یا آمر مطلق ہونا یعنی کسی سے مشورہ نہ کرنا اور زندگی اور موت پر قادر ہونا شامل ہے جبکہ اس کی بہت سی ایسی صفات ہیں جنکے بارے میں وہ چاہتا ہے کہ وہ اس کے انسانوں میں پائی جائیں، جیسے رؤف و رحیم ہونا، ستار ہونا، معاف کر دینا اور انصاف کرنا وغیرہ وغیرہ۔یہ صفات شرک کے زمرے میں نہیں آتیں انسان کو تمام مذہبی اور تمام غیر مذہبی دانشوروں نے بار بار ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے معاملات میں ایک دوسرے سے مشورہ کریں اور دوسروں کو کم عقل یا جاہل قرار دے کر ان کی توہین نہ کریں۔ یہی اجتماعی شعور جمہوریت کا دوسرا نام ہے عقل کل کا مریض اگر کسی گھر کا سربراہ ہوگا تو وہاں بھی وہ گھر کے باقی افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو اپنی جابرانہ نصیحتوں سے پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دے گا اگر بدقسمتی سے کسی ملک کا سربراہ ہو تو عوام کو بے وقوف اور جاہل کہہ کر انہیں احساسِ محرومی میں مبتلا کر دے گا جو معاشرے میں بیگانگی یا بغاوت کو جنم دیتی ہے ہمارے ہاں قومی بدقسمتی یہ ہے کہ جب مشاورت یعنی جمہوریت کے ذریعے وجود میں آنے والے ملک پر فوجی آمر جنرل ایوب خان نے شب خون مار کر عوامی نمائندوں کو اقتدار سے باہر پھینک دیا تو اس کے جواز میں یہ دلیل دی گئی کہ پوری قوم اور اس کے منتخب نمائندے جاہل ہیں جبکہ صرف جنرل ایوب ہی عقلِ کل ہے ۔اس سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا وہ زیرو تھا اور صرف وہی ہیرو ہے۔ دنیا بھر میں صدیوں کے تجربوں کے بعد اہلِ علم نے جو نظامِ جمہوریت رائج کیا تھا اور جس کے بل بوتے پر قومیں بام عروج تک پہنچ گئی تھیں وہ پاگل پن تھا۔باقی سب کو کمتر سمجھنے والے شخص نے اپنی انا کی خاطر ملک میں علیحدگی کی بنیادوں کو اتنا گہرا کر دیا کہ اس کے بعد آنے والے اس کے جانشین اور عقل کل کے دوسرے دعویدار کو ملک کی وحدت کی عمارت کو گرانے میں چنداں مشکل پیش نہ آئی جسکی وجہ سےایک تاریخی سانحہ ہو گیا اور ملک ٹوٹ گیا۔
کسی کی غلطی یا حماقت سے گھر اجڑ یا ٹوٹ جائے تو وہ جرم بھی ناقابل معافی ہوتا ہے یہاں ایک قوم لٹ گئی لیکن جس عقل کل نے یہ سب کیا اس کی آنکھ میں ایک بھی اشکِ ندامت نہ آیا جبکہ اس کی موت کے بعد اسے قومی پرچم میں لپیٹ کر سپر دِ خاک کر دیا گیا ۔ملک توڑنے کے جرم کے اس اہم ترین کردار کو قومی اعزاز سے نوازنے والا ایک اور عقل کل کا دعویدار تھا جس نے ہمارے دردناک ماضی سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے پھر سے قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا عمل شروع کر دیا تھا۔ جنرل ضیا کے عبرت ناک انجام کے بعد بھی پرنالہ وہیں کا وہی رہا۔ جنرل پرویز نے آتے ہی وہی راگ الاپنا شروع کر دیا کہ عوام کے نمائندے جاہل اور کرپٹ ہیں اگرچہ جنرل پرویز اپنے پیش رو جنرل کی پالیسیوں کے سخت مخالف تھے اور وہ شدت پسندی سے قوم کو نکال کرروشن خیال اور اعتدال پسند بنانا چاہتے تھے لیکن انہوں نے جنرل ضیاء کی کبھی بھی بحیثیت حکمران مخالفت نہیں کی ،مخالفت تو انہوں نے جنرل یحییٰ کی بھی نہیں کی تھی جس نے ملک توڑ دیا تھا بلکہ انہوں نے اسے نہایت محب وطن اور دیانتدار شخص قرار دیا تھا جس پر ایک کالم نویس نے لکھا تھا کہ کچھ بعید نہیں کہ آئندہ سے ہماری حکومت یحییٰ خان کی برسی بھی مناناشروع کر دے جنرل پرویز نے بھی جنرل ایوب خان کی طرح بی ڈی سسٹم کی جگہ ایک نیا نظام دیا جو ڈی جی سسٹم یا ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام کہلایا اور یہ دعویٰ کیا کہ یہی وہ نظام ہے جو ملکی کشتی کو پار لگائے گا۔ ہمارے ڈکٹیٹروں کی طرح ہمارے سیاسی رہنماؤں میں بھی ابھی وہ سیاسی بلوغت نہیں آئی کہ وہ جمہوری اقدار کی پاسداری کریں لیکن ان میں عمران خان وہ واحد سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے ڈکٹیٹروں سے بھی بڑھ کر اپنے عقل کل ہونے کے متعدد بار دعوے کیے حالانکہ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ بحیثیت حکمران اور بعد میں بحیثیت اپوزیشن لیڈر وہ ناکام ترین ثابت ہوئے لیکن جب بھی انہوں نے کوئی بیان دیا تو اس میں کسی موضوع پر بھی وہ یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ اس موضوع پر ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کے پیروکار بھی انہیں صرف سیاسی رہنما نہیں بلکہ روحانی مرشد قرار دیتے ہیں ،کن بنیادوں پر؟ یہ صرف وہی جانتے ہیں۔ان کی اس سوچ نے پوری قوم کو ایک ایسی خوفناک تقسیم سے دوچار کر دیا ہے جو ملک کو کسی وقت بھی ہولناک انارکی اور انتشار میں مبتلا کر سکتی ہے لہٰذا بانی کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی اس منفی سوچ سے نکل کر افہام و تفہیم کا راستہ اپنائے اور نفرت کی بجائے دوسروں کے ساتھ مل کر ملک و قوم کو اس مشکل گھڑی سے باہر نکالے... آج کا شعر
تعریف میں انساں کو بنا دینا فرشتہ
تذلیل یہ ہوتی ہے عقیدت نہیں ہوتی