• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ جن ممالک میں تجارت آگے نہ بڑھ رہی ہواوربیرونی سرمایہ کاری بھی نہ ہو رہی ہو، ان ممالک کا قرض بڑھتا ہی چلا جاتا ہے لیکن پاکستان میں تو 2000ء سے لے کر 2022ء کے درمیان پچاس ارب ڈالر کی سرکاری ترقیاتی امداد ملی مگر اس کے باوجود معاشی ترقی رکنے کے ساتھ بیروزگاری بڑھنے کے علاوہ غربت میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے۔ عوام کی زبوں حالی کے ساتھ ساتھ ان قرضوں کی وجہ سے آج ہر پاکستانی تین لاکھ اٹھارہ ہزار دو سو باون(318252) روپے کا قرض دارہے جبکہ یہی قرض 2014ء میں نوے ہزار پینتالیس (90045)روپے تھا یوں ہر پاکستانی ہر سال اوسطاََ تیرہ فیصد کا مقروض ہوتا چلا آ رہاہے۔ قرض کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاری پر بھی معیشت دانوںکی کوئی اچھی آرا نہیں کیونکہ گزشتہ دس برسوں میں بیرونی سرمایہ کاری (FDI)دو سے تین ارب ڈالر کے درمیان رہی ہے جس میں سے 35 فیصد سرمایہ کاری بجلی کے شعبے میں کی گئی جس سے آئی پی پیز نے ہوشربا فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت وقت سے اس سرمایہ کاری کی بیشتر واپسی ڈالر سے منسلک کروالی۔یوں قوم کو گردشی قرضوں کی مد میں مقامی بینکوں سے 1225 ارب قرض لینا پڑا جو 9فیصد سودپر حاصل کیا گیا اور جسکا خمیازہ غریب عوام کو 3.23روپے فی یونٹ بجلی کی مد میں 6 سال تک بھگتنا ہو گا۔ یہ قرض دراصل مختلف حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے لیکن اس کا سارا بوجھ پہلے سے ہی پسے عوام پر ڈال دیا گیا ہے کیونکہ یہ ہمارے سماج کا سب سے کمزور ہدف ہے اور جن سے پچھلے سال بھی حکمرانوں نے 500ارب کے اضافی ٹیکس ان کی تنخواہوں سے وصول کئے۔ یاد رہے کہ آئی پی پیز سے معاہدوں سے پہلے ہمارا گردشی قرضہ کافی حد تک قابو میں تھا لیکن اس کے بعد بجلی کے نرخوں میں اتنا اضافہ ہوا کہ آج پاکستان ساؤتھ ایشیامیں سب سے مہنگی بجلی فراہم کرنے والا ملک بن گیا ہے جس سے ایک طرف ہماری صنعتیں مقابلے کی سکت کھو رہی ہیں اور دوسری طرف بین الاقوامی کمپنیاں جوق در جوق پاکستان سے جا رہی ہیں۔ یہ اس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان کو ہر سال پینتیس سے چالیس لاکھ نئے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ہے۔آج قرضوں کی بھرمار، سرمایہ کاری کے فقدان اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی معاشی پالیسیوں کو از سر نو منظم کریں۔حکمران وقت ہر جگہ جا کر اپنے معدنی ذخائر کا پرچار کرتے ہیں جبکہ ہمارا سب سے بڑا قدرتی وسیلہ زمین کے نیچے مدفن نہیںبلکہ زمین کے اوپر یہ چلتے پھرتے چوبیس کروڑ عوام ہیں۔ یاد رہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے پچھلے سال ریکارڈ 37ارب ڈالر کی ترسیلات زر بھیجی ہیں اور ان میں زیادہ تر ترسیلات زر سعودی عرب اور گلف ریجن میں کام کرنے والے مزدوروں کی طرف سے بھجوائی گئی ہیں۔ہندوستان اور چین کی آبادی ہم سے پانچ گنا بڑی ہے لیکن ان کی ترسیلات زر بالترتیب87ارب اور53ارب ڈالر ہیں۔ آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ہم جلد از جلد اپنے انسانی وسائل کے ذخیرے کو بروئے کار لائیں، انہیں ہنگامی بنیادوں پر حکومتی اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت آئی ٹی اور ٹیکنیکل شعبوں میں مہارت مہیا کریں تاکہ بیرونی سرمایہ کاری اور قرض کے بوجھ سے نجات حاصل کی جا سکے۔ اس سلسلے میں ہمیں اپنے جیسی معیشتوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے جیسے ویتنام نے اپنے صنعتی پارکس کے اندر ایسے تربیتی مراکز قائم کئے جہاں اپنی صنعتی ضرورتوں کے مطابق اپنے عوام کو تیار کیا اور صرف دو دہائیوں میں وہ کپڑے اور الیکٹرانکس کو امریکہ اور یورپ میں برآمد کرنے لگے۔اسی طرح بنگلہ دیش نے خواتین کو کپڑا سازی اور آئی ٹی سروسز میں اس طرح تربیت دی کہ بنگلہ دیش کی برآمدات آج 40ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔ ویتنام اور بنگلہ دیش کی طرح ملایشیا نے بھی اقتصادی منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے عوام میں مختلف مہارتوں، صنعتی ترجیحات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنے سماج سے ہم آہنگ کیا۔ روانڈا کے پاس تو کسی قسم کے قدرتی وسائل بھی نہیں لیکن پھر بھی اس نے ایک بہتر طرز حکمرانی اور عوام کی بھرپور شمولیت سے آئی ٹی، سیاحت اور کاروبار جیسے شعبوں کو قومی طاقت کا حصہ بنا دیا۔ ان مثالوں سے ہمیں ایک واضح سبق ملتا ہے کہ کسی بھی سماج کی پائیدار ترقی صرف قدرتی دولت تک محیط نہیں ہے بلکہ اس میں بہت بڑا حصہ عوام کی تربیت، ٹیکنالوجی کا استعمال اور معاشی ترقی میں ان کی شراکت داری کا ہوتا ہے۔ ہماری معیشت میں خواتین کی شراکت صرف 22فیصد ہے جو ناصرف عالمی سطح پر کم شرح ہے بلکہ یہ معیشت کی مسابقت کیساتھ ساتھ گھریلو آمدنیوں کو بھی روک رہی ہے۔ آج پاکستانی معیشت کا استحکام بیرونی قرضوں اور سرمایہ داروں کے اعتماد سے زیادہ اس بات میں مضمر ہے کہ حکومت پاکستان کس حد تک اپنے انسانی سرمائے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر برآمدات پر مبنی معیشت کو جنم دے سکتی ہے۔ آج پاکستان میں ہر طرف معاشی ترقی اور سرمائے کے تحفظ کے اقدامات ہو رہے ہیں لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ معاشی قدروں میں اضافے کا خالق محنت کش ہے اور پاکستانی ریاست اپنے عوام کے ساتھ رشتہ استوار کر کے ہی پاکستان کو فلاحی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھار سکتی ہے۔

تازہ ترین