• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ہاں مختلف طبقوں کے حوالے سے بہت سارے لطیفے مشہور ہیں، مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ ان لطیفوں کا حقیقت سے کتنا تعلق ہوتا ہے، لیکن کسی خاص قومیت کے لوگوں سے لطیفے مشہور کرنا ایک بڑی زیادتی ہے۔ ایسے لطیفوں سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاید کسی خاص خطے یا خاص زبان بولنے سے تعلق رکھنے والے سارے لوگ بے وقوف ہوتے ہیں۔ یوں ان لطیفوں سے تفریح کی بجائے تضحیک کا پہلو زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ اسی طرح کچھ محکموں کے حوالے سے بھی بہت سارے لطیفے مشہور ہیں۔ جس میں پولیس کا محکمہ سرفہرست ہے۔ نہ صرف بہت سارے لطیفے بلکہ ٹی وی چینلز اور اسٹیج ڈراموں میں دکھائے جانے والے پولیس کے اکثر کردار بھی ایسے ہوتے ہیں ۔ جن سے اس محکمے کا کھل کر مذاق اڑایا جاتاہے اور اگر کسی سیریز، سیریل یا ڈرامے میں پولیس کا کوئی مثالی کردار دکھایا بھی جاتا ہے تو اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی سمجھا جاتا ہے کہ اسکے ساتھ ایک دو مضحکہ خیز کردار بھی ضرور شامل ہوں۔ پھر ڈراموں میں معاشرے کی جو عکاسی کی جاتی ہے اس میں پولیس کا کردار انتہائی گھنائونا اور قابل نفرت دکھایا جاتا ہے۔ یہ سارے وہ عوامل ہیں جس سے پولیس کے محکمہ میں اچھے اور باکردار لوگوں کی محنت، ایمانداری اور قربانی دب کر رہ جاتی ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے کبھی بھی پولیس کو ایک ذمہ دار ، ایماندار اور بہترین فرض شناس ادارہ بننے ہی نہیں دیا۔ میرٹ کی بجائے سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لئے تعیناتی کی گئی۔ اچھے اور فرض شناس افسران یا اہلکاروں کو کھڈے لائن لگا دیا جاتا رہا اور کٹھ پتلیوں کی طرح اشاروں پر ناچنے والوں کو اچھی اچھی پوسٹیں دی گئیں۔ پھر انکو ہلاشیری دیکر اپنے ناجائز کام کروائے۔ اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے شرفاء کی پگڑیاں اچھالی گئیں۔ جس سے پولیس اہلکاروں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جرائم تو ہوتے رہتے ہیں ہماری عوام کے مزاج ہی ایسے ہیں۔ اصل نوکری تو یہ ہے کہ حکمرانوں کو خوش رکھیں۔ اس سوچ کے تحت پولیس والے حکمرانوں کو خوش کرنے کے لئے غیرقانونی اقدامات کرتے کرتے اپنی ذات کیلئے بھی کچھ ایسے کام کرجاتے ہیں جس سے بے انصافی اور مظلوم کے خلاف مزید ظلم کی داستانیں رقم ہوتی گئیں اور لوگوں کے ذہنوں میں پولیس کا احترام ختم ہوگیا۔پولیس کے نچلے طبقے کی بھرتی بھی بڑی عجیب ہوتی ہے۔ جس میں تین چیزوں کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے جس میں کئی کلومیٹر کی دوڑ اور قد کے علاوہ اہم ترین شے سفارش ہوتی ہے۔ یہی لوگ پھر ترقی کرتے کرتے اوپر تک جاتے ہیں، پھر پولیس کی تنخواہیں ، مراعات اور ان سے لی جانے والی ڈیوٹی بالکل غیرمساویانہ ہیں، نہ انکے بچوں کے لئے تعلیم اور صحت کی اچھی سہولیات ہیں اور نہ خود انکے حوالے سے کچھ اس قسم کی سہولیات ہیں۔ سازو سامان کے حوالے سے ابھی کچھ حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن اب بھی زیادہ تر تھانے بوسیدہ عمارتوں کھٹارا گاڑیوں اور زنگ آلود پرانی بندوقوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ایک پولیس اہلکار نے مجھے بتایا کہ ملزمان کے لئے جو ہتھکڑیاں فراہم کی جاتی ہیں اس میں سے اکثر بال پوائنٹ پین اور خواتین کی ہیئرپن سے کھولی جاسکتی ہیں ۔ پولیس کے ساتھ روا رکھے جانے والے یہ سارے رویے پولیس کو ایک مثالی ادارہ نہیں بننے دے رہے پھر پولیس میں شامل کالی بھیڑوں کی طرف سے بھی کوئی جرم یا زیادتی کی جاتی ہے تو اسکو سزا دینے کی بجائے بچانے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ چند دن ، ہفتے یا مہینے معطل رہنے کے بعد وہ اہلکارکسی زیادہ اچھی پوسٹ پر واپس آچکے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ایماندار افسر یا اہلکار غلطی سے یا انجانے سے کسی با اثر لیکن کرپٹ اور جرم کرنے والے کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اس کرپٹ کی ایک فون کال پر پولیس اہلکار کو محکمانہ طور پر عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ یوں پھر وہ کمزور کی تو ڈنڈوں اور گالیوں سے تواضع کرتا ہے اور بااثر لوگوں کو سلیوٹ مارتا ہے۔ ماڈل ٹائون پولیس کے واقعہ کے پیچھے کوئی ہے یا نہیں لیکن پولیس کی طرف سے اس بربریت کے خلاف حکومت سخت اقدامات کرکے اچھی پولیس کی ایک بنیاد رکھ سکتی ہے۔ تاکہ وہ شریف لوگ جو آج بھی زیادتی کا شکار ہونے کے باوجود تھانے جانے سے گھبراتے ہیں ان کا پولیس پر نہ صرف اعتماد بڑھے بلکہ ہماری پولیس ایک مثالی ادارے کی صورت اپنا تعارف بنے اور اس ملک میں جرائم کی تعداد جس میں روز بروز انتہا کا اضافہ ہوتا جارہا ہے ، اس پر قابو پایا جاسکے۔ پولیس کو اعتماد، احترام ، تربیت اور بہترین سہولیات دینا بھی بہت ضروری ہے ورنہ پولیس بے قصور اور حکمران قصور وار ہونگے…!!
تازہ ترین