• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیل ‘ حماس کے درمیان غزہ میں تاریخی جنگ بندی معاہدہ ہوگیا۔ فلسطینی و اسرائیلی شہری اس پر جشن منا رہے ہیں۔ عالمی رہنما امریکی صدر ٹرمپ کے کردار کو سراہتے ہوئے ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ اس تاریخی معاہدے پر بھی واویلا کرنے سے باز نہیں آرہے ۔ ایک بڑی سیاسی جماعت نے تو اس معاملے سے مکمل طور پر پہلے دن سے ہی کنارہ کشی اختیار کئے رکھی۔ اس جماعت کے رہنما امن معاہدے پر خوش ہیں نہ ہی انہیں کوئی گلہ شکوہ ہے۔ انہیں اگر کوئی فکرکھائے جا رہی ہے تو وہ قیدی نمبر 804 کی فوری رہائی اور اس پر ہائے دہائی ‘ پی ٹی آئی میں نند بھاوج میں تکرارکی خبریں تو عرصے سے سنائی دے رہی تھیں مگر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ نند بھاوج کے عارضی گٹھ جوڑ نے گنڈا پور کی دوطرفہ سیاست اور حکومت کا تختہ کرکے انہیں استعفیٰ پر مجبور کردیا ہے۔

اب خانوں کے خان نے سہیل آفریدی کو خیبر پختونخوا کے سیاسی اکھاڑے میں اتارا ہے۔ جن کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ وڈے خان کے اشاروں پر دھمال ڈالنے کی مہارت رکھتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانےکیلئے مجمع گیری ہی ان کی واحد سند ہے‘ جو انہیں مسند اقتدار پر بٹھائے جانے کی واحد دلیل ہے۔ اگرچہ سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا بننے میں کوئی خاص رکاوٹ درپیش نہیں‘ صوبائی اسمبلی میں ان کے نمبر بھی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی ہیں مگر گنڈا پور کا گم شدہ استعفیٰ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ گورنر فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ انہیں گنڈا پور کا کوئی ”پروانہ خاص“ نہیں ملا جب ملے گا تو آئینی و قانونی پہلوؤں پر غور کرکے منظور یا نا منظور کرنے بارے کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ سمجھ دار کیلئے اشارہ ہی کافی ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے۔ گورنر اسلام آباد اور گنڈا پور کا استعفیٰ پشاور کی سڑکوں پر رُل رہا ہے۔

خیبر پختونخوا کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں کہ استعفے والا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کیا پھر کسی کو قوم یوتھ کا امتحان مقصود ہے۔ یعنی پھر سڑکوں پر دمادم مست قلندر ہوگا یا پھر الیکشن کمیشن کے فیصلے کے تحت پی ٹی آئی کے آزاد ہونے والے صوبائی ارکان اسمبلی میںسے ہی کوئی عربی گھوڑا سامنے لاکر خان کی احتجاجی سوچ کو آگے بڑھنے سے روکا جائے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر ایک بات تو یقینی ہے کہ بھگوڑوں کی نئی منڈی سجے گی۔ بڑی بڑی بولیاں سنائی دیں گی۔ وزارتوں کے سودے ہوں گے ہر طرف ہنگامہ برپا ہوگا۔ قیدی خان نے اپنے سب سے زیادہ وفادار قرار دیئے جانے والے گنڈا پور کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر ایک ایسا جوا کھیلا ہے جس سے پی ٹی آئی کے خیبر پختونخوا قلعے میں ایسی دراڑ پڑ سکتی ہے جس کا ازالہ پھر کبھی ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں اقتدار میں لانے ‘ نکالنے جانے کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں گنڈا پور کو ہٹائے جانے کے فیصلے پر جو سوالات اٹھیں گے اور خان کو اڈیالہ جیل سے باہر لانے کی جو تدبیریں گنڈا پور کررہے تھے وہ سب کی سب دھری کی دھری رہ جائیں گی۔ تب نند بھاوج کا عارضی ایکا کسی کام نہیںآئے گا۔

سہیل آفریدی بارے تو رلی ملی سرکار نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں یعنی فتنہ الخوارج ہندوستان کے سہولت کار ہیں۔ علی امین گنڈا پور کو دہشت گردوں کی مکمل سہولت کاری نہ کرنے پر ہٹایا گیا ہے۔اب بانی پی ٹی آئی ایسے بندے کو سامنے لائے ہیں جو ایک اشتہاری بھگوڑے مراد سعید کا قریبی ساتھی ہے۔سرکار کہتی ہے کہ سہیل آفریدی دہشت گردوں کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ یعنی سہیل آفریدی نامنظور۔ دیکھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی کروٹ لیتی سیاست میں بڑے مولانا صاحب کی پٹاری سے کیا نکلتاہے۔ سیاسی پنڈتوں کی نظر یں بڑے مولانا پر ہی لگی ہیں کہ ان کی ہاں میں ہی سب کی ہاں ہے۔ تاوقت تحریر گنڈا پور کا گم شدہ استعفیٰ تلاش کرنے کے اعلانات اخبارات‘ نیوز چینلز‘ سوشل میڈیا سے تواتر کے ساتھ شائع اور نشر کئے جارہے ہیں۔ بطور شخصے استعفیٰ این او سی کا منتظر ہے۔ گنڈا پور ایک کمزور‘ مجبور ‘ بے بس اور لاچار وزیراعلیٰ ثابت ہوئے ۔ وہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ یہ گنڈا پور کی سیاسی مجبوری ہے کہ وہ نامزد امیدوار برائے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی غیرمشروط حمایت جاری رکھیں۔

اڈیالہ جیل سے یہی پیغام ہے کہ خاموش رہیں ورنہ پی ٹی آئی سے بھی نکالے جائیں گے ۔ بشریٰ بی بی ‘علیمہ خان بارے انکشافات ایسا جرم ہے جسکی اڈیالہ جیل والی سرکار کے ہاں کوئی معافی نہیں۔ ابھی گنڈا پور گئے ہیں نہ ہی سہیل آفریدی آئے ہیں۔ گم شدہ استعفے کی تلاش جاری ہے۔ دوسری طرف خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کیخلاف صفائی آپریشن تیز رفتاری سے جاری ہے۔ پاک فوج کے جوان ‘ اعلیٰ افسر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے ہوئے فتنہ ا لہندوستان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کررہے ہیں اور آپریشن کا دائرہ کاروسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔

طاقت ور حلقوں کی تمام تر توجہ خیبر پختونخوا میں ریاستی رٹ مکمل طور پر بحال کرنے پر مرکوز ہے۔ نازک حالات میں اگرصوبے کو عارضی انتظام کے تحت چلانا پڑا تو چلایا جائے گا۔ پھر گنڈا پور ہوں گے نہ ہی سہیل آفریدی ۔

وڈے خان کو پھر احساس ہوگا کہ ان کی ماضی کی بڑی سیاسی غلطیوں میں سے ایک گنڈا پور کو ہٹانے کا فیصلہ بھی شامل ہوگا۔ یہاں اسلام آباد میں چڑھائی کا اعلان کرنیوالی ایک تنظیم بارے کسی بھی تبصرے سے احتیاط ً گریز کیا جارہا ہے۔ صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ بے وقت کی راگنی اور موجودہ ہنگامی حالات میں احتجاج کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی ۔ ایسے بے مقصد احتجاجی مارچ مجموعی طور پر اچھا تاثر نہیں چھوڑتے۔

تازہ ترین