• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ کے ہر دور میں امتِ مسلمہ کو اندر سے کمزور کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی فکری فتنہ ضرور ابھرتا رہا ہے۔ کبھی یہ فتنہ دین کے نام پر، کبھی قومیت کے لبادے میںاور کبھی سیاسی خودمختاری کے نعرے تلے نمودار ہوا۔ آج کے دور میں یہی فتنہ دو شکلوں میں دوبارہ سامنے آیا ہے۔ایک طرف خوارجی فکر کی شدت پسند تعبیر اور دوسری جانب فتنہ ہند کی فکری و سیاسی سازشیں۔ ان دونوں کا گٹھ جوڑ اس وقت خطے کے امن اور پاکستان کے استحکام کیلئے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

تاریخِ اسلام گواہ ہے کہ خوارج نے ہمیشہ اسلام کے نام پر اسلام ہی کو نقصان پہنچایا۔ وہ دین کے اصل پیغام سے ہٹ کر افراط و تفریط کی راہ پر چل نکلے اور مسلمانوں کے خون کو مباح قرار دیا۔ آج انہی خوارجی نظریات کی گونج افغانستان کی وادیوں میں سنائی دیتی ہے، جہاں شدت پسندی اور خودساختہ شریعت کے نام پر امت کو باہم دست و گریباں کیا جا رہا ہے۔ روس کے خلاف جہاد کے بعد جب عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کر لی، تو وہی جہادی فکر جو آزادی کی علامت تھی، رفتہ رفتہ گروہی اور مسلکی مفادات میں تقسیم ہو گئی۔ یہی تقسیم آج پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیوں اور فکری بداعتمادی کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔

اسی فکری کشمکش کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان اور افغانستان کے مابین جو کشیدگی ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی اور افغانستان اور بھارت کے مابین جو قربت ہے وہ بھی بے مثال ہے۔افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی وکیل احمد متوکل نے دہلی میں بیٹھ کر بھارت کی زبان بولی ہے انکا مشترکہ اعلامیہ اس قدر جانبدارانہ اور غیر حقیقی ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کو اس پر باقاعدہ احتجاج کرنا پڑا۔پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی کی ایک تاریخ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

1947 ءمیں افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکا رکیا تھا۔1948ء میں بھارت نے پاکستان کی نو آموز ریاست کو غیر مستحکم کرنے کیلئے شمالی وزیرستان میں فقیر ایپی کی مدد کی اور اسے خارجی فکر کی غذا بھی دی۔ان لوگوں نے پاکستانی فورسز پر حملے کیے،تاہم بعد میں مفتی اعظم فلسطین کے سمجھانے پر انہوں نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔اکتوبر 1951ءمیں ایک افغان باشندے نے قائد ملت لیاقت علی خان کو شہید کیا۔1960ءمیں افغان فوجوں نے باجوڑ پر حملہ کیا جو پاکستان کی مسلح افواج نے ناکام بنا دیا۔1965 ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران افغانستان نے پاکستانی علاقے مہمند پر حملہ کیا جسے مقامی قبائل کی مدد سے ناکام بنایا گیا۔

1971ء کے سانحہ مشرقی پاکستان پر کابل میں جشن منایا گیا۔بعد میں پاکستان میں پختونستان تحریک کو ہوا دی گئی جسے سیاسی عمل کے ذریعے ختم کیا گیا۔ 1996ءتا 2001ءکے دوران مختصر عرصے میں جب ملا محمد عمر افغانستان کے سربراہ تھے افغانستان نے پاکستان کیساتھ محاذ آرائی سے گریز کیا ورنہ افغان تاریخ پاکستان دشمنی سے بھری ہوئی ہے۔ موجودہ سنگین حالات اس تسلسل کا حصہ ہیں لیکن اب انکی سنگینی میں اضافہ ہوگیا ہے۔افغان رویے کے برعکس پاکستان کا رویہ ہمیشہ دوستانہ رہا، لاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی جس سے بیشمار سماجی مسائل بھی پیدا ہوئے، دہشت گردی اور منشیات اسی میزبانی کا تحفہ ہیں۔یہ بات اب راز نہیں رہی کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں افغانستان میں سرگرم بعض شدت پسند گروہوں کو مالی اور نظریاتی پشت پناہی فراہم کر رہی ہیں۔ مقصد صرف ایک ہے،پاکستان کو غیر مستحکم کرنا، تاکہ جنوبی ایشیا میں بھارتی بالادستی کا خواب پورا ہو۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ فتنہ خوارج اور فتنہ ہند نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا ہے۔ ایک مذہب کے نام پر فساد پھیلا رہا ہے، دوسرا سیاست کے نام پر۔ ایک مذہب کے چہرے کو مسخ کر رہا ہے، دوسرا امت کے اتحاد کو۔ دونوں کا ہدف ایک ہے پاکستان، جو نظریاتی ریاست بھی ہے اور عالمِ اسلام کی امید بھی۔

گزشتہ چند برسوں میں افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونیوالی دہشت گردی، سرحدی حملے، اور فکری پروپیگنڈا دراصل اسی گٹھ جوڑ کی عملی شکل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب خوارجی فکر کی نئی تشریحات ہیں، جنہیں دشمن قوتوں نے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے فکری محاذ کو مضبوط کرے، مدارس اور جامعات میں خارجی فکر کے حوالے سے ایک واضح لائن دی جائے تاکہ تعلیمی ادارے اس فکر کیخلاف ہراول دستے کا کردار ادا کریں۔پاکستان کی مسلح افواج نے اس فتنے سے نمٹنے کیلئے بھرپور عملی اقدامات کیے ہیں۔افسروں اور جوانوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں لیکن اب اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید جوان اس جنگ کی بھینٹ نہ چڑھیں۔ افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی پالیسی کو ختم کیا جانا چاہیے۔

عالمی طاقتوں کی باہمی لڑائی کا میدان جنگ پاکستان نہیں بننا چاہیے۔امریکہ بگرام ایئر بیس لینے کیلئے اگر ہمیں استعمال کرے اور ہم پھر سے امریکی عزائم پورا کرنے کے لئے سہولت کاری کریںتو یہ ایک خطرناک کھیل ہوگا جس میں پاکستان کے حصے میں سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں آئے گا۔

فتنہ خوارج اور فتنہ ہند کا گٹھ جوڑ وقتی نہیں بلکہ ایک فکری اور تہذیبی آزمائش ہے۔ یہ پاکستانی قیادت کی بصیرت، اور استقامت کا امتحان ہے۔ اگر ہم نے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا راستہ متعین کر لیا تو نہ خوارج باقی رہیں گے، نہ ہند کی سازشیں کامیاب ہوں گی۔ اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان، ان شاء اللہ، پھر سے امت کے اتحاد، امن اور عدل کی علامت بن کر ابھرے گا۔

تازہ ترین