• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

اس ملک میں اگر صحیح معنوں میں جمہوری تسلسل رہتاتو شاید آج نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہوتی نہ ہی ہمیں دہشت گردی اور انتہا پسندی کا اس طرح سامنا ہوتا ہے جیساآج ہے ۔ بدقسمتی سے اُس وقت خان عبدالولی خان اور میر غوث بخش بزنجو جیسے سیاستدان ’’غدار‘‘ قرار پائے ۔ بینظیر بھٹوشہید کی ابھی حکومت تشکیل پائی تھی کہ ان کےسامنے ایک ’’افغان پالیسی‘‘ رکھ دی گئی 1988ءمیں کہ یہ ہماری خارجہ پالیسی ہوگی ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج کا سب سےبڑا چیلنج دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے مگر پہلے ’’ریاست‘‘ طے کرلے کہ اسے آگے کیسے بڑھنا ہے ’’ویلفیئر اسٹیٹ‘‘ کے طور پر یا سیکورٹی اسٹیٹ کے طور پر ۔ اگر آپ آج بھی 1983ءکی تحریک بحالی جمہوریت ، ایم آرڈی کی اس زمانے کی قراردادیں بغور دیکھیں تو پاکستا ن کو افغان جنگ سے دور رہنے کی بات کی گئی ۔ اس وقت یہی محسوس ہورہا تھا کہ جہاد افغانستان کے اثرات اپنی سرزمین پر آئینگے۔ معذرت کیساتھ جو جو پروجیکٹ بشمول ’’طالبان‘‘ ہم نے بنائے آج وہ ہمارے ہی گلے پڑ گئے جس میں ہمارے جوان، افسران ، پولیس اور عوام سب ہی نشانے پر ہیں۔2014ءکا نیشنل ایکشن پلان نواز شریف ، آصف علی زرداری ،عمران خان اور اس وقت کی عسکری قیادت کا مشترکہ پلان تھا پھر کیا ہوا ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ،پہلے نواز شریف اقتدار سے بے دخل ہوئے یا کئے گئے اور چند سال بعد ہی عمران خان ۔جیسے کہ اوپر بیان کیا ہے ملک میں جمہوریت میں مسلسل مداخلت سے نہ اصل جمہوریت کے ثمرات دیکھنے کو ملے نہ ہی آج سیاسی سوجھ بوجھ والی قیادت ہے ۔ 1983 ءکی ایم آرڈی یا تحریک بحالی جمہوریت میں 800 کےقریب لوگ مارے گئے ۔ یہ اتحاد اس لحاظ سے منفرد تھا کہ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا سب سے طویل عرصہ قائم رہنے والا اتحاد تھا جو 1981ءسے 1988ءتک رہا ۔ یہ تحریک اس لحاظ سے تو کامیاب رہی کہ اس نے جنرل ضیا الحق کو مجبور کردیا کہ ملک میں نئے انتخابات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں مگرچونکہ اسے اقتدار میں رہنا تھا لہٰذا غیر جماعتی بنیادوں پر 1985ءمیں الیکشن کرائے ۔ تاہم 14؍اگست 1983ء ایم آرڈ ی کی تحریک کا مزار قائد سے آغاز کرنے والے پی پی پی کےرہنما غلام مصطفیٰ جتوئی کے بیٹے پر تحریک کے دوران قانون نافذ کرنیوالے کچھ جوانوں کی ہلاکت کی ذمہ داری ڈال دی گئی، جتوئی صاحب یہ دباؤ قبول نہ کرسکے اور ملک چھوڑ گئے ۔ بعد میں ان کی واپسی بھی خاصی ڈرامائی رہی اخبارات میں یہ خبریں آنا شروع ہوگئی تھیں کہ وہ پارٹی چھوڑ رہے ہیں 1985کےالیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ بھی متنازع رہا ۔ اس پس منظر میں وہ جب بیرون ملک سے واپس آئے تو ایک دلچسپ اور غیر معمولی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔ کراچی ایئر پورٹ پر انکے استقبال کی تیاریاں مکمل تھیں پی پی پی کراچی کے کارکنوں نے کچھ اور ہی سوچا ہوا تھا جتوئی صاحب خوشی خوشی ٹرک پر سوار ہوئے انکے نام کےنعرے بھی لگے مگر دراصل پلان کچھ اور تھا یہ ان پر دباؤکا منفرد طریقہ تھا ۔ جتوئی صاحب خوشی خوشی استقبالیہ ٹرک پر سوار ہوئے تو پورے راستے بس ایک ہی نعرہ تھا ، ’’بھٹو فیملی ہیرو ،ہیرو باقی سب زیرو زیرو‘‘ ۔

ان 11سال میں دو نئے سیاسی چہرے نمایاں طور پر سامنے آئے،ایک سندھ میں الطاف حسین دوسرا پنجاب میں میاں محمد نواز شریف۔ ویسے تو خود سندھ کےاندرایم آرڈی کی تحریک میں جس سیاسی شخصیت کو اپنی تقریر اور انداز کی وجہ سے شہرت ملی وہ عوامی تحریک کے رسول بخش پلیجو تھے۔ ان کی جماعت میں تنظیمی صلاحیتیں بھی تھیں اور ان سے اکثر اس بات پر سیاسی گفتگو رہتی کہ انہوں نےاپنے آپ کو قومی لیڈر کےبجائے صوبے تک محدود کردیا۔ اب سیاست نواب زادہ نصراللہ خان ،مولانا شاہ احمد نورانی، خان عبدالولی خان ، میر غوث بخش بزنجو سے نکل کر لسانی رنگ لےرہی تھی جسےبعد میں ہم نے ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نو لگ گیا داغ‘‘ یا پھر ’’جئے مہاجر‘‘ کے سحر میں مبتلا دیکھا ،یہ بھی منظر دیکھنے کو ملے کہ ’’جئے سندھ اور جئے مہاجر‘‘ کا اتحاد پنجاب کےخلاف، سائیں جی ایم سید اور الطاف حسین کا ایک دوسرے کی سالگرہ میں ذاتی یا وفود کی صورت میں شرکت کرنا ۔ غرض یہ کہ سیاست کے زاویئے تبدیل ہورہے تھے اور پھر اس سب کے بیچ جنرل ضیا کا ’’ اسلام‘‘ کے نام کاسیاسی استعمال جسکی سب سے افسوسناک مثال اس کا اپنے اقتدار کےطول کیلئے ’’ریفرنڈم‘‘ جس میں اسلامی نظام کی حمایت کا مطلب ان کا 5سال اقتدارمیں رہنا قرار پایا ۔ مگر شاباش ہےپاکستان کے عوام کو انہوں نے 95فیصد بائیکاٹ کرکے اسے بےنقاب کردیا۔اسی دباؤ میں پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا کہیں لسانی فسادات تو کہیں فرقہ وارانہ ،کبھی بوہری بازار میں بم دھماکے تو کبھی اوجڑی کیمپ میں دھماکہ اور آج تک ہم ان سے باہر نہ آسکے۔ تاہم اس تمام سیاسی پس منظر میں سیاست اب تقسیم ہوچکی تھی ’نظریات‘ سے ’کاروبار‘ میں۔ کئی نئی جماعتیں سامنے آئیں ۔ پی پی پی کو کبھی ’’کنفیڈریشن‘‘ کے نام پر توڑنے کی کوشش ہوئی تو کبھی نیشنل پیپلز پارٹی کےنام پر ۔ اسی طرح شہری سندھ کی سیاست مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں سےنکل کر عملی طور پر ’’مہاجر سیاست‘‘ میں تبدیل ہوگئی ۔ پنجاب میں محمد خان جونیجو کی حکومت کےخاتمے کے بعد 1988ءکےانتخابات میںمیاں صاحب سے ’’پنجابی کارڈ‘‘ کھلوایا گیا ۔ جیسا کہ سندھ میں نظر آتا ہے۔

سابقہ صوبہ سرحد جو اب کےپی ہے ’’افغان سیاست‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جب کہ بلوچستان میں بھٹو صاحب کےزمانے میں نیپ پر پابندی اور پھر ملٹری آپریشن کے بعد سیاست مکمل طور پر قوم پرستی کی طرف جاچکی تھی ۔ حقیقت یہ ہےکہ اگر ماضی کی طرح نیشنل عوامی پارٹی کو دوبارہ بحال کیا جاتا تو آج قوم پرست سیاست اور ’’قومی سوال‘‘ کی نوعیت ہی دوسری ہوتی ۔10؍اپریل 1986ءمیں بینظیر بھٹو کے تاریخ ساز استقبال نے سیاست کو پھر ایک نئی امید دی ۔ 1983ءکی ایم آر ڈی کی تحریک کی طرح یہ بھی بھٹو کی پھانسی کا رد عمل تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بقول آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم ، بینظیر کےاستقبال کو دیکھ کر فوج کے اندر یہ خدشات جنم لینے لگے کہ عوام کی اس طرح پذیرائی سے کہیں وہ انتقام نہ لیں اپنے والد کی پھانسی کا لہٰذا اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا گیا ۔ کیا کیا رنگ دیکھنے کو مل رہے تھے سیاست کےاور اس میں غیر سیاسی قوتوں کی مداخلت کے۔ تاہم جنرل ضیاالحق کا 17؍اگست 1988ءکو جہاز حادثہ نہ ہوتا تو جونیجو کی حکومت کےخاتمے کے بعد عملاً پارلیمانی جمہوریت کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔ جنرل ضیا نےجو اب صدر تھے جونیجو کو برطرف کرنے کے بعد نہ کسی عبوری وزیراعظم کا تقرر کیا اور نہ ہی 90روز میں الیکشن کا وعدہ ۔ ضیا کی موت کےبعد فوج نے مارشل لا لگانے کے بجائے فوری الیکشن کا فیصلہ کیا ۔ کہتے ہیں اس کی بڑی وجہ وہ شکوک و شبہات تھے جو ایک سابق آرمی چیف کے حوالے سے پائے جارہے تھے۔ بینظیر بھٹو کیلئے جو اس وقت تک جدو جہد کی علامت بن چکی تھیں سیاست ایک اہم موڑ پر تھی ۔ انہوں نے بحیثیت عورت مذہبی جماعتوں کے ’’عورت کارڈ‘‘ کہ عورت وزیر اعظم نہیں بن سکتی کا مقابلہ کیا مگر وہ ایک اہم فیصلہ نہ کرپائیں وہ تھا مشروط اقتدار نہ لینے کا ۔ اگر 1988ء میں بی بی اس سے انکار کردیتیں تو شاید وقتی طور پر نقصان ہوتا مگر سیاست کی سمت درست ہوتی ۔ پھر نوابزادہ نصر اللہ خان کے مقابلے میں غلام اسحاق کی صدارتی الیکشن میں حمایت نے آگے جاکر بینظیر کی سیاست کو نقصان پہنچایا، غلام اسحاق خان جو ایک بیوروکریٹ تھے کو صدر بنانا ایسا ہی تھا جیسے ایک کاروباری ’’شریف گھرانے‘‘ کو سیاست میں لانے کا ۔ 1990ء سے 2007ء تک کی سیاست کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ سیاست میں کاروبار اور کرپشن کیسے آئی اور لائی گئی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین