• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس طرح فلموں کے شروع میں ایک ”اعلان دستبرداری“ لکھا ہوتا ہے، انگریزی میں جسے Disclaimer کہتے ہیں اُسی طرح آج اِس تحریر سے پہلے بھی ایک اعلان دستبرداری پڑھ لیں۔ 4اکتوبر کو روزنامہ ڈان میں رافعہ زکریا کا کالم شائع ہوا، عنوان تھا Greta vs Malala، آج میرا مضمون بھی اُسی کالم سے ’انسپائرڈ‘ ہے، میں نے اِس موضوع پر لکھنے کا ارادہ کر رکھا تھا، موبائل فون میں کچھ نوٹس بھی بنائے ہوئے تھے مگر رافعہ بازی لے گئیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے ایک سینئر کالم نگار ہوا کرتے تھے۔

جنگ اخبار میں اُن کا طوطی ہی نہیں بلکہ طوطا بھی بولا کرتا تھا، تاہم آخری وقت میں انہوں نے جو کالم لکھے وہ کچھ اُس قسم کے ہوتے تھے کہ آج ملک میں جو سیاسی کشمکش جاری ہے اُس بابت میں پہلے ہی اپنے فلاں کالم میں لکھ چکا ہوں کہ....اور اُس کے بعد وہ اپنا چند ہفتوں پرانا تجزیہ پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ دیکھو میں نے تو پہلے ہی لکھ دیا تھا۔ یہ دوسری بات لکھنے کی نوبت اِس لیے آئی کہ خاکسار نے ملالہ کی حمایت میں اُس وقت کئی کالم لکھے تھے جب طالبان نے اسے گولیاں ماری تھیں اور بعد ازاں اسے نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ملک میں ملالہ کے خلاف نفرت تھی اور اسے مغربی ایجنٹ اور نہ جانے کن کن القابات سے پکارا جاتا تھا۔ میرے اُن کالموں میں سے ایک کا عنوان تھا ”ملالہ اور عافیہ، کیا مقابلہ!“ آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو سوچ رہا ہوں کہ کیا یہ وہی ملالہ ہے جس کی میں نے حمایت کی تھی؟ نہیں، یہ وہ ملالہ نہیں جس پر ہمیں فخر تھا، وہ ملالہ تو مغرب کی چکاچوند کی نذر ہو چکی۔ دراصل انسان کا امتحان اُس وقت ہوتا ہے جب تاریخ کے کسی لمحے میں اُسے جبر کے سامنے کھڑا ہونا پڑے، ورنہ اپنے گھر میں تو ہر کوئی چے گویرا ہوتا ہے۔ ملالہ کا امتحان غزہ تھا۔

دوسری طرف ایک اور بچی ہے، نام ہے گریٹا تھُنبرگ، عمر فقط بائیس سال، مگر ایسی بہادر اور نڈر کہ اسرائیلی فوج کے سامنے بھی نہ جھکی۔ غزہ کے معاملے میں گریٹا تھنبرگ نے صرف بیان بازی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مظاہروں میں شرکت کی، سوشل میڈیا مہم چلائی، حکومتوں سے اپیلیں کی اور یہاں تک کہ غزہ کیلئے امدادی سامان لے کر گئی اور اسرائیلی فوجیوں کے نرغے میں رہی جہاں سے اُسے ملک بدر کر دیا گیا، یعنی گریٹا نے علامتی نعروں سے بڑھ کر جان کا خطرہ مول لیتے ہوئے براہِ راست اقدام کیا اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ گریٹا تُھنبرگ نے فلسطین کے معاملے میں وہی کیا جو ایک باضمیر اور دلیر انسان کو کرنا چاہیے یعنی طاقتور سے سوال اور کمزور کے ساتھ کھڑا ہونا۔

ملالہ یوسفزئی اٹھائیس سال کی ہو چکی ہے، آکسفورڈ سے فارغ التحصیل ہے، جب اُسے طالبان نے گولی ماری تب وہ بچی تھی، مگر اب تو وہ دنیا دیکھ چکی ہے، اسے تو وقت کے ساتھ ساتھ مزید سمجھدار اور دانشمند ہو جانا چاہیے تھا، اسے علم ہونا چاہیے تھا کہ اسرائیل غزہ میں کیا کر رہا ہے اور اِس بربریت پر اُسے کیا موقف اپنانا چاہیے۔ مگر جب غزہ میں اسرائیلی فوج نے عورتوں اور بچوں کا قتل عام شروع کیا تو اُس وقت ملالہ کی مصروفیات یہ تھیں کہ وہ ہلیری کلنٹن کے ساتھ مل کر نیویارک کے براڈوے تھیٹر میں موسیقی کا پروگرام ترتیب دے رہی تھی۔ جی ہاں۔ ملالہ نے فلسطینیوں کی نسل کُشی پر دانستہ دوٹوک موقف اختیار نہیں کیا اور اِس پورے عرصے کے دوران ملالہ نے ہومیوپیتھک قسم کی ٹویٹس کیں جن سے یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہے یا فلسطینیوں کے ساتھ یعنی ’’یزید سے بھی مراسم ،حسین ؓکو بھی سلام۔‘‘ گریٹا کی طرح ملالہ کے پاس بھی موقع تھا کہ وہ ڈٹ جاتی اور دو ٹوک انداز میں اسرائیل کیخلاف موقف اپناتی اور کہتی کہ اسرائیلی فوج غزہ میں نسل کشی کر رہی ہے مگر اِس کے بعد پھر اُسے نہ ہلیری کلنٹن ملتی اور نہ امریکہ کے ٹی وی شوز۔ اسرائیل کیخلاف اُس نے بیان ضرور دیا مگر اُس وقت تک دیر ہو چکی تھی، دنیا اسرائیل پر تبرہ بھیج چکی تھی۔

ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ ملالہ نے جب موقف دے دیا تو اپنا فرض پورا کر دیا، ہر شخص کی طرح ملالہ کو بھی اپنی زندگی اور اظہار رائے میں پوری آزادی ہونی چاہیے، اگر ملالہ کے غصّے کی شدت ہماری طرح نہیں ہے تو اُسے محض اِس بنا پر موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ وہ ہماری طرح نہیں سوچتی! ملالہ کے حق میں یہ دلیل بظاہر دل کو لگتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ملالہ ایک خاص قسم کے لبرل طرزِ فکر کو اختیار کرنے کا حق رکھتی ہے جو مغربی بیانیے میں فِٹ بیٹھتا ہو اُسی طرح ہم بھی اُس کی سیاست اور مغربی لبرل ازم کی کھوکھلاہٹ پر تنقید کر سکتے ہیں۔ یہاں لطیف نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں آپ اپنی سہولت کے مطابق کوئی بھی سیاسی نظریہ اپنا سکتے ہیں، مثلاً پاکستان میں فلسطینیوں کی حمایت کرنا نہایت آسان کام ہے، بندہ انقلابی بھی بن جاتا ہے اور نظریاتی بھی، نہ ریاست کو کوئی مسئلہ اور نہ مذہبی جماعتوں کو، لیکن اسی پاکستان میں اگر آپ کسی اقلیتی گروہ کے حق میں کھڑے ہوں گے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے، بالکل اُسی طرح جیسے انڈیا میں نہتے کشمیریوں کی حمایت میں کوئی نہیں بولتا مگر مسلمانوں کے خلاف جتنے مرضی جلوس نکال لو۔ ملالہ کوئی معمولی نام نہیں، دنیا نے اُسے سر آنکھوں پر بٹھا رکھا ہے، جو شخص جس مقام پر ہوتا ہے اُس کی ذمہ داری اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔

ملالہ کے مقابلے میں گریٹا کو تو نوبیل انعام بھی نہیں ملا اور نہ ہی اُس پر دیگر نوازشات کی بارش ہوئی ہے، مگر وہ اپنی جان اور مستقبل کی پروا کیے بغیر اسرائیل کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے۔ ملالہ نے جو کیا وہ ناکافی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ انعامات اور تمغے تو سمیٹتے رہیں اور جب کسی فاشسٹ کے خلاف کھڑے ہونے کا وقت آئے تو نیویارک نکل جائیں۔ ملالہ کے علاوہ بھی دنیا میں بے شمار بچیاں ہوں گی جنہوں نے شاید اُس سے بھی زیادہ دلیری کا مظاہرہ کیا ہو مگر قسمت کی دیوی ملالہ پر مہربان ہوئی۔ اسرائیل کی حالیہ جنگی جارحیت نے ملالہ کو موقع دیا تھا کہ ثابت کرے کہ واقعی وہ اِس انعام کی حقدار تھی مگر ملالہ نےاِس موقع پر اُس کیریکٹر کا مظاہرہ نہیں کیا جیسا کہ اسے کرنا چاہیے تھا۔ ملالہ جیسے لوگوں کے کیریکٹر کا یہی امتحان تھا۔ دنیا کا کیا ہے،وہ تو اسمگلروں کو بھی مل جاتی ہے!

تازہ ترین