حسینیت اور یزیدیت کی فطری جنگ میں جب یہودی گریٹر اسرائیل کی خواہش کی تکمیل کے لئے فلسطین کے نہتے مسلمانوں کی نسل کشی کے دوران دنیا میں ظلم کی نئی داستانیں رقم کر رہا تھا، بیشتر اسلامی ممالک اور انسانی حقوق کے داعی مظلوم فلسطینیوں کی لاشوں پر سیاسی شعبدہ بازی کرتے ہوئے اسرائیلی درندگی میں اضافے کا سبب بن رہے،تب بھی پاکستان کا شمار دنیا کے چند ان گنے چنے ممالک میں ہوتا تھا جو فلسطین کے ساتھ مذہبی عقائد، جذباتی لگاؤ، ایمانی اوراسلامی تاریخ میں انتہائی اہم حیثیت رکھنے کی وجہ سے مضبوط بنیادوں پر قائم اصولوں پر فلسطین اور فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا اور عالمی پلیٹ فارمز پر اپنے مؤقف کا برملا اظہار کرتا رہا۔دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے پر جب اکثر ممالک اپنے مفادات کے تحت فیصلے کر رہے تھے،پاکستان کے لیے ایک مسئلہ ایسا ہے جو محض سیاسی نہیں بلکہ تاریخ اسلام اور صدیوں سے طے شدہ روایات میں سچ اور جھوٹ کے درمیان کھینچی گئی لکیر اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹانے تک قائم رہے گی۔اور یہ طے ہے کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا، نہ سیاسی طور پر، نہ اخلاقی طور پر، نہ دینی طور پر۔پاکستان اسلام کے واضع نظریہ کے ایمان پر مبنی ریاست کی صورت میں قائم ہوا اور اس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی جومحض نعرہ نہیں بلکہ ریاستی نظریہ ہے جبکہ اس کے برعکس اسرائیل اسلام دشمنی کے نظریہ اور اسلام اور اسلامی ریاستوں کو مٹانے کے مشن کے ساتھ معرض وجود میں آیا جس کے ساتھ ہی اسرائیلی سازش کے تحت بعض طاقتوں کی پشت پناہی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا، اگرچہ شوشہ چھوڑنے والی مخصوص اسرائیلی لابی نے اس کی حمائت کی لیکن پاکستان نے اس موقع پر بھی اس کی شدید مخالفت کی اور اسرائیل کے خلاف ڈٹ گیا کیونکہایک ایسی ریاست جو اسلامی تشخص اور مظلوم مسلمانوں کے دفاع کے عہد پر قائم ہوئی، وہ کسی ایسی قوت کو کیسے تسلیم کر سکتی ہے جس نے فلسطین کی سرزمین چھینی، انسانیت کا خون بہایا، اور قبلۂ اول (بیت المقدس) کو ناپاک کیا؟ جبکہ اسرائیل کا قیام طاقت، ظلم اور غصب کی بنیاد پر ہوا اور وہ گریٹر اسرائیل کے نظریہ کے تحت اردگرد کی تمام اسلامی ریاستوں پر قبضہ کرنے کے لئے مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے جبکہ پاکستان خود ظلم کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے۔لہٰذا دونوں کا نظریاتی امتزاج ممکن ہی نہیں۔تاہم پاکستان میں تحریک انصاف کی ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن عوام نے ان کی یہ سازش ناکام بنا دی تاہم پاکستان کے بنیادی نظریہ کو خفیہ طور پرنقصان پہنچانے کی سازشیں جاری ہیں جس کے تحت اس مرحلے پر بھی منظم انداز میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی افواہیں پھیلا کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوششیں اور اسرائیلی ایجنڈے پر کام جاری ہے، یہ امر بعید از قیاس نہیں یہ پاکستان دشمنوں کے ایجنڈے کے تحت افواہیں پھیلانے کے لئے بھارتی میڈیا کی مدد حاصل کرکے پاکستان کے عوام میں بیچینی پیدا کرکے مخصوص مفادات حاصل کئے جاسکیں۔ایسی ملک دشمن قوتوں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ فلسطین کوئی جغرافیائی تنازع نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کا اجتماعی مسئلہ ہے جس کا حل افواہ بازی سے ممکن نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے، پاکستان اسے کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔قائداعظم کا یہ فرمان پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد، قومی پالیسی اور عوامی سوچ کی اساس ہے۔لیکن خودساختہ مفروضوں کے ذریعے قوموں کے نظریات تبدیل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو مایوسی ہوگی کیونکہ پاکستان اگر اس مفروضے کے تحت چلے تو وہ اپنی نظریاتی شناخت، اخلاقی قوت، اور امتِ مسلمہ میں قائدانہ مقام کھو دے گا۔یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ جب تک ایک بھی فلسطینی بچہ اپنے حقِ آزادی کے لیے لڑ رہا ہے،پاکستان کی غیرت، ایمان اور تاریخی شعور اسے اسرائیل کے سامنے جھکنے نہیں دے گا۔یہ پاکستان کا ناقابل ترمیم فیصلہ ہے کہ فلسطین آزاد ہوگا،بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہواور اسرائیل اپنے غاصبانہ قبضے سے دستبردار ہو۔ورنہ پاکستان کے دروازے اسرائیل کے لیے بند رہیں گے۔یہ ضد نہیں، یہ اصول اور ایمان کا تسلسل ہے۔یہ ملک صرف جغرافیہ نہیں — یہ ایک عقیدہ ہے۔اور عقیدہ کبھی سمجھوتے پر نہیں بلکہ قربانی پر قائم رہتا ہے۔کیونکہ یہ صرف ایک سیاسی فیصلہ نہیں،یہ ایمان کا معاملہ ہے۔اس عقیدے پر عوام فیصلہ سازوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔