• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزہ میں امن کی نئی صبح کا طلوع تاریخ کے ایک ایسے باب کا سر آغاز ہے جو فلسطینی نوجوانوں ، بوڑھوں، بچوں اور خواتین نے اپنے خون سے لکھا۔ اس امن کی حفاظت فلسطینیوں کو تو کرنا ہی ہے۔ عالمی برادری کی بھی ذمہ داری ہے ۔ جنگ وہ خوفناک عفریت ہے جسکے نمو دار ہوتے ہی ساری دیواریں گر جاتی اور حفاظتی رکاوٹیں پانی کے بلبلے سے بھی کم موثررہ جاتی ہیں۔ پیر 13؍اکتوبر 2025ء کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ غزہ امن سربراہی کانفرنس اسرائیل اور حماس کے درمیان تاریخی امن معاہدے پر جب ثالث ملکوں امریکہ، مصر، قطر اور ترکیہ کے سربراہوں کے دستخط ثبت ہوئے تو اس موقع ایک آواز اعلان کرتی نظر آئی:’’غزہ معاہدہ اب قائم رہے گا، تیسری عالمی جنگ مشرق وسطیٰ سے شروع ہونے کی پیش گوئیاں اب پوری نہیں ہو نگی۔‘‘ یہ آواز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تھی جن کا اس امن معاہدے میں کردار موثر ترین رہا۔ اس بات کو صدر ٹرمپ کی شخصیت کا جادو کہا جا سکتا ہے کہ معاہدے والے دن ہی اس پر عملدر آمد شروع ہو گیا۔ فلسطین کے مزاحمتی گروپ حماس کی طرف سے 20اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیلی حکومت کی جانب سے 1900فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔ شرم الشیخ میں منعقدہ دستخطوں کی تقریب میں عالمی رہنمائوں کی نمایاں تعداد موجود تھی۔ امریکی صدر نے اس موقع پر اپنے خطاب میں 13؍ اکتوبر کو پوری دنیا کیلئے تاریخی دن قرار دیا۔ انکے مطابق یہ معاہدہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس طرح کا کامیاب دن انہوں نے پہلے نہیں دیکھا۔ غزہ معاہدے سے خطے میں امن قائم ہو گا، یہ معاہدہ فلسطینی عوام کیلئے امید کی کرن ہے۔ دستخطوں کی تقریب کے بعد امریکی صدر نے عالمی رہنمائوں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم پہلے بھی بہت سے معاہدے کر چکے ہیں۔ مگر اس معاملے نے تو راکٹ کی طرح اڑان بھری ہے۔ ہم مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن و استحکام چاہتے ہیں۔ مل جل کر غزہ کی تعمیر نو کریں گے۔ شرم الشیخ کی اس تقریب میں پاکستان کا نام بار بار گونجتا رہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو عالمی رہنمائوں کے جلو میں کھڑے تھے،پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ فیلڈمارشل سید عاصم منیر کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں توصیفی انداز میں یاد کیا تو وزیر اعظم سمیت تمام شرکا کی جانب سے تحسین کا انداز نمایاں ہوا۔ قبل ازیں امریکی صدر کے پاکستانی وزیر اعظم سےگرمجوش مصافحے اور اجلاس کے موقع پر بات جیت کو مبصرین نے توجہ سے نوٹ کیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب سے پہلے اچانک وزیر اعظم شہباز شریف کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ شہباز شریف نے اپنے فی البدیہہ خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کا حقیقی علم بردار قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کی بدولت جنوبی ایشیا میں امن ممکن ہوا۔ پاکستانی رہنما کا کہنا تھاکہ امریکی صدر کو پاک بھارت جنگ سمیت سات جنگیں رکوانے اور امن کیلئے شاندار کردار ادا کرنے پر نوبل انعام کیلئے نامزد کیا گیا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی کی صورت میں لاکھوں افراد کی زندگیاں بچائی گئیں، تاریخ امریکی صدر کی جنگ بندی کوششوں کو یاد رکھے گی۔ امریکی صدر نے وزیر اعظم کے خطاب کے بعد ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انکی خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت اچھے ہمسائے بن کر رہیں۔ میڈیا نیوز کے مطابق صدر ٹرمپ نے پاک افغان جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے اسے بھی حل کرنے کی بات کی۔ ایران کے ساتھ امن معاہدے کی انکی خواہش کا اظہار ایک اور سمجھوتے کے امکانات کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس خواہش کا اظہار اسرائیلی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں بھی کیا ۔ ان کا کہنا تھا امریکہ اوراسرائیل کی ایران سے کوئی دشمنی نہیں۔ ہم تیارہیں یہ فیصلہ تہران کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کب تیار ہوتا ہے۔ اس وقت کہ جنگ بندی معاہدےکے تحت حماس20زندہ اسرائیلی یرغمالیوں اور چار اسرائیلی شہریوں کی باقیات ریڈ کراس کمیٹی کے حوالے کر چکا ہے، جبکہ اسرائیل کی طرف سے 1968ءفلسطینی قیدی رہا کئے جا چکے ہیں۔ ایسے ایسے چراغ روشن ہو رہے ہیں جو امن و آشتی کے نئے دور کی طرف روشنی بکھیرتے محسوس ہو رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ ایک نئی بہتر پر امید منزل کی طرف بڑھتا محسوس ہو رہا ہے۔ اس کیفیت کو نظر بد سے بچانے کیلئے امریکہ اور عالمی برادری کو چوکنا رہنے کے ساتھ ساتھ دیگر تدابیر بھی بروئے کار لانا ہونگی۔ صدر ٹرمپ کی فعال و متحرک قیادت میں اس باب میں ایک ٹائم فریم کے تحت پیش قدمی کی جائے تو یقیناً جلد خوشگوار نتائج برآمد ہونگے۔

اس باب میں یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ سرزمین فلسطین پر جاری طویل کشمکش دو مذاہب کے پیروکاروں کی آویزش سے بہت کچھ زیادہ ہے اس کشمکش کا ایک فریق یہودیوں کا وہ انتہا پسند گروہ ہےجسے صہیونی کہتے ہیں جبکہ خود کو فلسطینی کہنے والوں اور صہیونی تسلط کیخلاف آواز اٹھانے والوں میں صدیوں بلکہ ہزاریوں سے اس زمین پر بسے راسخ العقیدہ عیسائی فلسطینیوں کے خاندان بھی شامل ہیں جنہوں نے جارج حباش کی کمان میں ایک مزاحمتی گروپ بنایا۔ اسی گروپ میں شامل لیلیٰ خالد اور انکے ساتھیوں نے طیارہ اغوا کر کے اسرائیلی مظالم کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرائی ۔ 13؍اکتوبر کو اسرائیلی پارلیمنٹ میں صدر ٹرمپ کی تقریر کے دوران جس رکن پارلیمان نے احتجاج کیا۔ وہ بھی صہیونیوں کا حامی نہیں تھا۔ مختلف ممالک میں فلسطین پر مظالم کے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے والے یہودی بھی ان لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں جو صہیونیوںکے متعصبانہ و ظالمانہ طرز عمل کو ناپسند کرتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اس باب میں مسلم ممالک باہمی مشوروں سے ایک سفارتی لائحہ عمل مرتب کریں اور امریکہ سمیت عالمی برادری کے اہم ممالک کیساتھ مل کر قیام امن اور استحکام کی کوشش کو زیادہ سے زیادہ موثر بنائیں۔

تازہ ترین