مجھےآج مرحوم یاسر عرفات اور سارے فلسطینی مرحومین یاد آئے۔ شرم الشیخ میں ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ دیکھا تو یاسر عرفات تمہارا اوسلو معاہدہ یاد آگیا۔ اس معاہدے پر22ممالک کے سربراہوں کے نمائشی دستخط کرنے والا منظر تونہیں تھا۔ البتہ یاسر عرفات کی جگہ آج ٹرمپ صاحب دولہا بنے 22 ملکوں کے سربراہوں سے سلامی لیتے دو گھنٹے تک ہمیں دکھاتے رہے۔ متوازی کیمرہ چل رہاتھا کہ جہاں بسوں سے رہا ہونے والے فلسطینی کبھی رملّہ کبھی دوسرے شہروں میں جیلوں سے رہا ہوتے ہوئے بچے ، بڑوں سب لوگوں سے اشک بار آنکھوں کے ساتھ گلے مل رہے تھے ۔
ٹرمپ، اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے پھر مصر کی جانب روانہ ہوئے تھے۔ بہت آنکھیں کھولنے والی انکشافی باتیں خود بتائیں، جسکے حوالے سے ٹرمپ کی ذہنی کیفیت کا ایک نیا انداز سامنے آیا۔ انہوں نے بتایا کہ بھاری رقوم خرچ کرکے ہر طرح کے خطرناک مہلک ہتھیار نیتن یاہو کو فلسطینیوں پر برسانے کیلئے دئیے گئے ۔ جو آج ہم 70 لاکھ لوگوں کی شہادت پہ ماتم کررہے تھے۔ ٹرمپ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ دو سال تک مسلسل اسلحہ اسرائیل کو فراہم کرنے پر قطعاً شرمندہ نہیں تھے۔ وہی ٹرمپ آج اپنے کارنامے یاد کرتےہوئے، پاکستان اور انڈیا کی جنگ رکوانے کا دعویٰ بھی28ویںبار دہرا رہے تھے۔ ہمارے وزیراعظم دہرارہے تھے کہ ہم نے ٹرمپ صاحب کو امن نوبل انعام دلوانے کی قرار داد بھی پاس کروائی تھی۔ مگر سویڈن میں بیٹھے فیصلہ سازوں نےہماری اس قرارداد کو پسندید گی سے نہیں دیکھا پیرو میں انقلابی خاتون کو نوبل امن انعام کا حقدار قراردیا۔ ویسے خاتون کو ہی منتخب کرنا تھا۔ تو انڈیا کی ارون دھتی رائے کے علاوہ ایرانی خواتین جنہیں دنیا بھر میں انعامات دے گئے ہیں مگر وہ زنداں میں برسوں سے ہیں۔ پاکستان ہی میں دو سال سے مقید خواتین جو کہ کسی ثبوت کے بغیر بلوچستان کے پی اور خود اسلام آباد کی جیلوں میں ہیں انکو کینسر کے باوجود نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ۔
قید سے پلٹنے والے فلسطینی اور معاہدے کے طفیل کیمپو میں محبوس لوگ بھی اپنے ویرانوں کی جانب پلٹ رہے ہیں۔ چاروں طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہوئے گھبراکر چیخ مارتے ہوئے کہتے ہیں۔ یہاں تو باغ تھا اور ساتھ دس منزلہ بلڈنگ وہ دیکھو سامنے کے ویرانے میں کئی لاشیں نکل رہی ہیں، یہ دیکھو یہ ٹوٹی ہوئی اینٹ تو ہمارے دروازے کی معلوم دیتی ہے ۔بولنا، رونا اور پھر فلسطینیوں کی جو عادت ہے کہ مار کھا کر پھر حوصلے کے ساتھ بے آباد زمینوں میں سرچھپانے اور زیتون کے باغ لگانے کی آرزو کو مایوسی اور اداسی کی پھٹی ہوئی چادر اتار پھینکنے کے جذبے کے ساتھ زمین پہ ہاتھ رکھ کر کہنا، زمین تو اپنی ہے۔ پھر آباد کرتے ہوئے ان تمام شہروں کے نام پر، محلوں اور گھروں کے نام رکھیںگے مگربقول شاعر اظہارالحق یہ بھیڑئیے اور میمنے کے مابین معاہدہ ہے اور معاہدے پہ نہ فلسطین کے موجود ہ منحنی صدر نے دستخط کیےنہ حماس نے۔ ابھی تو دیکھنا ہے کہ نیتن یاہو کونسے پینترے بدلے گا اور بعدازاں ٹرمپ صاحب دوبارہ خطرناک اور بھاری عسکری توپیں، حکم بجالا تے ہوئے بھیجیں گے کہ ایسے شو آئٹم ہم تو 1967 ءسے دیکھ رہے ہیں۔
ٹرمپ صاحب باربار فیلڈمارشل کو یاد کررہے تھے اور افغانستان میں بغیر قانون بے آئین (عبوری حکومت) کو پاکستان پہ حملہ آوَر ہونے پر نہ طالبان کو تنبیہ کررہے تھے نہ انڈیا کو۔ بتادیتے کہ واچپائی کی حکومت کے دنوں میں انڈیا، پاکستان میں بھی عبوری معاہدہ ہوا تھا۔ بہت آسان لفظوں میں دونوں مقبوضہ کشمیریوں کو اجازت دی گئی تھی کہ فوجی سرحدیں نہیں، عوامی سرحدیں ہونگی۔ دونوں طرف تجارت اور رشتے باقاعدہ قائم کئے جائیں گے۔ یہ خوبصورت تجربہ، کشمیر جانے کا ہم سب لوگوں نے بھی کیا کہ ہم مسلسل کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگوں کا زمانہ نہیں بلکہ ایران ، افغانستان پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا سافٹ بارڈر کرکے، تجارت، ادب اور نوجوانوں کی تعلیمی استعداد بڑھانے کیلئے ، سارے ملکوں کے نصاب سے نفرتیں اور جنگیں نکال کر ان ملکوں کے درمیان ادب اور ادیبوں کے باہمی تبادلے اور فنون کو فروغ دیں، لوک گیتوں کی روایت اور زمین سے محبت کیلئے ترانوں کی ضرورت نہیں، باقاعدہ ڈائیلاگ ہونا چاہئےاور جیسا کہ ہنگری کے ادیب نے نوبل ادبی انعام لیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پڑھو تو کافکا کو پڑھو، لکھو تو کافکا کی طرح لکھو ‘‘ ہم اپنے جوانوں کو طرز کہن پہ اڑنےکا درس دینے کے ساتھ برداشت بھی سکھائیں۔ آیئے ہم روز شہدا کو دفن کرنے کی روایت کی جگہ ہر گھر میں پھول ، ہر کھیت میں گندم اور ہر دریا کے دامن کو بلڈنگوں سے خراب نہ کریں۔
شرم الشیخ معاہدے کی پائیداری کے متوازی ہم ہمسایہ ممالک کو زندگی کرنے کی آرزو کے ساتھ ، توپ وتفنگ محدود اور علم وفن کی تحریک کے لئے جس طرح وزیر اعظم نے ٹرمپ کی تعریف کی ہے تو قع ہے کہ وہ اپنے کلاسیکی شعراء کو کوٹ کرتے ہوئے، آئندہ فیلڈ مارشل کو بھی آئینے میں اتار لیںگے۔