عام طور پر کہا جاتا ہے کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ انسان تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتا لیکن یہ مقولہ سب پر صادق نہیں آتا عقلمند افراد اور قومیں تاریخ سے یقیناً سبق سیکھتی ہیں جو انہیں دنیا میں بام عروج تک لے جانے کا سبب بنتا ہے لیکن کچھ بدقسمت افراد اور قومیں نہ صرف تاریخ کا مذاق اڑاتی ہیں بلکہ وقت کے راستے میں کھڑے ہو کر اسے روکنے کی کوشش بھی کرتی ہیں لیکن وقت اور تاریخ کا دھارا انہیں بہا کر لے جاتا ہے۔ انسانی تاریخ نے اپنے صدیوں کے تجربے سے کئی مرتبہ یہ ثابت کیا ہے کہ سیاست اور مذہب کا ملاپ ایک غیر فطری عمل ہے جسکے نتائج ہمیشہ مہلک نکلے ہیں اس نے سب سے زیادہ نقصان ایک ہی مذاہب کے ماننے والوں یعنی اپنے ہم مذاہب کو ہی پہنچایا ہے وہ چاہے ماضی میں مہابھارت کی جنگ ہو اس میں ایک ہی مذہب اور خاندان کے لوگ شامل تھے یا ماضی قریب میں جنگ عظیم اول اور دوم جس میں متحارب ممالک کی اکثریت مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی تھی اسی طرح غیر مذاہب کے درمیان ہونیوالی مذہبی جنگوں مثلاً صلیبی جنگوں نے تقریباً 200 سال تک بے گناہ انسانوں کا خون بہایا۔ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک فرقوں کے درمیان ہونیوالی جنگوں میں ان جنگوں کی نسبت کئی گنا زیادہ افراد مارے گئے جہاں متحارب گروہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اپنی فطرت میں دنیا کا ہر مذہب امن اور مذہبی رواداری کا مذہب ہے جو تمام انسانوں کو ایک دوسرے کیساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت زندگی گزارنے کا سبق دیتا ہے تمام مذاہب میں تمام آفاقی سچائیاں پائی جاتی ہیں مثلاً سچ بولنا ،پورا تولنا ایک دوسرے کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ۔ کوئی مذہب کسی کی حق تلفی کی اجازت نہیں دیتا گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کے ہر مذہب کی روح رواداری کے اصولوں پر استوار ہے لیکن جب اسے سیاست کے خارزار میں لایا جاتا ہے اسی کے نام پر اس کے بنیادی اصولوں کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں اور اسے امن کی بجائے اپنے ذاتی گروہی یا قومی مفادات کے نام پر تشدد اور بد امنی کی آگ میں جھونک دیا جاتا ہے ۔اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ آدمیت کی معراج انسانیت ہے اور انسانیت کی معراج مومنیت یا مومن ہونے میں ہے جس کا مطلب امن قائم کرنیوالا ہے- اسی وجہ سے عقلمند انسانوں اور قوموں نے تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اپنی زندگیوں اور معاشروں میں مذہب کو سیاست کی آلودگی سے بچانے کیلئے انہیں ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہم نے تو اپنی زندگی میں مذہب اور سیاست کے ملاپ کی ایسی خوفناک مثالیں دیکھی ہیں کہ اگر ہم ان میں سے کوئی بھی سبق سیکھ لیں تو ہمارا مستقبل مزید تاریک ہونے سے بچ سکتا ہے- ہم نے مذہب کے نام پر افغانستان میں ایک ایسی خوفناک جنگ لڑی جس نے ہماری کئی نسلوں کی معاشی اور سماجی زندگی کو تباہ و برباد کر دیا ہے حالانکہ یہ جنگ بڑی عالمی طاقتوں کے باہمی ٹکراؤ اور مفادات کی جنگ تھی جسکے نتیجے میں ہمیں تقریبا نصف صدی تک لاکھوں افغان مہاجرین اور ان کے مسلح حواریوں کو پناہ دینا پڑی جس نے ہمیں معاشی سماجی اور سیاسی غرض ہر لحاظ سے منتشر اور کمزور کر دیا ہمارے وہ عظیم دانشور جو اس جہاد کے ذریعے پاکستان کی مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے خواب دیکھتے تھے کاش وہ اپنی اس مہلک دانشورانہ غلطی کا اعتراف کر لیں کہ وہی افغانستان جو ہمارے ساتھ اٹوٹ مذہبی رشتے میں منسلک تھا ہمارے وجود کیلئے کتنا بڑا خطرہ بن گیا ہے اور یہ منظر تو شاید ہی آسمان نے دیکھا ہوگا کہ انتہا پسند مذہبی نظریات کا حامل اسلامی امارات افغانستان انتہا پسند ہندو نظریات کے حامل بھارت کی گود میں بیٹھا ہے جس کی اسلام دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں افغان طالبان جو کسی وقت کشمیر کی جنگ میں بھارت کیخلاف سرگرمیوں میں پیش پیش تھے آج اسی کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دے کر ہمارے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں اور ہماری مغربی سرحدوں پر پاکستانی طالبان کے ذریعے ہر روز ہمارے فوجیوں اور مسلمان شہریوں پر حملے کر رہا ہے کیا مذہب اور سیاست کے ملاپ کی اس سے بدتر کوئی اور مثال پیش کی جا سکتی ہے یہ وہی افغانستان ہے جس نے 1920 کے عشرے میں تحریکِ خلافت کے دوران ہندوستان کو دار الحرب قرار دے کر افغانستان کی طرف ہجرت کرنیوالے ہندوستانی مسلمانوں کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا جہاں تک تحریک خلافت کا ذکر ہے تو یہ بھی مذہبی انتہا پسندی کی سیاست کا غیر منطقی نتیجہ تھی کہ ترکی کے عوام تو اپنی کرپٹ اور نااہل حکومت کیخلاف تحریک چلا رہے تھے اور ہمارے مذہبی سیاستدان اس حکومت کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے ـ یہی نہیں گزشتہ دو سال سے اسرائیل نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم کے وہ پہاڑ توڑے ہیں جس کی مثال مہذب دنیا تو کیا کسی غیر مذہب دور میں بھی نہیں ملتی لیکن اس سارے منظر نامے میں مذہب کے نام پر سیاست کرنیوالے مسلمان ممالک اور وہاں کی مذہبی سیاسی جماعتوں نے ان کی کیا مدد کی ؟ فلسطینیوں کے حق میں غیر اسلامی ممالک میں جو بے مثال مظاہرے ہوئے کیا ان کا عشر عشیر بھی مسلمان ممالک میں دکھائی دیا ؟ اب جب کہ وہاں جنگ بندی کا معاہدہ ہونے لگا ہے اور چاہے وقتی طور پر ہی سہی فلسطینیوں کی نسل کشی رکنے کا امکان پیدا ہوا ہے تو ہمارے ہاںمذہبی سیاسی جماعتوں نے ملک میںہنگامے شروع کر دیے ہیں، ـ یہ کیا چاہتے ہیں ؟ ہم کب تک اس انتہا پسند سیاست کا شکار ہوتے رہیں گے؟
آؤ یہ مان لیں کہ خدا نے نہیں کہا
کوئی بھی اس کے نام کو بیچے کمائے پاپ
برسوں سے ہم یہ کر رہے ہیں آج مان لیں
ہم اپنے دشمن آپ ہیں ہم اپنے دشمن آپ