• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صرف پانچ سال میں کیا سے کیا ہوگیا۔ پانچ سال پہلے عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم تھے ۔ اشرف غنی افغانستان کے صدر تھے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے افغان طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات پر راضی کیا۔ اشرف غنی ان مذاکرات کیخلاف تھے لیکن 29 فروری 2020 ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور افغان طالبان نے ایک امن معاہدے پر دستخط کردیئے۔ معاہدے کے تحت 10 مارچ 2020 ء سے سیز فائر ہو گیا۔ امریکا سمیت نیٹو ممالک کی فوج افغانستان سے واپسی پر راضی ہوگئی اور طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ فوجی طاقت کے ذریعے کابل پر قبضہ نہیں کریں گے۔ دوحہ امن معاہدے پر پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے فتح کے شادیانے بجائے اور اسے پاکستان کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔ 22 جولائی 2021 ء کو میں نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا کہ افغان طالبان کابل کا گھیرائو کرچکے ہیں اور مغربی افواج کی واپسی کے بعد ناصرف کابل پر قبضہ کر لیں گے بلکہ پاکستان کو بھی بہت ٹف ٹائم دیں گے۔ اُس زمانے کی فوجی لیڈر شپ نے حسبِ توقع اورحسبِ توفیق مجھے ملک دشمن قرار دیا اور اُسوقت کی حکومت کے وزیر اطلاعات نے بھی میرے دعوے کی تردید کی ۔

چند دن کے بعد 15اگست 2021ء کو طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے سقوط کابل پر کہا کہ طالبان نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔ اشرف غنی کابل سے فرار ہوگئے۔ جنرل فیض سقوط کابل کا کریڈٹ لینے کیلئے بن بلائے کابل پہنچ گئے۔ دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان کو لینے کے دینے پڑگئے۔ اس ماحول میں جنرل باجوہ ایک اور ایکسٹینشن کے چکر میں پڑگئے اور جنرل فیض نے نیا آرمی چیف بننے کیلئے جوڑ توڑ شروع کر دیا ۔ باجوہ اور فیض کی اس کشمکش میں عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد آ گئی اور اُنکی بھی حکومت سے چھٹی کر دی گئی ۔ شہباز شریف نئے وزیر اعظم بن گئے اور باجوہ نے انہیں افغان طالبان کے ذریعے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کیا ۔ کور کمانڈر پشاور جنرل فیض ایک دفعہ پھر کابل گئے اور اُنہوں نے پاکستانی طالبان کو قیمتی تحفے بھی دیئے لیکن معاملہ آگے نہ چل سکا۔ پھر باجوہ اور فیض بھی منظر سے ہٹ گئے۔ پانچ سال کے بعد پاکستان اور افغان طالبان کی دوحہ میں دوبارہ ملاقات ہوئی ہے اورپاکستان نے طالبان پر واضح کیا ہے کہ اگر آپ نے افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی تنظیموں کی روک ٹوک نہ کی تو پھر دہشت گردوں کے خلاف لڑائی پاکستان میں نہیں افغانستان ہوگی۔

دوحہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جسے کامیاب بنانے میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ افغان طالبان اور پاکستان کی حکومت کے درمیان عدم اعتماد اپنی انتہا پر ہے۔ پاکستان میں افغانوں کو بُرا بھلا کہا جارہا ہے اور افغانستان میں پاکستانیوں کو گالیاں دی جارہی ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ وہ نریندر مودی جو اکھنڈ بھارت میں صرف پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، برما، نیپال اور مالدیپ ہی کو نہیں بلکہ افغانستان کو بھی ضم کرنا چاہتا ہے، افغان طالبان کو پاکستان کیخلاف تھپکیاں دے رہا ہے ۔ نفرت ، غصے اور انتقام کے اس ماحول میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیےکہ ہماری شکایت افغان طالبان سے ہے، پوری افغان قوم سے نہیں۔

افغانوں کو احسان فراموش قرار دیکر پوری افغان قوم کی تضحیک کرنا انتہائی نامناسب ہے۔ اسی طرح افغان بھائی بھی اپنی سرحدیں اٹک تک پھیلانے کے دعوے نہ کریں۔ آپ نے کبھی دہلی پر دوبارہ قبضے کا دعویٰ تو نہیں کیا حالانکہ 1206ء سے 1526ء تک مختلف افغان حملہ آوروں نے دہلی پر حکومت کی۔ آگرہ شہر تو آباد ہی افغان حکمران سکندر لودھی نے کیا تھا۔ محمود غزنوی، غوری، شیر شاہ سوری اور احمد شاہ ابدالی بھی افغانستان سے آئے تھے ۔ احمد شاہ ابدالی نے 1761ء میں پانی پت کی تیسری لڑائی میں ہندو مرہٹوں کو شکست دی۔ اُن کے خلاف آج بھی بھارت میں تضحیک آمیز فلمیں بنائی جاتی ہیں جن پر افغان طالبان نے کبھی احتجاج نہیں کیا۔ آج کے بھارت میں شامل ہونے والی کئی ریاستیں سابقہ افغان کالونیاں تھیں ۔

ریاست مالیر کوٹلہ کے حکمران شیروانی قبیلے سے تھے ، ریاست پٹودی کے حکمران یوسفرئی تھے ۔جونا گڑھ ، رام پور ، پالن پور بھوپال کو بھی افغانوں نے آباد کیا ۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان بھوپال سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے لیکن بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ وہ یوسفزئی پٹھان ہیں اور ان کے بزرگ تیراہ سے بھوپال گئے تھے ۔ کیا افغان طالبان نے کبھی بھوپال پر اپنا دعویٰ جتایا ہے ؟ مانا کہ احمد شاہ ابدالی نے لاہور اور ملتان پر قبضہ کر لیا تھا ۔ جنوبی پنجاب کا شہر مظفر گڑھ نواب مظفر خان نے آباد کیا جو افغان تھا اور سکھوں سے لڑتا ہوا مارا گیا ۔ خان گڑھ کا نام خان بی بی کے نام پر رکھا گیا جو مظفر خان کی بہن تھی لیکن بعد میں رنجیت سنگھ بھی تو کابل تک پہنچ گیا تھا۔ کیا کبھی کسی پاکستانی نے اپنی من پسند تاریخ کا سہارا لیکر کابل کو پاکستان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے ؟ پاکستانیوں اور افغانوں کو ایک لاحاصل لڑائی اور بحث سے نکلنا ہوگا ۔ اگر آج ہمیں یہ شکایت ہے کہ افغانستان کے راستے سے پاکستان میں دہشت گردی ہوتی ہے تو ہمیںافغانوں کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ پہلے آپکے علاقے غزنی سے حضرت علی ہجویریؒ اور چشت شریف سے حضرت معین الدین چشتی ؒ آیا کرتے تھے جنہوں نے برصغیر میں اسلام کی روشنی پھیلائی لیکن اب خودکش حملہ آور آتے ہیں ۔ ہمیں افغانستان کوعلامہ اقبال کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اقبال نے’’ جاوید نامہ‘‘ میں کہا تھا’’آسیا یک پیکر آب و گل است/ملت افغان در آن پیکر دل است/ از فساد او فساد آسیا/ در گشاد او گشاد آسیا ‘‘علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیا کا دل قرار دیا اور کہا کہ اگر اس دل میں فساد ہو گا تو پورے ایشیا میں فساد ہو گا اور اگر افغانستان میں امن اور خوشحالی ہوگی تو پورے ایشیامیںامن و خوشحالی آئے گی ۔’’بال جبرئیل‘‘میں اقبال نے ’’خوشحال خان خٹک کی وصیت‘‘کے عنوان سے کہا’’قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم /کہ ہو نام افغانیوں کا بلند/محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے/ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند‘‘جو محبت اور عزت پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال نے افغانوں کو دی، وہ عزت افغانوں کو رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری میں نہیں ملے گی۔ افغان طالبان سے اختلاف اور افغان قوم کی عزت دو مختلف چیزیں ہیں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پاکستانیوں کی اکثریت افغانستان سے لڑائی نہیں چاہتی لیکن افغان طالبان امن کی اس خواہش کو کسی کی کمزوری نہ سمجھیں اور پاکستان کے دشمنوں کی پراکسی نہ بنیں۔ پاکستان نے روسی اور امریکی فوج کی طرح افغانستان میں گھس کر کوئی فوجی اڈہ قائم نہیں کرنا بلکہ دہشت گردوں کے اڈے تباہ کرنے ہیں۔ 2020ءکا دوحہ امن معاہدہ توڑ کر طالبان کو بہت فائدہ ہوا۔ 2025ء کے دوحہ امن معاہدے کو توڑا گیا تو سب فائدے ختم ہو جائیں گے۔ پچھلے پانچ سال میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اگلے پانچ سال میں سب کچھ بدل سکتا ہے۔

تازہ ترین