پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری ای ایف ایف (EFF) پروگرام کے تحت دوسرے جائزہ پر اتفاق رائےہو گیا ہے جسکے تحت نومبر کے آخرتک پاکستان کو تیسری قسط کی رقم 1بلین ڈالر اور ماحولیاتی پروگرام کی پہلی قسط کے تحت تقریباً 200 ملین ڈالر مل جانے کی توقع ہے ۔ مجموعی طور پر پاکستان کو 1۔2 بلین ڈالر کی رقم آئی ایم یف سے ملے گی۔IMFکے جائزہ مشن نے کراچی اور اسلام آباد میں 25ستمبر سے لیکر 10اکتوبر تک پاکستانی حکام کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی لیکن اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا۔ اسکے بعد پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اور نگزیب ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ واشنگٹن میں IMF اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے پہنچے تو اس موقع پر سائیڈ لائن میٹنگ پر آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر مڈل ایسٹ اور ناردرن ریجن جہاد حضور کے ساتھ ایک تفصیلی ملاقات ہوئی جسکے اندر دوسرے جائزہ مشن پر اتفاق رائے کے حصول میں کافی مدد ملی۔ اتفاقِ رائے کے نتیجے میں میکرو اکنامک اور ماحولیاتی فریم ورک کے اندر نظر ثانی پر اتفاق ہوا ہے جسکے تحت حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجہ میں شرح نمو کے ہدف میں کمی کردی گئی ہے ۔ بجٹ 2025-26 کی پارلیمنٹ سے منظوری کے وقت قومی اقتصادی کونسل نے شرح نمو کا ہدف 4.2فیصد مقرر کیا تھا حالیہ نظرثانی کے تحت اس کاہدف3 اعشاریہ5 فیصد سے لیکر 3 اعشاریہ25 فیصد کرنے پراتفاق ہوا ہے۔ملک کی شرح نمو میں نظرثانی کے نتیجہ میں مالیاتی فریم ورک اور بجٹ اہداف میں بھی نظر ثانی کی گئی ہے جسکے تحت ایف بی آر کا ہدف14130 ارب سے کم کر کے 13964 ارب روپے کر دیا گیا ہے ، جسکے تحت ایف بی آر کا ہد ف تقریباً 166 ارب روپے کم کردیا گیا ہےلیکن ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو 11 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے ۔ دوسری طرف ابتدائی تخمینہ کے تحت منصوبہ بندی کمیشن نے حالیہ تباہ کن سیلاب کے نقصانات پر مبنی رپورٹ جاری کردی ہے جسکے تحت ملک کو 822 ارب روپے یا 2 اعشاریہ 9ارب ڈالرکا نقصان ہوا ہے۔ سب سے زیادہ نقصانات پنجاب میں ہوئے جن کے تحت 631 ارب کا تخمینہ لگایا گیاہے۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے اس بات کا انکشاف بھی کیا کہ گزشتہ سیلاب 2022 ءکے دوران 30ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا لیکن پاکستان کوصرف 600ملین ڈالر کی رقم بین الاقوامی ڈونرز کی طرف سے ملی بقایا 10اعشاریہ 9ارب ڈالر کے اندر سے کی گئی کمٹمنٹ کے تحت قرضہ جات کو سیلاب کی مد میں دی گئی امداد کی طرف موڑ دیا گیا۔ اسلئے پاکستان نےفیصلہ کیا کہ بین الاقوامی امداد کی درخواست نہیں کی جائیگی بلکہ اپنے وسائل سےسیلاب زدگان کی مدد کی جائیگی۔ان حالات کے تناظر میں آئی ایم ایف نے عندیہ بھی دیا ہے کہ اگر ایف بی آر کے شارٹ فال میں مزید اضافہ جاری رہا تو حکومت پاکستان کو اضافی ٹیکس لگانا پڑیں گے ۔ایف بی آر کا پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران تقریباً 198 ارب روپے کا شارٹ فال ہے اسکے اندر اگر دوسری سہ ماہی کے دوران مزید اضافہ ہوا تو جنوری 2026 سےمزید ٹیکس لگانے پڑیں گے۔IMF پروگرام کے تحت بجٹ کے پرائمری بیلنس کی بہت زیادہ اہمیت ہے اس ہدف کےاندر نظرثانی کی گئی ہے جسکے تحت پرائمری بیلنس کو 1.6 فیصد جی ڈی پی کے برابر رکھنا ہے۔نجکاری پروگرام پر بھی اتفاق ہواہے جسکے تحت پی آئی اے اور پاور سیکٹر کی ڈسکوز کی نجکاری کی طرف پیش رفت کرنی ہے۔پاکستان اور IMF کے درمیان ایک تنازع گورننس اور کرپشن ڈائیگناسٹک رپورٹ سر فہرست ہے۔ آئی ایم ایف اس رپورٹ کی اشاعت تیسری قسط کے اجرا سے پہلےچاہتا ہے۔آئی ایم ایف فنڈ کی سخت مانیٹری پالیسی کا بھی خواہاں ہے اس وقت پالیسی ریٹ 11 فیصدپر برقرار ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نےافراط زر کی شرح کا ہدف 5 سے 7 فیصد رکھا ہےحالیہ سیلاب کے بعد نظرتانی شدہ ہدف کی رینج 7اعشاریہ 5 فیصد کے لگ بھگ ہے۔وزات خزانہ اور پرائیویٹ سیکٹر کی خواہش ہے کہ مانیٹری پالیسی کے کو سنگل ڈیجٹ کی طرف لایا جائے لیکن IMFفی الحال اس کیلئے تیار نہیں ۔ غالب امکان ہے کہ پالیسی ریٹ ڈبل ڈیجیٹ تک برقرار رہے گا۔متفقہ فریم ورک اس بات کی دلیل ہے کہ شرح نمو اور افراط زر اس سطح پر برقرار رہے گی جسکے نتیجہ میں بیروزگاری اور غربت میںکمی نظر نہیں آرہی۔حالیہIMF پروگرام کے اندر ایک چیلنج واضح طور پر ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ ایک دفعہ پھر پاکستان کے تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہو چکا ہے ۔ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران تجارتی خسارہ 9 اعشاریہ 4ارب ڈالر کی سطح کو چھو چکا ہے عالمی مالیاتی فنڈ نے تجارتی خسارہ کا ہدف 26 ارب ڈالر رکھنے کا تخمینہ لگایا ہے اگر یہ خسارہ 36 ارب ڈالر کی حد تک پہنچ جاتا ہے تو 10 ارب ڈالر کا فرق کرنٹ اکائونٹ اور ادائیگیوں کے توازن پر بوجھ کا سبب بن سکتا ہے۔IMFکے حالیہ پروگرام کی تکمیل میں دو سال کا وقت باقی ہے اگر اسی رفتار سے بیرونی ادائیگیوں کا توازن مزید مشکلات کا شکار ہوا تو موجودہ پروگرام کے اختتام کے وقت پاکستان کو مزید ایک اور پروگرام کیلئے IMFکا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔اس کا واحد حل بیرونی قرضہ لیے بغیر ایکسپورٹ، ترسیلاتِ زر اور بیرونی سرمایہ کاری بڑھانا ہے ۔