• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی کہانی، نیا فسانہ: ایک وڈیرے کی کہانی (آخری قسط)

رفاقت حیات

مدوّن و مرتب: عرفان جاوید

مَیں تیرے ساتھ وہ سب کیسے کر سکتا ہوں، بتا؟‘‘ یہ سُن کر وہ کھسیانا ہونے لگا، کیوں کہ وڈیرے کی بات میں وزن تھا۔ وہ اُس کے آگے ہاتھ جوڑنے لگا۔ ’’وڈیرا! تم سولہ آنے ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن مجھ غریب کی حالت کے بارے میں ذرا سوچو۔ مجھے اپنے گوٹھ سے بھاگے ہوئے بیس بائیس سال ہوچُکے۔ مَیں آج تک ایک مفرور کی طرح روپوشی کی زندگی گزار رہا ہوں۔ آج بھی شہر میں گھومتےپِھرتے کاروکاری کی موت کا خیال میرے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ 

اگر تم سمجھ رہے ہو کہ صرف اپنی زندگی جانے کے خوف سے مَیں پیچھے ہٹا تھا، تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ بس سُکھاں اوراُس کےبچّوں کی جان جانے کا ڈر مجھے ہروقت ہلکان کیے رکھتا ہے۔‘‘ ’’اچھا، اچھا، ٹھیک ہے، سمجھ گیا۔ تمہارے چھوکرےنظرنہیں آرہے؟‘‘’’وہ کام سے آتے ہوں گے سائیں۔ بڑا چھوکرا پکے قلعے میں چوڑیاں بنانے والی ایک بھٹّی میں کام کرتا ہے اور چھوٹا موٹرسائیکل کی میکینکی سیکھ رہا ہے۔ دھنی سائیں نے مجھے فرماں بردار اولاد دی ہے وڈیرا۔ دونوں جو بھی کماتے ہیں، لا کر اپنی امڑ کی ہتھیلی پر رکھتے ہیں، ہاں، لیکن گھر کا کوئی کام نہیں کرتے۔‘‘

یہ سُن کر وڈیرے کے سینے سے ایک ہُوک سی نکلی، جسے اُس نے سینے میں ہی دبا دیا۔ اچانک اس کی سماعت زہریلے اورکٹیلے لہجوں سے بھرنے لگی۔ اُسے غصّے اور نفرت سے دہکتی آنکھیں دکھائی دینے لگیں۔ وہ چند لمحوں کے لیے حسد اور رشک کی بھٹی میں سلگنے لگا۔ پرانے دوست کے گھر مہمان بن کر آنے کے بعد اُسے اندازہ تھا کہ وہ اُس سے یہاں آمد کے سبب کے متعلق تفصیلات ضرور پوچھنا چاہے گا۔ اُس نے اپنے جی میں مصمّم ارادہ کر لیا تھا کہ اُسےکسی بھی طوراپنی حقیقی صورتِ حال کی بھِنک نہیں پڑنے دے گا۔ کچھ ہی دیر بعد جب رنگو نے اُس سے شہر آنے کی وجہ پوچھی، تو اس نے جھوٹ بولا کہ وہ یہاں کی کچہری میں ایک مقدمے کی پیشی بُھگتانے آیا تھا۔ 

اس کے بعد ان کے درمیاں خاموشی کا ایک طویل وقفہ حائل ہوگیا۔ رنگو نے اپنی بات سے اس وقفے کو ختم کرنے کی سعی کی۔ بولا۔ ’’سائیں! میرے پاس بھنگ کی ایک پُڑیا رکھی ہوئی ہے۔ مَیں کام سے واپس آکررات کے کھانے سے پہلے اسے گھوٹ کردویا تین گلاس چڑھاتا ہوں۔ اگر اجازت دو تو کارروائی شروع کروں۔‘‘ اُس کی بات سُن کر وڈیرا ہنسنے لگا۔ 

اس کی ہنسی کو رنگو نےاجازت خیال کیا اور آگے بڑھ کر ذرا سا جُھک کرچارپائی کے نیچے رکھا ہوا ڈنڈا اورکونڈا نکال لیا۔ وہ چُپ چاپ چارپائی پر بیٹھ کراُسے دیکھتا رہا۔ وہ باہر سے پانی سے بَھرے جگ کے ساتھ کچھ خشخش، بادام اور پستے لیتا آیا۔ ڈنڈے اور کونڈے کو پانی سے اچھی طرح دھونے کے بعد اُس نے بھنگ کے سوکھے پتّوں کے ساتھ ساتھ بادام، خشخش اور پستے کونڈے میں ڈال دیے اور اُنہیں ڈنڈے کی مدد سے کُوٹنے لگ گیا۔

اُسے مصروفِ کار دیکھ کر وڈیرے کو برسوں پرانے دن یاد آنے لگے۔ جب ہر روز کبھی صُبح کے وقت تو کبھی ڈھلتی دوپہر کے آس پاس جوان رنگو اُس کی اوطاق میں بیٹھ کر اُس کے لیے بھنگ گھونٹنے کا کام کیا کرتا تھا۔ اِس یاد نے اُس کے ہونٹوں پرمسکراہٹ بکھیردی۔ اُسے اچانک ایک شرارت سی سوجھی۔ ’’ارے رنگو! یہ بتا کہ تیرے ہاتھوں سے بنی بھنگ میں کیا اب بھی وہی پرانا ذائقہ ہے؟‘‘

وہ یہ سن کے بے ساختہ ہنسا، پھر ایک آہ بَھرتے ہوئے سنجیدہ ہوگیا۔ ’’میرے سائیں! پرانا ذائقہ اب کسی چیز میں نہیں رہا۔ سارے مزے اور سارے ذائقے تو وہیں چھوڑ آیا تھا۔ اب تو بس اُن کی یاد باقی ہے، جو میری چھوٹی سی دلڑی کو رات دن جلاتی ہے۔‘‘ اُس کا جواب سن کر وڈیرے کا دل بھر آنے لگا۔ اُس کے جی میں آئی کہ وہ اپنی جو بپتا، اتنی دیر سے اپنے دوست سے چُھپائے بیٹھا ہے، ساری کی ساری اُس سے کہہ ڈالے، لیکن اُس نے خُود کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ کچھ دیر خیالوں میں گم رہنے کے بعد اُس نے فرش کی طرف نگاہ کی، تو اُسے کونڈے میں ہلکا سبز محلول تیرتا دکھائی دیا۔ 

رنگوکپڑا اُٹھائے اس کی طرف مدد طلب نظر سے دیکھ رہا تھا۔ وہ فوراً چارپائی سے اُترا اور اُس کے سامنے بیٹھ کر اُس نے کپڑا اُس سے لےکر اپنے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ رنگو نے جلدی سے خالی جگ کپڑے کے نیچے رکھ دیا اور کونڈے سے بھری ہوئی بھنگ احتیاط سے کپڑے پر انڈیلنے لگا۔ بھنگ کپڑے کے تاروں سے چھن چھن کر جگ میں گرنےلگی۔ رنگو نے برف کی ٹکڑیاں لا کر اُس میں ڈال دیں اور اُسے جگ سے بار بار گلاس میں انڈیل کر ٹھنڈا کرنے لگا۔ ٹھنڈی ٹھار سائی کے گلاسوں کی جوڑی چڑھانے کے بعد یہ دونوں پُرباش ہوگئے۔ 

اُن کے لیے یہ سارا عمل اپنے مشترکہ ماضی کی بازیافت جیسا تھا۔ ماضی جس میں وہ جوان تھے، آپس میں جوڑی دار تھے۔ کچھ دیر کے لیے سہی، مگر اُنہوں نے اس چھوٹے سے غلیظ کمرے سے نکل نکل کر، خُود کو قصبے میں واقع پیر مٹھن شاہ کی درگاہ کے احاطے میں واقع نیم کے گھنے پیڑ کے سائے تلے بیٹھا ہوا محسوس کیا، جہاں انہوں نے مل کر بھنگ گھونٹتے اور پیتے ہوئے بہت سا وقت ساتھ گزارا تھا۔ وڈیرے کو یاد تھا کہ رنگو ہر مشکل صورتِ حال میں ہمیشہ اُس کا ساتھ دیا کرتا تھا۔ حتٰی کہ معشوقوں کی خواب گاہوں کی دیواریں پھلانگنے اور اُن کے گھروالوں کے جاگ پڑنے پر اُن کی مارپیٹ اور تشدّد سے بچنے میں بھی۔ ہر طرح سے، جب بھی اُسے اُس کی ضرورت ہوئی۔

رنگو ایک حجّام کا بیٹا تھا، اِس لیے اُس کی جیب ہمیشہ خالی ہوتی تھی، لیکن وڈیرا اُسے کبھی اس طبقاتی تفاوت کا احساس نہیں ہونے دیتا تھا اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت تھی کہ رنگو کے بالکل اچانک قصبے سے غائب ہوجانے کے بعد اُسے اس جیسا کوئی جی دار دوست کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اِسی لیے وہ نشے کی جونجھ میں اپنا حال فراموش کر کے ماضی میں رنگو کے ساتھ حاصل کی جانے والی خوشیوں، کام یابیوں کے احوال میں گم ہوتا چلا گیا۔ اُن کے قہقہے گھر بھر میں گونج رہے تھے۔ 

جب چارپائی کے پیچھے صحن میں کُھلنے والی کھڑکی پر مسلسل دی جانے والی دستک نے اچانک اُسے اپنی طرف متوجّہ کیا تو وہ یکایک ماضی کی شادکامیوں سے زمانۂ موجود میں لوٹ آیا۔ اُس نے اپنے میزبان کی توجّہ اس جانب دلائی تو وہ ہنستا ہوا اُٹھ کھڑا ہوا۔ وڈیرے نے مستفسرانہ نظروں سے اُسے گھورا تو وہ ہنستے ہوئے گویا ہوا۔ ’’بھوتار! کھانا تیار ہے۔ 

ہاتھ منہ دھونے کے لیے باہر غسل خانے تک چلنا ہوگا۔‘‘ یہ سُن کر اُسے احساس ہوا کہ دھول ابھی تک اُس کے چہرے اور بدن پر جمی ہوئی تھی۔ وہ نہانا چاہتا تھا، لیکن نشے کے پیدا کردہ آلکس کی وجہ سے اُسے غسل کرنے کا خیال صُبح تک کے لیے ملتوی کرنا پڑا اور وہ اُٹھ کر جھومتا جھامتا اپنے میزبان کے پیچھے کمرے سے باہر چل دیا۔

تھکاوٹ اور بھنگ پینے کے سبب وڈیرے کی بھوک دوآتشہ ہوگئی تھی، اِس لیے تازہ کھانا پُرتکلف نہ ہونے کے باوجود اُسے بےحد ذائقے دارمحسوس ہوا۔ آلو، مرغی کے شوربے کے ساتھ تلے ہوئے بینگن اور بھنڈی کھاتے ہوئے اُسے اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ اُس نے کتنی روٹیاں کھائی ہیں۔ بےچارہ رنگو ہر کچھ دیر بعد دوڑ کر دروازے سے باہر جاتا اور چھابی میں گرم روٹی لیے واپس آجاتا اور اُس کے ساتھ بیٹھ کر خُود صرف ایک آدھ نوالہ زہرمار کرتا، جب کہ وڈیرا اِس دوران پوری روٹی ہی چٹ کرجاتا۔ 

وڈیرے کو احساس ہی نہیں ہوا کہ اُس کی بسیار خوری اُس کے دوست اور اُس کے کنبے کو کتنی مہنگی پڑ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد رنگو نے چُپکے سے کھانے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تاکہ اُس کا مہمان پیٹ بھر کر کھا سکے۔ چند لمحوں بعد کھڑکی بجنے پر وہ باہر گیا تو اُس کی بیوی نے اُسے آٹا ختم ہو جانے کی خبر سُنائی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اُس کا کوئی بیٹا دکان پر جا کر آٹا لانے کے لیے تیار نہیں تھا، ناچار اُسے ہی جانا پڑا۔

چھابی میں روٹی ختم ہوجانے پر وڈیرا عجیب ندیدے پن کے ساتھ اپنی انگلیاں چاٹنے لگا۔ ایسا لذیذ کھانا اُسے مدتوں بعد نصیب ہوا تھا۔ اُس نے اپنی جی بھرکر پھُوہڑ بیوی پر چار حرف بھیجے، جس نے زندگی میں ایک بار بھی اُسے ایسا مزے دار کھانا کھلانے کے بجائے ہمیشہ جلی کٹی ہی سُنائی تھیں۔ کچھ ثانیوں بعد ایک مرتبہ پھر کھڑکی پر دستک ہونے لگی اور رنگو دوڑ کر باہر جا کے پھر سے گرم روٹیاں لانے لگا۔ 

یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا۔ اِس دوران رنگو کے گھر میں کھُسر پھُسر سے شروع ہونے والی کھلبلی، دھیرے دھیرے شور و غوغے کا رُوپ اختیار گئی۔ بے چارا رنگو اُٹھ اٹھ کر باہر جانے لگا، لیکن غوغا بڑھتا ہی جارہا تھا۔ وڈیرا اپنے گردوپیش کی ہر چیز سے غافل اپنا شکم بھرنے میں مصروف تھا، جو کسی طرح سیرہونے میں نہیں آرہا تھا۔ 

رنگو کی ہوائیاں اُڑی ہوئی تھیں۔ اُس کے بیٹوں نے باہر بغاوت برپا کردی تھی اور اُس کی بیوی بھی اُن کے ساتھ مل گئی تھی۔ عین اُس لمحے جب رنگو کے بیٹے اپنے مہمان کو کھانے کی غارت گری سے روکنے کی خاطر کمرے پر دھاوا بولنے والے تھے، وڈیرے نے لمبی ڈکار لیتے ہوئے کھانے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور رنگو نے یہ خبر تُرنت اندر پہنچا کر اپنے بیٹوں اور بیوی کے بھڑکتے جذبات کو ٹھنڈا کیا۔ 

حد سے زیادہ کھا لینے کی وجہ سے وڈیرے کے لیے چارپائی سے اُتر کر ہاتھ دھونے کے لیے باہر جانا بھی محال ہوگیا۔ اُس نے بستر کی چادر ہی سے اپنے ہاتھ، منہ صاف کیے۔ دوتین طویل جمائیاں لیں اور’’اللہ وائی‘‘ کہتا ہوا سونے کے لیے لیٹ گیا۔ اُس کے سونے کے بعد رنگو نے اطمینان کی سانس لی اور اُس پر کھیس ڈال کر دبے پاؤں کمرے سے نکل گیا۔

صُبح آنکھ کُھلتے ہی وہ سمجھا کہ وہ اپنی ابانی حویلی، اپنی کشادہ خواب گاہ میں، اپنے رانگلے پایوں والے پلنگ پر لیٹا ہے اور اس کی ہٹ دھرم، ضدی اور جھگڑالو بیوی باہر کہیں بڑبڑا رہی ہے۔ کروٹ لیتے ہی اُسے مقام اور وقت کی تبدیلی کا اندازہ ہوا تو اُس کے دل کو دھچکا سا لگا۔ اپنے گاؤں سے یہاں تک کے سفر کی جھلکیاں اس کے ذہن میں گھوم کر رہ گئیں۔ وہ رنگو کے مکان کے اس بوسیدہ سے کمرے میں، چارپائی پر دراز ایک آہ سی بھر کر رہ گیا۔ کل شام سے اب تک اس کمرے میں بیتنے والے سب حالات اُس کے ذہن یک سر محو ہوچکے تھے۔ 

رنگو کی بےرنگ زندگی، اُسے گوٹھ میں اپنی نوابی کی زندگی سے کہیں بہتر محسوس ہونے لگی تھی۔ اُس کی بیوی اس کی فرماں بردار تھی اور اُس کے بیٹے بھی۔ اس کے برعکس وڈیرے کے ہاں معاملہ یک سر مختلف تھا۔ اس کے بیٹے جوان ہونے کے بعد اُسے اپنا رقیب اور دشمن سمجھنے لگے تھے۔ اُس کی ظالم بیوی، اُس کے بیٹوں سے بھی چار ہاتھ آگے تھی۔ اُن سب نے مل کر وہاں اُس کا جینا دوبھر کردیا تھا۔

غسل کے بعد اُس نے کپڑے نکالنے کے لیے جب اپنا قیمتی سوٹ کیس کھولا، تو اُسے کپڑوں اور ضرورت کی دیگر چیزوں سے لدالد دیکھ کر رنگو بالکل دنگ رہ گیا۔ وڈیرے نے اُس میں سے صرف ایک جوڑا باہر نکالا اور پھر اسے چابی سے بند کردیا۔ رنگو نے بھی فوراً اپنی آنکھیں پھیر لیں۔ جب وڈیرا ناشتے کےبعد رنگو کے ساتھ گھر سے جانے کے لیے تیار ہوگیا تو نکلنے سے پہلے رنگو سے مخاطب ہوا۔ ’’رنگو! مَیں اپنے سوٹ کیس کی چابی تیرے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔ 

شہر میں رش ہوتا ہے۔ کچہری بھی لوگوں سے بھری ہوتی ہے۔ خدانخواستہ، میری جیب نہ کٹ جائے۔ اِس لیے اِسے تُو رکھ لے۔ بعد میں تجھ سے ہی لے لوں گا۔‘‘ اُس نے جیب سے ایک چھوٹی سی چابی نکال کر اُس کے حوالے کی۔ رنگو حیرت سے سنہرے رنگ کی وہ چابی دیکھنے لگا۔ پھر اچانک جیسے اُسے کوئی اہم یاد آگئی۔ ’’سائیں وڈا! یہ چابی میری سے بھی کہیں گر کر کھوسکتی ہے۔ مَیں سوچتا ہوں کہ اِسے سُکھاں کو دے آؤں۔ وہ سنبھال کر رکھ لے گی۔‘‘ یہ سن کر وڈیرے نے اثبات میں سر ہلادیا۔

وہ تنگ سی گلی سے نکل کر غلیظ بازار تک پیدل آئے اور وہاں سے ایک رکشے میں سوار ہوگئے۔ رستے میں رنگو نےوڈیرے کو کچہری میں چلنے والے مقدمے کے حوالے سے کریدنا چاہا تو اس نے گول مول سا جواب دے کر ٹال دیا۔ اُس کے بعددونوں میں کوئی بات نہ ہوئی۔ وہ رکشے سے گاڑی کھاتہ اُتر گئے۔ وڈیرا اب رنگو سے جلد از جلد اپنا پیچھا چھڑا کر اِس شہر سے نکلنا چاہتا تھا، لیکن وہ اُس کی جان چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اُس کے ساتھ عدالت جا کراس کی پیشی بھگتانے کے لیے بالکل تیار تھا۔ وہ پورا دن اس کی چاکری کرنے کو بھی تیار تھا۔ وڈیراعجیب سی صورتِ حال سے دوچار ہوگیا تھا۔ 

اُس نے ایک چائے خانے میں تسلی سے بیٹھ کر رنگو کو سمجھانا مناسب خیال کیا۔ اور پھر چائے کی پیالی کی چسکیاں لیتے ہوئے اُس نے اُسے سمجھایا کہ اُس کا اکیلے کچہری جانا ضروری ہے۔ وہاں مقدمے میں مطلوب دیگر لوگ بھی ہوں گے۔ اِس لیے اُس کا اُس کے ساتھ وہاں جانا ٹھیک نہیں۔ وڈیرے نے اُسے یقین دلانے کی کوشش کی وہ شام تک پیشی اور اُس کے لیے آنے والے دیگر لوگوں کو بھُگتا کر شام ڈھلے اُس کے پاس اس کے گھر پہنچ جائے گا۔ اُس نے اگلے دن رنگو کے ساتھ رانی باغ اور ٹھنڈی سڑک گھومنے کا منصوبہ بھی بنایا۔ اور یوں وہ رنگو کو شیشے میں اُتارنے میں کام یاب ہو ہی گیا۔

چائےخانے کے باہررنگو نے اُسے زور سے اس طرح بھینچا، جیسے برسوں بعد ملنے والوں کو گلے ملتے ہوئے بھینچاجاتا ہے۔ وڈیرا اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ اپنے یار سے آخری بھاکُر (جپھی) ڈال رہا ہے۔ اِس کے بعد دونوں دوست مختلف سمتوں کو چل دیئے۔ مڑ کر دیکھے بغیر، وہ سیدھے چلتے چلے گئے۔ ہالا ناکے سے بس میں بھٹ شاہ جاتے ہوئے، وڈیرا مُسکراتے ہوئے اپنی چشمِ تصورسے رنگو، اُس کی بیوی سُکھاں اور اس کے بیٹوں کو اپنے سوٹ کیس پر جُھکا ہوا دیکھ رہا تھا۔ 

وہ سب اُس میں سے چیزیں نکال نکال کر انہیں حیرت اور خوشی کے مِلے جُلے جذبات سے دیکھ رہے تھے۔ اُسے یقین تھا کہ چند روز اُس کا انتظار کرنے کے بعد وہ اُن چیزوں کو استعمال میں لانے لگیں گے اور دھیرے دھیرے اُن چیزوں کی طرح اُس کی یاد بھی پرانی ہوکر سب کے ذہنوں سے ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گی۔ 

بالکل اِسی طرح اُس کے سگے بھی اسے فراموش کر بیٹھیں گے۔ وہ اپنے بقیہ برس نیم کے ایک گھنے پیڑ کے نیچے گزار دینے کے لیے بالکل تیار تھا۔ اب اس کے دل میں نہ کوئی خوف رہا تھا، نہ ہی کوئی غم۔ وہ ہوا کی طرح ہلکا ہوکر اُڑا جارہا تھا، نیم کی گھنی شاخوں کی طرف۔

سنڈے میگزین سے مزید