(رفاقت حیات)
مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
رفاقت حیات اہم ادیب، فسانہ کار، ناول نگار، اصل نام رفاقت علی، 1973ء میں محراب پور، نوشہرو فیروز میں پیدایش، 1990ء میں راول پنڈی میں قیام کے دوران فسانہ سازی کا ذوق و شرف، اہم ادبی جرائد میں اشاعت، دو ناولوں، افسانوں کے ایک مجموعے کے خالق، جن کی تحریروں کے تراجم ہندی زبان میں بھی ہوچُکے۔
اسکرپٹ رائٹر، تُرک ڈرامے ’’میرا سلطان‘‘ کے مکالمے اُردو میں ترجمہ و تحریر کیے، حالیہ قیام کراچی میں۔ کہانیوں کو دل چسپ پیرائے میں پُرتاثر اور فکر افروز بنانے کے فن میں ماہر، نچلی سطح پر زندگی گزارنے والوں کے ترجمان۔ جنس، گھٹن، فرار، لاچاری، انسان کو درپیش آزمایشوں، مسائل، تفہیمِ ذات، تلاش اور دیگر نوع بہ نوع موضوعات پر کمال دسترس۔
’’ایک وڈیرے کی کہانی‘‘ فرار کی بِپتا ہے۔ ایک وڈیرا، اپنا گھر چھوڑ آیا تھا۔ محل چھوڑ کر کُٹیا میں عارضی بسرام کرنے والا دراصل سُکون کی تلاش میں نکلا تھا۔ اُس نے کُٹیا میں کیا پایا، یہ اُس قیام کی رُوداد ہے، جس میں ماضی کی بازگشت اور مستقبل کا عزم شامل ہے۔
اپنا قیمتی سوٹ کیس اٹھائے ہوئے، کچھ دیر تک ریل کی بوگی میں ہُمکتی بھیڑ سے جھوجھنے کے بعد، لٹکی ہوئی سیڑھیوں سے، پلیٹ فارم پر اُترنے کے جوکھم نے تو اُس بےچارے کی جان ہی نکال دی۔ نیچے اتر کر اپنے جسم کو سنبھالتے ہوئے، وہ پلیٹ فارم کے پختہ فرش پر چند قدم چلنے کے بعد ایک بہت اونچے آہنی شیڈ کے تھم کے ساتھ اپنی پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا اور اپنا سامان نیچے رکھ کر اپنی بوڑھی سانسیں مجتمع کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
سانسیں درست کرنے کے فوراً بعد، وہ اپنی ایک پرانی عادت دُہراتے ہوئے، جیب سے سگریٹ نکال کر اُسے دیا سلائی کی مدد سے سلگانے کے بعد، دھیرے دھیرے کش لیتے ہوئے، سامنے سے گزرتے لوگوں کو قدرے دل چسپی سے دیکھنے لگا۔ ہر کوئی اُسے نظرانداز کرتا اپنی ہی دھن میں، اپنی ہی رفتار سے اس کے نزدیک سے گزر رہا تھا۔
’’کیا مَیں نے اپنا ابانا علائقہ چھوڑ کر اس اجنبی بھیڑ کے درمیان آکر بالکل ٹھیک کیا؟ یا غلط کیا؟‘‘ اپنے سوال کا خُود ہی جواب دیتے ہوئے اس نے اپنا سراثبات میں ہلایا اور سگریٹ کا کش لے کر منہ سے دھواں نکالتے ہوئے اجنبیت کے خوف کو اپنے دل سے نکالنے کی کوشش کرنےلگا۔ کچھ ہی دیرمیں گزرتے لوگوں میں اُس کی دل چسپی ختم ہوگئی اور اجنبیت کا خوف بھی دل سے چھٹنے لگا۔ اور اس کی جگہ ایک لاتعلقی سی پیدا ہونے لگی۔
وہ اپنا سر اوپر اُٹھا کر آسمان کی جانب تکنے لگا کہ مبادا یہاں کا آسمان اس کے ابانے علاقے کے آسمان سے مختلف تو نہیں۔ مگر وہ نہیں تھا اور سورج بھی، جو ریلوے اسٹیشن کے آس پاس کی زمین پر، عمارتوں کے پیچھے کہیں ڈوب رہا تھا۔ مغربی افق پر شفق معدوم ہوتی جارہی تھی۔ پرندوں کی چھوٹی بڑی ڈاریں اپنی منزل کی جانب رواں تھیں۔ اُنہیں اپنے آشیانوں کی طرف جاتے دیکھ کر اُس کی آنکھیں اداسی اور رشک سے بھر گئیں۔
اُن میں ذرا سی نمی در آئی۔ اُس نے اپنا سر جُھکایا اور سفر کی گرد سے میلی پڑ چُکی قمیص کی آستین سے، اپنی آنکھوں سے سفر کی گرد صاف کرنے لگا۔ آج صبح اپنے سفر کا آغاز کرتے ہوئے اس کے ذہن میں اپنی آخری منزل کا بس ایک دھندلا سا خیال موجود تھا۔ اُس نے طے کیا تھا کہ باقی رہ جانے والے برس وہیں گزار کر، وہیں کہیں زمین میں دفن ہو کر، گل سڑ جائے گا، لیکن کبھی اپنے گوٹھ واپس نہیں جائے گا۔ شام کا آسمان دیکھنے کے بعد اُس کا دل بری طرح ڈوبنے لگا۔ وہ اِس اجنبی شہر میں خُود کو نڈھال اور بےبس محسوس کر نے لگا۔
وہ زندگی بھر ایسی درد ناک کیفیت سے کبھی دوچار نہیں ہوا تھا۔ اس نے شہر سے آگے اپنی منزل کا رُخ کرنے کے بجائے آج کی شب پکا قلعہ کے گردوپیش واقع کسی مسافر خانے میں قیام کا فیصلہ کیا اور سگریٹ پھینک کر اپنا سوٹ کیس اُٹھائے سیڑھیوں والے پُل کی جانب چلنے لگا۔ وہ پُل پر ریلوے اسٹیشن سے باہر جانے والے راستے کی جانب بڑھ رہا تھا کہ مخالف سمت سے آتا ہوا ایک دُبلا پتلا شخص، جو متواتر اپنی انگلیوں میں دبی ہوئی بیڑی کے کش لگا رہا تھا، پہلے تو اُسے دیکھ کر ٹھٹکا اور پھر فوراً اس سے دو قدم پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا۔
اُس نے اپنی بیڑی کا آخری کش لے کر اُسے جلدی سے فرش پرپھینک دیا۔ نہ جانے کیوں اُسے سوٹ کیس اٹھائے دیکھتے ہی اُس کی آنکھوں میں خوف کا گھنا سایہ لہرانے لگا۔ وڈیرے نے سوٹ کیس اٹھائے چھِچھلتی نظر سے اُسے دیکھا اور لاتعلقی سے اُس کے پاس سے گزرنے لگا تو وہ شخص، بالکل اچانک اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔
اب اس کی آنکھوں سے خوف کا سایہ چھٹ گیا تھا اور اس کی جگہ شناسائی کی گہری چمک نے لے لی تھی۔ وہ ایک اپنائیت کے ساتھ اُس کی طرف دیکھتے ہوئے مُسکرانے لگا تھا اور اعتماد کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا تھا۔ اس کی زیرِلب مسکراہٹ دھیرے دھیرے اس کی باچھوں تک پھیل کر ہنسی میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور وہ اس سے گلے ملنے کے لیے اپنے بازو پھیلائے اس کے نزدیک تر آگیا۔ ’’ارے وڈیرا! تم اور یہاں؟ میری اکھین کے سامنے؟
لال لطیف کی قسم، آج دھنی سائیں نے تمہیں میرے رُوبرو لا کر معجزہ دِکھا دیا۔ تم پہلے بھی میرے بھوتار تھے اور اب بھی ہو، اس لیے تمہیں مجھے بھولنے کا پورا پورا حق ہے، لیکن مَیں غریب، بھلا تمہیں کیسے بھول سکتا ہوں۔ میری دلِڑی جانتی ہے، تمہیں یاد کر کرکے وہ بےچاری یادوں کے تندور میں ٹانڈوں کی طرح کیسے جلتی سلگتی رہی ہے۔ اگر مَیں بھی تمہاری طرح تمہیں بھول جاتا، تو مولا سائیں میری جان نہیں نکال دیتا۔‘‘اس کی کھڑکھڑاتی آواز سن کر وڈیرے کی یادداشت کا دَر پوری طرح وا ہوگیا۔
اُسے اپنا پرانا گوٹھائی رنگو یاد آگیا، جس کے ماں باپ نے اس کا نام تو اورنگ زیب رکھا تھا، لیکن وہ گِھستا گِھساتا پہلے رنگ علی ہوا، بعد میں مستقل طور پر رنگو ہی پڑگیا۔ وہ رنگو کو اِس اجنبی شہر میں، اپنے قریب پا کر ششدر رہ گیا۔ گلے ملتے ہوئے اس کے ہونٹوں سے بس یہی نکل سکا۔ ’’ارے رنگو، کمینے…تم؟ اپنے باپ دادا کا گوٹھ چھوڑ کر تم غائب ہوگئے تھے اور مجھ سے کہہ رہے ہو، میں بھول گیا۔ مَیں نے تو سوچا تھا کہ اب تم سے دوزخ ہی میں ملاقات ہوگی۔‘‘
’’بھوتار! دنیا سے بڑا دوزخ اور کون سا ہے بابا؟ یہیں پر ہمارا دوبارہ ملنا لکھا ہوا تھا۔ وہ میرے باپ دادا کا گوٹھ نہیں تھا، میرے لیے تو وہ جنت تھا جنت۔ مَیں نے اُسے چھوڑ کر شوق سے شہر کا دوزخ مول نہیں لیا، سائیں۔ تم جانتے ہو، میری مجبوری تھی۔‘‘ وہ سیڑھیوں والے پُل سے گزرتے لوگوں سے ہٹ کر ایک جانب کھڑے ہوگئے۔ اُن کے چہرے اس غیرمتوقع ملاقات کی خوشی سے دمکنے لگے تھے۔
دو دہائیوں کے طویل عرصے بعد وہ ایک دوسرے کے مُکھ دیکھ رہے تھے، جنہیں گزرے وقت نے خاصا تبدیل کر دیا تھا۔ وڈیرے کا بدن خاصا بھاری بھرکم ہوچُکا تھا۔ زندگی بھر کی بےاعتدالیوں اور خورونوش کی بگڑی عادتوں کے سبب اس کی توند نکل آئی تھی۔ اُس کے خضاب لگے بال اس کے ڈیل ڈول کے ساتھ لگّا نہیں کھا رہے تھے۔ اس کے سامنے اس کا گوٹھائی رنگو، بالکل ہی بے رنگ دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے سارے بال سفید پڑ چُکے تھے۔ کثرت سے بِیڑی پینے کے سبب اس کے گال اندر دھنس چکے تھے اور ہونٹ گہرے سیاہ پڑ گئے تھے۔ اس کا بدن وڈیرے کی نسبت خاصانحیف، لیکن پھرتیلا دکھائی دے رہا تھا۔
وہ پُل پر کھڑے کھڑے اُس کے گھر والوں، رشتے داروں، دوستوں اور قصبے کے لوگوں کا حال احول پوچھنے لگا۔ اس نے مختصراً ’’سب خیر‘‘ کہہ کر اپنی جان چھڑوائی۔ پھر وہ یہاں آمد کا سبب معلوم کرنے لگا۔ وڈیرے نے اُسے ٹالتے ہوئے صرف اتنا کہا۔ ’’ضروری کام سے آیا ہوں۔‘‘ اس کے بعد اُس نے اجازت لیے بغیر ہی وڈیرے کا سوٹ کیس اُٹھا لیا اور اُس سے اپنے ساتھ چلنے پر اصرار کرنے لگا۔
اس کی مخلصانہ پیش کش سن کر وہ جزبز ہوتے ہوئے اُس کے ساتھ چلنے سے انکار کرتا رہا لیکن رنگو پر اُس کا بس نہ چل سکا۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ابانے دادانے علائقے کو ترک کر دینے کے بعد اس اجنبی شہر میں اُسے پرانا یار مل جائے گا۔ رکشا ایک مختصر سے غلیظ بازار میں تنگ سی گلی کے سامنے رُکا۔ وڈیرے نے اپنی جیب کی طرف ہاتھ بڑھایا تو رنگو نے اُسے کرایہ ادا کرنے سے روک دیا۔ اس نے خُود جلدی جلدی چند مڑے تُڑے نوٹ رکشے والے کو تھما کر اُسے چلتا کیا۔
اس کے بعد وہ سوٹ کیس اُٹھائے گلی میں آگے آگے چلتے ہوئے اپنے اہلِ محلہ اور میونسپلٹی کے اہل کاروں کی شان میں گالیاں بکنے لگا، جن کی کاہلی اور ہڈ حرامی کی وجہ سے یہ جگہ بہت بدنُما اور بدبو دار ہوگئی تھی۔ اس علاقے کی کچی اور کڈھب سی گلیاں دیکھ کر وڈیرے کے نازک دل کو ٹھیس سی لگی تھی اور اس نے اپنا سر نیہوڑا کر اس کے پیچھے چلتے ہوئے اس کا اظہار بھی کیا تھا اور دبا دبا سا احتجاج بھی، لیکن اب یہ سب بےسود تھا۔ اسے آج کی شب یہیں گزارنی ہوگی۔
ایک مکان کے آگے رنگو کو رُکتا دیکھ کر وہ بھی ٹھہر گیا۔ اُسے گلی میں دو منٹ ٹھہرنے کا کہہ کر وہ خُود مکان کے زنگ خوردہ دروازے سے اندر چلا گیا۔ وہ وہاں نیم تاریکی میں کھڑا گلی کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے مکانوں کی قطار دیکھنے لگا۔ جو سب کے سب انہدام کے خوف سے ایک دوسرے کے سہارے ٹکے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے سوچنے لگا کہ لوگ ان میں کیسے رہتے ہوں گے؟
کیسے جیتے اور مرتے ہوں گے؟ اُسے قصبے میں واقع اپنی خاندانی ماڑی یاد آنے لگی، جس کا ایک کمرا اِس گلی کے ایک مکان سے زیادہ کشادہ تھا۔ اُس کے سینے سے ایک آہ سی نکلی۔ کچھ ہی دیر میں اُس کا گوٹھائی دانت نکالتا ہوا دروازے سے برآمد ہوا اور اُسے اندر چلنے کو کہا۔ اُسے قدم بڑھانے میں تامل ہو رہا تھا۔ اُس کے یار نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ’’بھوتار! میرا غریب خانہ تمہارے لائق تو نہیں، مگر جیسا بھی ہے، حاضر ہے۔ اندر ہَلو سائیں۔‘‘
اُس نے ادھ کُھلے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ ’’بیلی! شرم سار نہ کر۔‘‘ وہ دروازے کی چوکھٹ سے اپنا سر جُھکائے آگے بڑھا۔ وہ گھر کے مختصر سے صحن میں داخل ہوا، جس میں بمشکل دو چارپائیاں سما سکتی تھیں۔ دائیں طرف بیت الخلا اورغسل خانہ ساتھ ساتھ بنے ہوئے تھے۔ ان کے مخالف تھوڑی سی جگہ پر کُھلا باورچی خانہ واقع تھا۔ وہ جیسے ہی آگے بڑھا، اُس کا سر، کپڑے سُکھانے والی تاروں سے ٹکرانے لگا۔
تاروں سے بچنے کی خاطر اُس نے اپنا سر جُھکایا، تو باورچی خانے کے چولھے کے پاس چوکی پر سمٹ کر بیٹھی رنگ علی کی بیوی، دوپٹے میں اپنا چہرہ چُھپاتی، اُس کے استقبال کے لیے، غیرمتوقع طور پر اُٹھ کر کھڑی ہوئی۔ ’’ادا، بھلی کرے آیا…‘‘یہ کہہ کر اُس نے اپنا روکھا سوکھا سا ہاتھ مصافحے کے لیے آگے بڑھا دیا۔ اُس نے بھی ذرا سا جھجکتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ ’’مھربانی اَدی۔‘‘ اِس دوران اُسے خیال آیا کہ یہی وہ عورت ہے، جس کی خاطر اُس کا یار اپنی جنت چھوڑ کر نئی زندگی کی تلاش میں اس دوزخ میں چلا آیا تھا۔
رنگو نے آگے بڑھ کر اپنی بیوی کا تعارف اپنے دوست سے کروایا۔ ’’وڈیرا! یہ میری ذال ہے، سُکھاں۔‘‘ اُسے دو دہائیاں قبل اُن کے غائب ہونے کے بعد قصبے میں پیش آنے والے واقعات یاد آئے تو وہ زیرِلب مُسکراتا اپنے یار کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ کمرے میں جس چارپائی پر نئی نکور رلی بچھی ہوئی تھی اور سرہانے پر مقامی کشیدہ کاری والا تکیہ رکھا ہوا تھا، اُس پر بیٹھتے ہی اُس نے اپنی سینڈل اتاری اور پائوں اوپر کرکے تکیے کے سہارے نیم دراز ہوگیا۔
ٹرین میں کئی گھنٹوں تک سینڈل پہن کر بیٹھے رہنے کی وجہ سے اُس کے پاؤں سُوج گئے تھے اور اُن میں ہلکا ہلکا درد ہورہا تھا۔ رنگو نے اسٹیل کے گلاس میں برف والا ٹھنڈا پانی پیش کیا تو پہلا گھونٹ لیتے ہی اُس کا منہ کھارے پن سے بھر گیا، مگر اُس نے اُسے احساس نہیں ہونے دیا۔ اُسے بےاختیار قصبے کی واٹر سپلائی کا میٹھا اور ٹھنڈا پانی یاد آگیا، اب وہ جس کا ذائقہ اپنی زبان پر محسوس کرنے کے لیے عُمر بھر ترستا رہے گا۔ وہ اُسے یاد کر کے بےاختیار اپنے دوست سے پوچھنے لگا۔ ’’رنگو! کیا تجھے اپنی واٹر سپلائی کا پانی یاد ہے؟‘‘ اُس کی بات سن کررنگو نے ایک ٹھنڈی آہ بَھری۔ ’’اُس پانی کی کیا ہی بات تھی وڈیرا۔ میرے لیے تو وہ زم زم کے موافق تھا۔ کاش! تم اُس کی ایک بوتل ہی بھرلاتا، تو مَیں اُسے اپنی آنکھوں پر لگاتا۔
ویسا پانی تو اب شاید جنت ہی میں ملے گا، ہاں۔ اچھا بھوتار! بتاؤ کہ اپنے بازارمیں وادھومل منیاری کی دُکان کے آگے ہینڈ پمپ ابھی تک لگا ہوا ہے کہ نہیں؟‘‘ ’’بروبر لگا ہوا ہے، رنگو۔ مجھے یہ بتا کہ پُل پر جب تو نے مجھے پہلی باردیکھا، تو خوف سے پیچھے کیوں ہٹ گیا تھا؟‘‘ اُس کی یہ بات سُن کر وہ اپنےپیلے دانتوں کی نمائش کرنے لگا۔ ’’بھوتار! مَیں خوف سے پیچھے کیوں ہٹا تھا، یہ تم اچھی طرح جانتے ہو۔‘‘ ’’مجھے تجھ سے یہ اُمید نہیں تھی۔ مَیں تیرا پرانا سنگی ہوں چریا۔ مَیں بھلا ویسا سوچ بھی کیسے سکتا ہوں۔ (جاری ہے)