صوبہ خیبر پختونخوا جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا اہم ترین صوبہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے۔جغرافیائی لحاظ سے اس کی اہمیت کا اندازہ اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تقریبا ہزار کلومیٹر طویل سرحد صوبہ خیبر پختون خواہ کے علاقوں میں واقع ہے۔یہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میںصرف 2024 کے دوران ہی1363 لوگ شہید ہوئے جبکہ2022 میں 527 لوگ شہید ہوئے،2025میں بھی دہشت گردوں کی کارروائیوں کا سلسلہ رکا نہیں۔1979 ءکی افغان جنگ سے لے کر آج تک صوبہ خیبر پختون خوا مختلف مسائل سے دوچار رہا ہے لیکن نائن الیون کے بعد جو بد امنی اور تباہی اس صوبے کا مقدر ٹھہری ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔اس کے باوجود خیبر پختون خوا کی سیکورٹی فورسز نے کم وسائل کے باوجود نہ صرف دہشت گردوں کا مقابلہ کیا بلکہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہوئے مسلح افواج کی مدد سے ان کا قلع قمع کیا۔خیبرپختونخوا کی سیاست ہمیشہ سے پاکستان کی قومی و علاقائی پالیسیوں کا محور رہی ہے۔ یہ صوبہ دہشت گردی کیخلاف جنگ، قبائلی انضمام، اور قومی سلامتی کے تناظر میں بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے میں وزیرِاعلیٰ کی تبدیلی محض صوبائی سیاست کا واقعہ نہیں بلکہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو پاک افغان تعلقات، داخلی امن، اور عمران خان کی سیاسی حکمتِ عملی پر دور رس اثرات مرتب کرسکتا ہے۔علی امین گنڈاپور نے اپنے طرز سیاست سے پارٹی کو صوبے میں متحرک رکھا لیکن شاید وہ عمران خان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے البتہ انہوں نے ایک مضبوط اور باوقار سیاسی شخصیت کی طرح عمران خان کے فیصلے کو قبول کیا اور سہیل خان آفریدی کے لیے جگہ خالی کر دی۔ وزارت اعلیٰ کی تبدیلی نے اس تاثر کو پختہ کیا ہے کہ عمران خان کی پارٹی پر گرفت مضبوط ہے ان کا کوئی ایک ممبر بھی توڑا نہیں جا سکا اور اپوزیشن کو رخنہ ڈالنے کا موقع ہی نہیں ملا۔پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر ایک سیاسی جماعت کا اس طرح مضبوط رہنا ملک کے سیاسی عمل کے لیے ایک خوش آئند امر ہے۔موجودہ صورتحال میں خیبر پختون خواگورننس کے جن مسائل سے دوچار ہے وہاں ایک نوجوان وزیراعلیٰ کس طرح عوامی توقعات پر پورا اترے گا ۔حکومتی نظم میں اپنے آپ کو یہ کس طرح ایڈجسٹ کریں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔تاہم نئے وزیراعلیٰ کو اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ پارٹی چلانا اور حکومتی نظم و نسق چلانا یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔سیاست میں جس جوش ولولے اور شعلہ بیانی کی ضرورت ہوتی ہے حکومتی نظم ونسق چلانے میں اتنی ہی بردباری تحمل اور غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے۔عوام کو محض تقریروں پر زیادہ دیر خوش نہیں رکھا جا سکتا بلکہ حکومتی کارکردگی سے ہی عوام،پارٹی سے مطمئن ہو سکتے ہیں۔انکی کارکردگی کا مقابلہ صوبہ پنجاب سے کیا جائے گا جہاں محترمہ مریم نواز سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی کارکردگی سے اپنے ووٹرز کو متاثر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں تاہم جملہ معترضہ کے طور پر یہ کہنا بھی مناسب ہے کہ گزشتہ دنوں تحریک لبیک کے کارکنوں کے ساتھ مرید کے میں جو ہوا وہ طویل عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔اس وقت کے صوبائی وزیر قانون کے حکم پر ان لوگوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا گیا وہ مسلم لیگ ن کو سیاسی طورپر بھگتنا پڑے گا۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کی بازگشت آج بھی اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا پیچھا کرتی ہے اسی طرح سانحہ مرید کے بھی وزیر قانون کے ضمیر پر کچوکے لگاتا رہے گااور آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو اسکی قیمت چکانی پڑے گی۔یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اصل موضوع یہی ہے کہ کیا نئے وزیراعلیٰ کے آنے سے خیبر پختون خواکے عوام کی قسمت بدلے گی یا نہیں۔میں اس نوجوان وزیراعلیٰ سے یہ کہنا چاہوں گا کہ صوبہ چلانے کے لیے عمران خان سے ملاقات کرنا ضروری نہیں بلکہ دستیاب حالات میں اپنی فہم و فراست کے مطابق انہیں صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے موثر اقدامات کرنا ہوں گے ۔وہ اپنی افتتاحی تقریر میں کہہ چکے ہیں ان کا مقصد عمران خان کو رہائی دلانا ہے تو یہ رہائی اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے کہ جب عوام ان کی کارکردگی سے متاثر ہو کر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور ان کا بیانیہ عوام میں مقبول ہو۔پاکستان تحریک انصاف اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے اب جناب عمران خان کو بھی سیاسی فیصلے کرنے کے لیے اپنی پارٹی کو وکلا کے چنگل سے آزاد کرانا ہوگا۔ وکلاء کی قیادت نے پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی طور پر کمزور کیا ہے قائدین اور کارکنوں کے مابین رابطوں کا فقدان ہے اور یہ کوئی بھی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکے۔عمران خان اتنے عرصہ سے جیل میں بند ہیں اور کمرہ عدالت میں ان کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک وہ عمران خان کو کوئی بھی بڑا ریلیف دلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔اس نازک موقع پر سیاسی فیصلے کرنے کے لیے عمران خان کو اپنی پارٹی میں موجود سیاسی شخصیات کو جگہ دینی ہوگی اور انہیں سامنے لانا ہوگا تاکہ عوام اور تحریک انصاف کے مابین فاصلے کم ہوں اور ملک میں سیاسی عمل آگے بڑھ سکے۔خیبرپختونخوا میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی بظاہر انتظامی معاملہ ہے مگر اس کے گہرے سیاسی اور علاقائی اثرات نمایاں ہوں گے۔اگر نیا وزیر اعلیٰ وفاق کے ساتھ ہم قدم رہا تو صوبے میں امن و ترقی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے، بصورت دیگر بداعتمادی بڑھے گی۔ عمران خان کے لیے یہ تبدیلی دو دھاری تلوار ہے۔ اگر کارکردگی بہتر ہوئی تو اسے سیاسی تقویت ملے گی، لیکن ناکامی کی صورت میں پارٹی کی گرفت مزید کمزور ہوسکتی ہے۔