• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عینا اور وکٹوریا دو خوبرو نوجوان چینی لڑکیاں بیک وقت ہماری میزبان اور مہمان دار ہیں، ہماری گائیڈ اور استاد بھی۔ وہ ہمارے کھانے پینے ، رہنے سہنے، ہمیں نارمل یونیورسٹی جینہوا لانے لے جانے کا انتظام بھی کرتی ہیں۔ وہ یہ سب کچھ اپنے ملک چین سے پاکستان کے ساتھ گہری محبت میں کررہی ہیں عینا اور وکٹوریا کلا س روم میں چینی اساتذہ ، میڈیا ماہرین کے چینی زبان میں لیکچرز کو انگریزی میں ترجمہ کرکے ہم جیسے ”شرارتی بچوں“ کو روزانہ سبق یاد رکھنے کی عادت ڈالنے کی جان توڑ کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ہم بھی بچپن کی شرارتوں کو بڑھاپے میں دہرا رہے ہیں۔ خصوصاً عینا کو توہر کوئی نت نئی آزمائش میں ڈال دیتا ہے۔ ہم ایسے بگڑے بچے ہیں کہ چاہے اپنے ملک میں انٹرنیٹ چلے یا نہ چلے مگر چین کے ہوٹل میں وائی فائی کی رفتار تھوڑی سی بھی کم ہو جائے یا کسی تکنیکی مسئلے کی وجہ سے کوئی رکاوٹ آجائے تو شور مچا دیتے ہیں،اسلام آباد سے چاروں صوبوں کی دو خواتین سمیت 17 صحافیوں کا ایک گروپ چینی وزارت کامرس کی دعوت پرچینی قونصلیٹ جنرل کراچی کے تعاون سے 21روزہ تربیتی و مطالعاتی دورے پرکراچی سے بذریعہ بینکاک30 گھنٹے کے طویل سفر کے بعد13 اکتوبر کی رات تقریباً دو بجے اس ہدایت کہ ”علم حاصل کرو ، چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے“ کو سچ ثابت کرنے چین کے صوبے جی جیانگ کے شہر جینہوا پہنچا ہے۔ جہاں ہمیں نارمل یونیورسٹی آف جینہوا جو چین کی عظیم ترین تعلیمی درس گاہوں میں سے ایک ہے میں پاکستان میڈیا ٹریننگ کورس میں سینئر چینی پروفیسرز،لیکچرار، چین کی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی پیشہ ورانہ مہارت، عملی تجربات، میڈیا کے ذریعے قومی تشخص اُجاگر کرنے بارے آگاہی دی جا رہی ہے۔ ہمارے لئے یونیورسٹی کے School of Design and Creativity کے کانفرنس روم کو خصوصی طور پر کلاس روم بنایا گیا ہے۔ نارمل یونیورسٹی 1956ءمیں قائم کی گئی۔ اس میں 65 بیچلر پروگرامز، 151 ماسٹر پروگرامز،20 پی ایچ ڈی پروگرامز ہیں۔جینہوا نارمل یونیورسٹی چینی حکومت کے پیش کردہ انٹرنیشنل سکالر شپس بھی پیش کرتی ہے جن سے بین الاقوامی طلبہ استفادہ کرتے ہیں ، ان سکالر شپس کے تحت طلبہ کوٹیوشن فیس، رہائش، میڈیکل انشورنس کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔ جینہوا نارمل یونیورسٹی کا کیمپس ایک چھوٹے شہر کی مانند انتہائی وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے،اِردگرد پہاڑ، پھولوں کے باغات، سرسبزو شاداب راہداریاں، صاف ستھری سڑکیں، طلبہ کیلئے کیفے ٹیریاز، صاف ستھرے ڈائننگ ہالز اور ان میں انواع اقسام کے کھانے دستیاب ہیں۔ جنیہوا نارمل یونیورسٹی لائبریری میں تقریباً 30 لاکھ سے زائد کتب موجود ہیں۔ یونیورسٹی نے چین کے بین الاقوامی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں اہم کردارادا کیا ہے۔92 سے زائد یونیورسٹیوں اور ریسرچ کے اداروں کے ساتھ یونیورسٹی کا اشتراک ہے۔ خوش قسمتی سے ہمیں اس شاندار تاریخی یونیورسٹی میں پاکستان میڈیا ٹریننگ کورس کے تحت چینی میڈیا انڈسٹری، فن و ثقافت میں ترقی کے نئے رجحانات بارے آگاہی دی جارہی ہے۔ آج ہمارا یہاں پانچواں تعلیمی د ن گزرا ہے۔ اس دوران سینئر ترین شخصیات کے عملی تجربات ، کامیابیوں بارے مکمل آگاہی دی جارہی ہے۔ ہمیں خاص طور پر یہ سبق پڑھایا گیا ہے کہ میڈیا قومی تعمیر و ترقی،قومی تشخص، معاشرتی روایات اور اخلاقیات کو سدھارنے میں کس طرح اپنا کردار ادا کرسکتا ہے اور یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ میڈیا اپنے ملکوں میں ”نرم انقلاب“ کیسے لاسکتا ہے۔ کوئی اس سبق سے سیکھنا ، سمجھنا یا عقل سے کام لینا چاہے تو چینی صدر شی جن پنگ کی سوچ، نظریئے، حکمت عملی کو دل سے اپنائے یہی پہلا سبق ہے اسی سبق سے صدر شی جن پنگ نے دنیا کو اپنے سحر میں لے رکھا ہے۔ بقول صدر شی صرف ایک پھول سے کبھی بہار نہیں آتی، جتنے زیادہ پھول کھلیں گے اتنی ہی جلدی خزاں ختم ہو کر بہار لائے گی۔ صدر شی چاہتے ہیں کہ چین نے جو معاشی، سائنسی ، ٹیکنالوجی، تعلیم و صحت کے میدانوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں دنیا اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے، خصوصاً پاکستان ان کامیابیوں میں برابر کا شراکت دار ہو۔چینی قیادت اپنے ملک کا مثبت چہرہ دنیا کو دکھا رہی ہے۔ آج اس قیادت نے اپنی تاریخی ترقی کے دروازے ہر ایک کیلئے کھول دیئے ہیں جو ملک اپنے عوام کی ترقی چاہتا ہے وہ قدم بڑھائے اور اس دروازے سے داخل ہو کر اپنے اپنے ملکوں کی ترقی کے بند دروازے کھول سکتا ہے۔ ہمیں تربیتی کورس کے دوران چین کی تاریخی، ثقافتی و سماجی ترقی، بچوں، بزرگوں، خواتین، نوجوانوں کوحاصل حقوق، انہیں حکومت کی طرف سے میسر سہولتوں، انتظامی و حکومتی ڈھانچے بارے آگاہی دی جارہی ہے۔اس نقطے پر خاص طور پر زور دیا جاتا ہے کہ جو لوگ اپنی ثقافتی میراث کی حفاظت کرتے ہیںاور جن قوموں میں اتحاد، تنظیم، ایمان، یقین محکم کی طاقت ہوتی ہے وہ قومیں ایک نظریئے اور سوچ پر تسلسل کے ساتھ قائم رہتے ہوئے اپنی منزل حاصل کرلیتی ہیں۔ یقینا ًیہ اصول تو ہمارے قائد محمد علی جناحؒ نے بھی ہمیں سمجھائے تھے لیکن چین نے یہ اصول اپنا کردنیا فتح کرلی۔ آج ہمارا عظیم دوست ملک چین ہمیں ہمارے ہی قائد کے اصول یاد کرا رہا ہے۔ ہمارا کلاس روم روزانہ صبح 9بجے کھلتا ہے، ہمارے اساتذہ ہم سے بھی پہلے اپنی نشستوں پرتشریف فرما ہوتے ہیں۔ عینا ہمیں ہر روز صبح و شام یاد کرواتی ہے کہ ٹھیک 8:40 منٹ پر ہوٹل کی لابی میں سب موجود ہوں ورنہ بس نکل جائیگی مگر کوئی نہ کوئی ہمیں ہرروز وقت کی پابندی نہ کرکے عینا کے سامنے شرمندہ کروا دیتا ہے اور عینا بس میں کھڑی فون پر فون کرتی جاتی ہے اور اردو میںشور مچاتی ہے چلو چلو جلدی کرو۔ پھر بھی ایک آدھ ”شرارتی بچہ“ عین موقع پر بس مس کر جاتا ہے۔ پھر عینا اسے تلاش کرنے کیلئے بس سے اتر جاتی ہے اور اس شرارتی بچے کو اپنی جیب سے ٹیکسی کا کرایہ ادا کرکے کلاس روم تک پہنچاتی ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین