پاکستان پر ایک طرف پڑوسی ملک افغانستان ’’دانہ پانی‘‘ بند ہونے پر حملہ آور ہے تو دوسری طرف دشمن پڑوسی بھارت بھی ایک بار پھر حملہ آور ہونے کیلئے پر تول رہا ہے۔ افغان حکومت کو کئی غلط فہمیاں ہیں اور کچھ اس کے مربی و غم گسار بھارت نے بھی پیدا کر رکھی ہیں، دونوں نے مل کر ایک اتحاد بنالیا ہے۔ افغان قائد کا بھارتی سر زمین پر جو استقبال ہوا اور جو گاڑھی چھنتی نظر آئی، اس کے بعد اس کو ایک بار پھر گریٹر افغانستان کے خواب تواتر کے ساتھ آنا شروع ہوگئے ہیں جن کی جلد تکمیل کیلئے اس نے حملے شروع کردیئے۔ اگرچہ سیز فائر ہوچکا ہے لیکن شاید اس کی سیاہی جلد خشک ہو جائے کیونکہ افغانستان کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں لانگ کورس، ٹیکنیکل کورس، لیڈی کیڈٹ کورس اور اینٹی گریٹڈ کورس مکمل کرنے والوں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان نے معرکہ حق میں اپنی عسکری اور دفاعی صلاحیت کا لوہا منوایا اور اگر بھارت کی جانب سے دوبارہ جارحیت کی کوشش کی گئی تو پاکستان دشمن کی توقعات سے کہیں زیادہ سخت جواب دے گا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اگر سن انیس سو اسی کی دہائی میں پاکستان کی فوج، آئی ایس آئی اور عوام قربانیاں نہ دیتے تو آج افغانستان نام کا ملک ہی باقی نہ رہتا۔ افغان قیادت کا آج یہ کہنا کہ ’’ہمیں چھیڑنے سے پہلے امریکا، نیٹو اور سوویت یونین سے پوچھ لو‘‘ دراصل یہ سب کہنا تاریخی احسان فراموشی ہے۔ پاکستان نے چالیس سال تک افغان جنگ کی قیمت اپنے خون، اپنی معیشت اور اپنی سیکورٹی سے ادا کی۔ لاکھوں پاکستانی شہید، زخمی یا بے گھر ہوئے مگر افغانستان کیلئے اپنے دروازے بند نہیں کیے۔ اب جب دہشت گرد گروہ افغان سر زمین سے پاکستان کے اندر کارروائیاں کر رہے ہیں تو پاکستان کے پاس اپنے دفاع کا حق موجود ہے۔ اگر افغان حکومت اپنے وعدوں کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی تو پاکستان خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا۔
یہ وقت جذباتی بیانات کا نہیں، ذمہ داری لینے کا ہے۔ پاکستان کا مؤقف واضح ہے، افغان سر زمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اگر کابل اپنی سر زمین پر قابو نہیں رکھ سکتا تو کم از کم دوسروں کو نصیحت کرنے سے گریز کرے۔ طورخم سرحد پر دس ہزار سیب کے کنٹینر کھڑے ہیں اور لاتعداد افغانی دونوں اطراف بیٹھے ہیں۔ بڑی تعداد میں مریض پشاور اور پاکستان کے دیگر شہروں میں علاج کیلئے بیٹھے،حالیہ افغان حملوں کے بعد تکلیف کی صورت میں نتائج بھگت رہے ہیں۔ ایسے حالات تمام پاک افغان سرحدی داخلی راستوں پر ہیں۔ کوئی دو رائے نہیں کہ افواجِ پاکستان نے اپنے عزم سے دشمن کو شکست دے کر قوم کا اعتماد مزید مستحکم کیا ہے اور پاکستان کی مسلح افواج نے قوم کی حمایت کے ساتھ سرحدوں کا دفاع کیا ہے اور ہمیشہ کرنے کو تیار کھڑی ہیں۔آپریشن بنیان مرصوص سے قوم کا پاک فوج پر اعتماد مزید مضبوط ہوا، آپریشن بنیان مرصوص میں قوم اپنی مسلح افواج کے ساتھ فولادی دیوار کی طرح کھڑی تھی۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ’’افغانستان کے لوگوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ دائمی تشدد کے بجائے باہمی سلامتی کا انتخاب کریں۔‘‘
افغانستان کے ساتھ پاکستان کی طویل ترین سرحد ملتی ہے جسکے ساتھ پاکستان نے باڑ لگانے کا فیصلہ کیا تو اس باڑ کو کئی بار تباہ کیا گیا۔ افغان مہاجرین کا ایک الگ مسئلہ ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے اس قدر بڑی تعداد میں اور چالیس سال تک مہاجرین کی میزبانی نہیں کی۔ پڑوسی ملک ایران نے اپنے ملک کو ان مہاجرین سے خالی کروا لیا ہے، اب پاکستان کو ایسا کرنا چاہیے۔ اگر آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر چاہیں تو کچھ عرصہ میں ملک کے طول وعرض سے لاکھوں افغان مہاجرین کو ان کے ملک کی سرحد پر بھیجا جاسکتا ہے اگرہم حکومت کے آسرے پر رہے تو شاید اگلے بیس سال میں بھی ان مہاجرین کو ان کے ملک واپس نہ بھیجا جاسکے گا کیونکہ فوج فوری کارروائی کرتی ہے اور حکومت سست روی پر مبنی مصنوبے بناتی ہے جسکے پچاس سال سے نتائج قوم بھگت رہی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان کی جارحیت کو روکنے کیلئے اس کی شہ رگ کا کنٹرول حاصل کرے جس سے یہ مسائل ہمیشہ کیلئے حل ہوسکتے ہیں ،یہ واخان کی پٹی ہے۔
اس پٹی کی لمبائی مشرق سے مغرب تک تین سو دس کلومیٹر اور چوڑائی پندرہ کلومیٹر ہے، مشرق کی طرف کوہ بابا تنگی کے دامن میں چوڑائی سکڑ کے دس کلومیٹر رہ جاتی ہے، یہی علاقہ ہے جو سوختہ، رباط اور سوماتاش کے راستے چینی صوبہ سنکیانگ سے مل جاتا ہے، سرحدِ واخان کا یہ حصہ پامیر میں افغان کرغیز علاقے سے متصل ہے۔ زمانہ قدیم میں ان ملکوں کی سرحدوں پر آباد قبائل اس راہ داری کو ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کیلئے استعمال کرتے تھے۔ پاکستان کو ملانے والا دروازہ پاس افغانستان میں سویت یونین کی مداخلت کے بعد تجارت کیلئے بند ہوگیا تھا لیکن چہ پرسان اور واخان کے درمیان تعلق برقرار رہا اور اس کی وجہ ارشاد پاس جیسے چند قدیم راستے ہیں جن پر لوگ سفر کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ ان لوگوںپر ایک سے دوسرے ملک میں جانے پر کوئی سرحدی پابندیاں نہیں ہیں۔ فیلڈ مارشل نے درست آگاہ کیا کہ ’’پاکستان کے خلاف جارحیت میں ناکامی کے بعد بھارت ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کو ترجیحی پالیسی کے طور پر جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘
سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے دشمن ممالک نے ہمیں اندرونی طور پر الجھانا اور کمزور کرنا بھی شروع کردیا ہے، ایسے مشکل وقت میں ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھ کر اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے تاکہ دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔