دن تھا 14؍اگست2021 ، میں کوئی دستاویز فائل دیکھ رہی تھی کہ ایک دم اسکرین پرمنظر بدل گیا۔شاہی محل میں ہر طرف جنگجو پیادے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر قالینوں کو دیکھ رہے تھے۔ سامنے تالاب دیکھا تواس میں ڈبکیاں لگانے لگے ۔دیوانہ وار قہقہے لگاتے ہوئے ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے ہوئے کہہ رہے تھے ’’یہ ہم نے بیس برس غاروں اور پہاڑوں میں رستے بناتے ، بچوں سے خود کش حملے کرواتے کیوں ضائع کئے ؟یہ حوالہ ہے 14اگست 2021 کا ،جو کچھ اوپر لکھا وہ نظم کا حصہ ہے جو اسی وقت میں نے لکھنا شروع کردی تھی۔ آنکھ اٹھا کر دیکھا تو اسکرین پر افغانی سپاہی جنگجو لوگوں کے ہاتھ چوم رہے تھے مگر سچے پرانے افغانی انہیں نفرت سے دیکھ رہے تھے۔
ان حالات کو گزرے پانچواں سال لگ گیا انہوں نے جو کچھ مراکزمیں پڑھا تھا اور استادوں سے دہشت گردی کے گر سیکھے تھے وہ قتل عام کرتے کابل پہنچ گئے تھے۔ حامد کرزئی حکومت کررہے تھے جب ان منظروں کا سنا تو انہوں نے اشرف غنی سے کہا مزاحمت کی کوئی ضرورت نہیں،کابل میں اسی وقت جنرل فیض حمید کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھے یہ منظر دیکھ کر مطمئن لگے کہ جو سوچا تھا کابل میں نئی حکومت بن رہی ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد فیض حمید خود ہی بتا رہے تھے کہ قطر کے فائیواسٹارہوٹلوں میں سب کچھ طے ہوچکا ہے ۔ اور اب دیکھیں کوئی سال کا بجٹ نہیں ،کوئی قانون نہیں ،کوئی باضابطہ آئین نہیںلیکن حکومت خود کو اب تک غیور ہی کہہ رہی ہے ۔ ہر چند کہ چین کے ساتھ روابط اور اب ہندوستان سے دوستی کی حد یہ ہے کہ انڈیا اپنا سفارت خانہ کھول رہا ہے۔ خاص کرم ہے خواتین پر کہ انڈیا کے دورے میں بھی خواتین صحافیوں پر معترض ہوئے اور اگلے روز صرف غیر ملکی خواتین صحافیوں کو سیشن میں آنے کی اجازت دی گئی۔ چار سال میں منشیات فروخت کرنے کے علاوہ امریکی جو ہتھیار (بھاری مقدارمیں) چھوڑکرگئے تھے اس سے کام لیا اور طالبان پھر پاکستان میں حملے کرنے کیلئے نوجوانوں کو تربیت دے کر خود کش بنا رہے ہیں۔ پاکستان پر حملے معذرت ،معذرت پھر حملے او ر حملے میں کوئی نئی بات نہیں بتائی ۔لاکھوں افغان پاکستان میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا کرپورے ملک میں کاروبار کررہے ہیں اور ہر سیکٹرمیں افغانی پلاؤکے ریسٹورنٹ پھیلے ہوئے ہیں ۔ساری دنیا میں بھی پاکستانی بن کراپنے کھوکھے چلارہے ہیں۔
اب حکومت پختونخوا اور عبوری حکومت کے درمیان رسہ کشی ایسے مقام پر ہے کہ ہر طرف میں نہ مانوں والے نعرے ہیں ٹرمپ صاحب سے ابھی غزہ کا مسئلہ بھی نہیں سنبھالا جارہا، ویسے بھی لوکل سطح پر بھی بے چینی ہے اورایک طرف پاکستان کی معدنیات پر پورا قبضہ وفاقی حکومت چاہتی ہے ۔ اس صورتحال میں بلوچی بھی ریکوڈک سے عاجز آئے ہوئے ہیں ۔ لگتا ہے جیسے پہلے کچھ معدنیات پر قبضہ ریکوڈک کو دیا گیا وہی قابض ہوں گے،یااندر خانے ہماری حکومت سب کچھ اپنے پاس رکھے گی۔ آبادی اور غربت پاکستان اور افغانستان میں بڑھتی رہے گی ۔ یہ وہی افغانستان ہے جہاں پر ایک پرچی لے کر جاتے تھے فلمیں دیکھتے اورموسیقی ، ادبی تقاریب کرتے تھے ، اس ماحول کو واپس کیسے لایا جائے جب کہ ہم ان سے دوستی نہیں سعودیوں سے دوستی کے لئے قدم بڑھا رہے ہیں ۔ اپنے ملک میں سو بری باتوں کو چھوڑیئے ۔ ایک خاتون کی کہانی سنئے ، وہ زچگی کے دوران چھٹیاں مانگتی رہی اوران کے افسر خاص نے اس پر اتنے الزامات لگائے کہ اس نے تنگ آکر ملکی ادارے میںہراسانی کی رپورٹ داخل کی ۔ سربراہ ہیں فوزیہ وقار ،کمال محنت اور تفصیل چھوڑیئے کہ اس خاتون نے نہ صرف شکایت کنندہ خاتون کو نوکری واپس دلوائی ، سارے جھوٹے الزامات عدالتی کارروائی کے ذریعے رد کئے ۔ فوزیہ وقار ہماری دوست ہے اور اس پر فخر ہے کہ ایسے مشکل اور بے اعتبار شخص کو سزا دلوائی اور خاتون کو نوکری پر بحال کرنے کے علاوہ اس ہتک کے باعث اس افسر پر جرمانہ بھی عائد کیا۔ایسی ہی ایک مثال محمود خان اچکزئی کی بیٹی تاتیرہ اچکزئی کی ہے جس نے ایک جگہ تقریر میںکہا کہ لاہور نے پشتون وطن پر قبضے میں انگریز کا ساتھ دیا تھا۔ بات توسچ ہے کہ انگریزوں نے سو سالہ حکومت میں اپنے رنگروٹ پیدا کئے کہ آج تک وہ اپنی جاگیریں نسل در نسل سنبھالے ، عیش کررہے ہیں ۔ہمارے ملک میں چاہے وہ ڈاکٹر مبارک ہوں کہ دوسرے دانشور، ہماری پرانی خرابیاں بتاتے ہیں تو ہم سیخ پا کیوں ہوجاتے ہیں مگر اب ذرا شکر ہے حکومت کو دوسرے مذہبوں کے مذہبی دن یاد آنے لگے ہیں ۔ سب صوبوں نے دیوالی منائی ۔اچھا قدم ہے مودی کیلئے کہ وہ تو سجدہ کرتےشخص پر غلاظت پھنکوادیتا ہے ۔ بہت فساد ہوچکا ہے اب امن لاؤ۔