• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے ایک روز انٹرنیٹ پر ایک اخبار کھولا۔وہ اخبار ایک نام سے اردو میں اور مختلف نام سے انگریزی میں نکلتا ہے۔ میرے سامنے جو صفحہ کھلا اس کا دایاں حصہ اردو میں اور بایاں حصہ انگریزی میں تھا۔ دونوں میں سب سے اوپر ان کی شہ سرخیاں تھیں۔ اردو حصے کی سب سے بڑی خبر یہ تھی۔’’دشمن نفاق اور انتشار پھیلانے میں سرگرم ہے۔ صدر ممنون حسین‘‘اور اس ادارے کے انگریزی اخبار کی شہ سرخی کچھ یوں تھی۔ ’’کراچی۔ منگھوپیر سے سات لاشیں برآمد ہوئی ہیں‘‘۔ اُس روز مجھے برطانیہ میں صحافت کی تربیت کا اپنا پہلا روز یاد آیا۔ ایوب خان کا زمانہ تھا اور ٹامسن فاؤنڈیشن کے اُس کورس میں پندرہ بیس ترقی پذیر ملکوں کے صحافی شریک تھے۔ تربیت کا پہلا ہی دن اور ہماری پہلی ہی آزمائش تھی۔ ہم سب کو ایک تقریب کی تفصیل دی گئی اور کہا گیا کہ اس روز جو واقعات ہوئے ان میں سب سے اہم کو سب سے اوپر اور غیر اہم کو سب سے نیچے لکھئے۔ واقعات یوں تھے کہ ملکہ برطانیہ ایک سمندری گودی میں بننے والے ایک بڑے بحری جہاز کا افتتاح کرنے گئیں۔ اس موقع پر انہوں نے ایک رسمی تقریر بھی کی۔ اسی دوران یہ ہوا کہ تقریب میں شامل ایک مہمان پھسل کر پانی میں جاگرا۔ اسے بچانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بچ نہ سکا۔ استاد نے یہ پرچہ سارے صحافیوں کو تھما دیا اور پھر ایک دلچسپ بات کہی۔ اس نے کہا کہ جو طالب علم ایسے ملکوں سے آئے ہیں جہاں حاکم ِوقت ہی سب کچھ ہوتا ہے وہ اپنے ماحول کے مطابق اہم اور کم اہم واقعات چنیں اور یہ کہ انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ پھروہی ہوا جو ہونا تھا۔ ڈکٹیٹر شپ کے ماحول سے آئے ہوئے اخبار نویسوں نے ملکہ کی تقریر کو شہ سرخی بنایا اور جمہوری ملکوں کے صحافیوں نے ایک شخص کے ڈوب جانے کے واقعے کو اوپر رکھا۔ ملکۂ عالیہ کا ذکر کہیں نیچے آیا۔ استاد نہ خفا ہوا نہ برہم اور نہ اس نے برا منایامگر کچھ کہے بنا بہت کچھ کہہ بھی دیا، فرنگی جو ہوا۔
یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہمارے نزدیک کون سی بات زیادہ اہم ہے۔ایک سیاستدان کے وہ گھسے پٹے فقرے جو صبح شام کانوں میں ڈالے جاتے ہیں اور وہ بھی کسی اور کے لکھے ہوئے یا پھر آدھے درجن سے زیادہ شہریوں کا قتل اور وہ بھی پراسرار؟ کس نے مارا، کیسے مارا اور کیوں مارا، یہ ہماری ترجیحات میں نیچے آتا ہے اور وہ بھی بہت نیچے۔ اس کے بعد یہ واقعہ کہیں وقت کے غبار میں دب کر رہ گیا اور قاتل ملک کے ہجوم میں نہایت آسانی سے گم ہو گیا۔پکڑا بھی گیا تو کچھ روز بعد ہی شہر کی سڑکوں پر سینہ تان کر گھومتا نظر آیا۔
یہ اندازِ فکر چند افراد کا نہیں، پورے معاشرے کا ہے۔ ایک شخص کی ہلاکت پوری انسانیت کی ہلاکت ہے۔ جس کتاب میں یہ ہیرے اور موتی میں تولی جانے والی بات لکھی ہے وہ کتاب جھوم جھوم کر پڑھنے ہی کے کام آتی ہے اور بس۔ میں جس برطانوی معاشرے میں رہتا ہوں یہاں انسانی جان کی قدر کا حال کیا سناؤں۔ میں جن دنوں کار چلانے کی تربیت حاصل کر رہا تھا، مجھے بتایا گیا کہ اگر کہیں کسی گھڑ سوار کے قریب سے گزرو تو کار بہت آہستہ کردو تاکہ گھوڑا اس کے شور سے بدک نہ جائے اور گھڑ سوار نیچے نہ آرہے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ جس شام میں کار چلانے کی اپنی صلاحیت کا امتحان دینے گیا، راہ میں تین چار گھڑ سواروں کے قریب سے گزرنا ہوا۔ میں نے اپنی کار کی رفتار بہت کم کردی۔ ذرا آگے ایک بوڑھی خاتون سڑک پار کررہی تھیں۔ میں نے تمام احتیاطی تدبیروں کے ساتھ اپنی کار روک دی اور خاتون کو پوری سڑک سے پار اتر جانے کا موقع دیا۔ نتیجہ صرف یہی نہیں ہوا کہ میں پاس ہو گیا بلکہ ممتحن نے چلتے چلتے کہا کہ تم بہت اچھے ڈرائیور بنو گے۔ابھی کچھ روز ہوئے میرے علاقے کی ایک بڑی سڑک پر کوئی راہ گیر ٹریفک کے حادثے میں مرگیا۔ وہ سڑک پوری رات اور اگلے روز تک بند رہی اور پولیس کم سے کم بارہ گھنٹے تفتیش کرتی رہی۔ جاتے ہوئے وہاں ایک بورڈ لگا گئی جس پر لکھا تھا کہ یہاں فلاں وقت ایک جان لیوا حادثہ ہوا ہے، کسی کو اس کے بارے میں کوئی علم ہو تو مطلع کرے۔ایک اور تازہ واقعہ برطانیہ ہی کاہے۔ سعودی عرب سے تیس برس کی ایک لڑکی ناہید علمانیہ اعلیٰ تعلیم کے لئے یہاں آئی۔ ابھی ایک روز وہ اپنے کالج کی طرف جارہی تھی کہ کسی نے اس پر چاقو سے حملہ کیا اوراس کے بدن میں چاقو سولہ مرتبہ گھونپا۔ لڑکی مر گئی۔ اس کی لاش تو والدین کے پاس بھیج دی گئی لیکن اب پولیس نے خطرناک قاتل کی تلاش میں رات دن ایک کر دیئے ہیں۔ اس کو آلۂ قتل کی تلاش ہے اور اس کا خیال ہے کہ قاتل نے چاقو کسی قریبی جھیل میں پھینکا ہے اور وہاں تین جھیلیں ہیں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ جھیلوں کا سارا پانی نکال کر انہیں خالی کیا جار ہا ہے۔
تو میں واپس آتا ہوں اپنے ڈرایئونگ ٹیسٹ کی طرف کہ میں جسے کار چلانے کی تربیت سمجھ بیٹھا تھا وہ دراصل انسانی جان کی قدر کی تربیت تھی جسے میں نے اچھی طرح گرہ سے باندھ لیا ہے لیکن مجھے اگر کوئی حیران کرتا ہے وہ میرے عزیز ہم وطن ہیں۔ مسلح پولیس آئی اور گولی چلا کر بارہ افراد کو مار ڈالا اور اسّی کو گولیوں کے زخم آئے۔ اس پر میں نے لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ بارہ ہی تو مرے ہیں اور یہ بھی کہ احتجاج کرنے والے لاشوں کی سیاست کر رہے ہیں ۔ عقل حیران ہے، دل پریشان ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔ کچھ لوگوں نے ایک جوان لڑکی کی عزّت خاک میں ملائی اور اس کو مار کر لاش ایک درخت پر لٹکا دی۔ ایک روز اخبار میں بچّی کی تصویر چھپی، اگلے روز سے سنّاٹا ہے۔بھارت میں ایسا ہی واقعہ ہوا۔ چونکہ بڑا ملک ہے اس لئے درخت سے ایک کے بجائے دولاشیں لٹکائی گئیں۔ دونوں لڑکیاں ہندو معاشرے کی نچلی ذات کی تھیں ۔ اصولاً اونچی ذات والوں کو نگاہیں پھیر لینی چاہئیں لیکن پورے ملک میں شور بلند ہورہا ہے اور ایک بار تو ایسے ہی ایک واقعے پر ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں حکومت گرتے گرتے بچی۔
ہمارے ہاں حکومت گرنے کے لئے نہیں بنائی جاتی۔ سمجھدار ہو اور طوفان آرہا ہو تو سر جھکا کر اس کے گزر جانے کا انتظار کرتی ہے اور وہ گزر بھی جاتا ہے۔ نہ ہو تو اچھلنے لگتی ہے۔ طوفان تو اسی دن کی آس میں آتا ہے اور پھر اچھی طرح آتا ہے۔ آخر ایک شخص آگے بڑھ کر اس آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے کیونکہ اس کی ساری تربیت برطانوی جمہوریت میں ہوئی ہے ۔گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور جب بپھرے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کو منانے طیارے کے اندر گئے جس سے باہر آنے پر قادری صاحب رضامند نہ تھے اس وقت میں نے گورنر کے منہ سے یہ جملہ سنا کہ میں سارے سیاسی رہنماؤں کا احترام کرتا ہوں اور یہ کہ برطانیہ میں جسے دو سو ووٹ بھی ملتے ہیں تو اس کا یہ کہہ کر احترام کیا جاتا ہے کہ وہ دو سو شہریوں کا نمائندہ ہے۔
سارا کا سارا معاملہ ذہنوں کی تربیت کا ہے۔ ذرا سوچئے کہ بیس کروڑ کے معاشرے کے ذہن کو بدلنے کا مسئلہ ہے۔ اس کے لئے کوئی اسکول کالج کھولنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے لئے ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو ایک مثال بنے، ایک درخشاں، ایک روشن اور ایک تابندہ مثال، جسے دنیا دیکھے ، اس کا دم بھرے، تقلید کرے اور خود کو اسی کے سانچے میں ڈھالنے کی چھوٹی چھوٹی ہی سہی، کوششیں کرے۔ آخر ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے ۔ ایسا معاشرہ جس میں سُکھ ہو، چین ہو، راحت ، آسودگی اور قرار ہو۔ یہ خواب ہے مگر دیوانے کا نہیں۔ اس لئے کہ تاریخ نے دنیا میں ایسے معاشرے دیکھے ہیں اور تاریخ ہی کیا، خود ہم نے دیکھے ہیں۔ ایسی دنیا ہم نے دیکھی ہے جہاں دو سو ووٹ لینے والے کا اس خیال سے احترام کیا جاتا ہے کہ وہ دو چار کا نہیں، دو سو شہریوں کا چنا ہوا نمائندہ ہے اور جہاں ایک فرد کی موت پوری انسانیت کی موت تصوّر کی جاتی ہے حالانکہ یہ بات نہ ان کی کتابوں میں لکھی ہے نہ ان کے صحیفوں میں۔ ہمارا خدا انہیں جیتا رکھے۔
تازہ ترین