• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں خسرو سن رہی تھی۔ وہ عابدہ پروین کا گایا ہوا ’’یہ بسم رسید جانم، تو پیا کہ زندہ مانم‘‘ خیال آیا کہ اب جبکہ میں پیمرا سے رہائی حاصل کر چکی ہوں۔ کیوں نہ اس الف لیلیٰ پہ بات کرلی جائے۔ یہ تو بالکل Alice in wonderlend بھی ہے کہ یہاں جو بھی ہے وہ نو گزا ہے میرے سپرد ذمہ داری تھی کہ ٹی وی چینلوں اور ایف ایم ریڈیو کی نشریات کی جہاں کہیں بھی شکایت ملے تو متعلقہ ادارے یا افراد کو بلاکر نہ صرف تنبیہ کی جائے، غیر حاضری پہ جرمانہ کیا جائے۔ اگر متعلقہ چینل اور اس کا پروگرام حد سے بڑھ گیا ہو تو اس کو وارننگ دیکر اور جرمانہ عائد کر کے، علاوہ ازیں کسی پروگرام کو عمومی شکایات موصول ہونے کے بعد، بند بھی کردیا جائے۔ جیسا کہ ایک خاتون، مایا خان شو کے سلسلے میں کیا گیا تھا جبکہ وہ ایک باغ میں جاکر لوگوں سے ان کے نکاح نامے اور دیگر غیر متعلق سوال کر رہی تھیں۔ اسی طرح چھوٹے شہروں میں ایف ایم ریڈیو پر بہت سے عطائی حکیم/ ڈاکٹر پیسے دےکر وقت نشریات کے لئے خرید لیتے ہیں۔ جن نکالنے اور استخارہ کرنے کے طریقے بتاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ ٹی وی چینلز کے ذریعہ حکیم خود کو پروموٹ کر کے، اپنی دکان داری بڑھاتے ہیں۔ اسی طرح جیسے ٹی وی پر آنے والے حضرات کے کپڑے اور ڈیزائن کی شہرت کے ذریعے اپنی دکان داری بڑھائی جاتی ہے۔ اس طریق معیشت میں تو کوئی حرج نہیں مگر ایسے عطائی حکیموں کو بھی نسخے بتاتے ہوئے سنا ہے کہ جنہوں نے باقاعدہ حکمت کا امتحان بھی پاس نہیں کیا ہے۔ اسی طرح ستاروں کا حال بتانے والوں کے کرشمے بھی نظر آتے ہیں۔ کچھ عامل بلکہ شادی کے ہونے یا نہ ہونے کی خبر سناتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ پتھروں کی یا قیمتی پتھروں کی اہمیت اور پہننے سے انسان کی قسمت میں تبدیلیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ قرآن شریف کی تشریح و تفسیر کا حق ہر جبہ و دستار والے کے حوالے کردیا گیا ہے۔ ہر لڑکی پوچھتی ہے میری شادی فلاں جگہ ہوگی کہ نہیں اور ہر لڑکا پوچھتا ہے کہ میں کب تک ملک سے باہر جاسکوں گا۔ اتنے مضحکہ خیز پروگرام بھی ہوتے رہے کہ عطائی حکیم صاحب کھانا پکارہے ہیں،اسی طرح جیسے زبیدہ آپا پکاتی ہیں۔ وہ ساتھ میں کھانے کی کیلوریز بھی بتاتے رہے۔ سنا ہے ان کی دکان داری اتنی چمکی کہ وہ حکمت کے مشورے کے لئے فی کس ہزار روپے وصول کرتے ہیں اور تین منزلہ بلڈنگ کے مالک بن چکے ہیں۔ اسی طرح جو ماہرین نفسیات نہیں ہیں وہ ماہرین بنکر اس لئے آتے رہے کہ ان کے پروگرام ڈائریکٹر سے تعلقات تھے۔ وہ بیک وقت ذہنی اور مذہبی علاج کے دعویدار ٹھہرے۔ ان سارے پروگراموں کے خلاف شکایتیں نہیں آتی تھیں۔ شکایت آتی تھی تو کسی انجمن اصلاح کی جانب سے کسی خاتون کے لباس کے بارے میں اور خاندانی منصوبہ بندی کے اشتہاروں کے علاوہ ایک بیڈ پر لڑکا لڑکی کیوں بیٹھے تھے۔ کہیں کندھے سے کندھا کیوں ملا ہوا تھا۔ میاں بیوی نے بھی ایک دوسرے کو گلے سے کیوں لگایا تھا اور ماں کو دودھ پلاتے ہوئے کیوں دکھایا تھا۔
اب قانونی شکایتیں کیوں اور کیا ہوتی تھیں اور ہیں ایک شخص نے کیبل کی منظوری لی، اس سے چل نہیں سکا، اس نے بغیر اطلاع دیئے دوسرے کو فروخت کردیا۔ بلا اجازت غیر ممالک کی فلمیں چلائیں۔ کیبل حاصل کرنے کے لئے بنیادی رقم ادا کی کہ نہیں۔ یہ بھی پتہ چلا سال بھر بعد۔ اس میں کیبل انسپکٹرز کا بھی بڑا عجیب و غریب کردار رہا ہے۔ جب ان کا جی چاہا، آپریٹر کا سامان اٹھالیا اور شکایت لگادی پھر رقم وصول کرنے کے بعد سامان واپس کردیا۔ چھوٹے شہروں میں یہ آنکھ مچولی کچھ زیادہ ہی چلتی ہے۔ ہر شہر میں اپنی وضع کے ’’گلوبٹ‘‘ ہوتے ہیں دوستی ہوئی تو بلا فیس ادا کئے چلنے دیا،نہیں تو سامان اٹھالیا۔فلمیں چلانے کی تو کوئی حد ہی نہیں۔ اس طرح غیر ملکی کے علاوہ دیگر پروگراموں کو بلا اجازت چلانے کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کبھی کسی پہ جرمانہ ہوا۔ اس نے چیئرمین کے پاس جاکر معاف کروا لیا۔ جیسے ہر بزنس مین طاقتوروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اس طرح چینل کے حقوق لینے اور فیس ادا کرنے کے حوالے سے کوئی تاجی بنتا ہے کوئی پاجی بنتا ہے۔ یہ اس لئے اندر خانی بغیر کسی ریکارڈ کے سودا ہوجاتا ہے۔ سال کے آخر میں جب خزانہ بھرنے کا نوٹس ملتا ہے تو کسی قسم کی بھی سودے بازی یعنی پورے نہیں آدھے پیسے دیدو تاکہ تمہارا چینل اور کیبل چلتا رہے۔ کوئی قانونی حیثیت نہ قبول کی جاتی ہے اور نہ کبھی اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے۔پیمرا کے آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ شکایتی سیل اول تو پیمرا کے چیئرمین و دیگر افسران کے ماتحت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دفتری بابو جو شکایتی سیل کو کیبل آپریٹرز سے رقم وصول کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں یہ طریقہ کار آئینی طور پر درست نہیں ہے۔ یہ بھی درست نہیں ہے کہ شکایتی سیل کی رپورٹس کو چیئرمین کے پاس تصدیق کے لئے بھیجا جائے البتہ جو شکایات یا قابل عمل اقدامات جو چیئرمین ہی کو کرنے ہوتے ہیں ان کو بھیج دیا جائے مگر ایسا نہیں ہوتا رہا ہے۔ البتہ یہ قدم قابل تحسین رہا ہے کہ مشتاق ملک کے زمانے میں چاروں صوبوں میں شکایتی سیل قائم کئے گئے اور گزشتہ ہفتے تک اپنی مدت پوری کر کے کام کرتے رہے۔ اب جبکہ سرکاری اور غیر سرکاری ممبرز کے درمیان تنازع چل رہا ہے۔ دونوں سینگ اڑائے کھڑے ہیں۔ یہ نامناسب رویہ ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ موجودہ اتھارٹی ممبران کی مدت مختصر کر کے، نئے ممبران کا انتخاب کیا جائے اور پیمرا کو باقاعدہ چیئرمین دیکر کارکردگی کو موثر بنایا جائے مگر شہزادی کی جان طوطے میں اور طوطا جن کے قبضے میں ہے۔ ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘آپریٹرز کی من مانی کو بھی لگام دی جائے کہ جہاں سے کمک پہنچ گئی وہی چینل آگے کردیا جاتا ہے، باقیوں کو کھانا پکانے کے چینل کے ساتھ نتھی کردیا جاتا ہے۔ پیمرا کے تمام قواعد کو سہج سبھائو طریقے سے چلانے کے لئے حکومت کو اسے منفرد اور یکتا حیثیت دینی ہوگی۔
تازہ ترین