• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی اندرونی سیاست اور علاقائی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے حکمرانوں کا عالمی طاقتوں کیلئے ’’ڈارلنگ'بننا ‘‘الگ اہمیت رکھتا ہے۔جو سربراہ جتنا زیادہ ’محبوب‘ہوگا وہ اتنا زیادہ قابل قبول بھی ہوگا۔پاکستان کے سربراہان کیلئے امریکی اشیرباد ہمیشہ اہمیت کی حامل رہی ہے۔عالمی میدان کے سب سے طاقتور اور بڑے کھلاڑی کے طور پر امریکی کردار سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ چین نے اپنی خاص حکمت عملی کے تحت خود کو ایک بڑی طاقت کے طور پر منوایا ہے لیکن مغرب کی مسلمہ طاقت کو اب بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اسی لیے ہر زمانے میں اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ کون سی شخصیت پینٹاگون میں مقبول ہے اور کون وائٹ ہاؤس میں محبوب۔پاکستان کے قیام سے لیکر اب تک پاکستان کے اٹھارہ صدور یا وزرائے اعظم نے سرکاری یا نجی حیثیت میں امریکہ کے 42 دورے کیے ہیں۔ سب سے زیادہ دورے یعنی نو دورے، فوجی صدر پرویزمشرف نے کیے، نواز شریف نے چھ دورے کیے۔اسکے بعد صدر آصف زرداری پانچ مرتبہ امریکہ گئے، جنرل ایوب خان نے تین دورے کیے، جنرل ضیاالحق نے امریکہ کے تین دورے کیے، ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم کی حیثیت میں امریکہ کے دو دورے کیے، وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو بھی دو مرتبہ امریکہ کے دورے پر گئیں۔دیگر پاکستانی صدور اور وزرائے اعظم ایک ایک مرتبہ امریکی دورے پر گئے۔لیکن صدر ٹرمپ جس طرح فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بلائیں لیتے ہیں اسکی مثال نہیں ملتی۔انکے اعزاز میں وائٹ ہاؤس کا لنچ ہو یا عالمی سربراہی فورم پر انکی عدم موجودگی میں انکا تذکرہ، فیلڈ مارشل کے ’’محبوب و مقبول‘‘ہونے کا تاثر پختہ ہوا ہے۔ان کی شہرت اب صرف پاکستان کی سرحدوں تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی طاقتوں کے ایوانوں میں بھی ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ امریکہ ہو یا عرب دنیا، یورپ ہو یا مشرقِ وسطیٰ،سب انہیں ایک متوازن، مضبوط اور زیرک فوجی رہنما کے طور پر دیکھتے ہیں۔

یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ انہیں مغربی میڈیا ''Darling Field Marshal'' کے نام سے یاد کرتا ہے۔ دراصل ان کی قیادت کا وہ انداز جو نہ جارحانہ ہے نہ مفاداتی، بلکہ اصولی، شفاف اور قومی مفاد پر مبنی ہے، یہی وجہ ہے کہ واشنگٹن، ریاض، قاہرہ اور بیجنگ سب کے ساتھ ان کے تعلقات غیر معمولی توازن رکھتے ہیں۔ امریکی پینٹاگون کے حکام انہیں A man of resolve and integrityکہتے ہیں۔

عاصم منیر کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اس تاثر کو توڑنے میں کامیاب رہے کہ پاکستان کا ہر آرمی چیف امریکہ کا تابعِ فرمان ہوتا ہے۔بلکہ انہوں نے تابع کے بجائے برابری کی سطح پر باوقار انداز میں معاملات سرانجام دیئے ہیں۔ انہوں نے کرپشن، اسمگلنگ اور بدعنوانی کے خلاف بھرپور اقدامات کئے۔ انکے دور میں پہلی بار یہ احساس پیدا ہوا کہ فوج کا مقصد محض اقتدار نہیں بلکہ استحکام ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس نے عالمی برادری کو انکے حق میں متوجہ کیا۔اگر ماضی کے آئینے میں دیکھا جائے تو پاکستان کی عسکری تاریخ کئی’’امریکی ڈارلنگ جنرلز‘‘ سے بھری پڑی ہے۔ ایوب خان نے سب سے پہلے امریکہ سے اتحاد کیا اور بدلے میں جدید اسلحہ اور فوجی امداد حاصل کی۔ جنرل یحییٰ خان نے امریکہ اور چین کے درمیان رابطہ قائم کرا کے تاریخ رقم کی۔ جنرل ضیاء الحق نے افغان جہاد کے زمانے میں امریکہ کا سب سے طاقتور اتحادی بن کر دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد واشنگٹن کیساتھ مکمل ہم آہنگی اختیار کی اور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سفارتی نرمی کے ذریعے توازن قائم کیا اور امریکی انخلا کے وقت افغانستان کے بحران میں کلیدی مدد فراہم کی۔مگر فیلڈ مارشل عاصم منیر کا معاملہ مختلف ہے۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو صرف اس وقت مضبوط کیا جب پاکستان کی خودمختاری متاثر نہ ہو۔ وہ ایک طرف سعودی عرب اور چین کیساتھ گہرے اقتصادی روابط رکھتے ہیں، دوسری طرف واشنگٹن کیساتھ اسٹرٹیجک ہم آہنگی بھی قائم ہے۔ انکے بیانات اور اقدامات یہ واضح کرتے ہیں کہ وہ نہ کسی طاقت کے تابع ہیں نہ کسی دباؤ کے محتاج۔ وہ جانتے ہیں کہ نئے عالمی نظام میں طاقت کی تعریف بدل چکی ہے، اب بندوق سے زیادہ اعتماد اور وژن کی ضرورت ہے۔امریکہ میں انکی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ انکا غیر متنازع کردار ہے۔ وہ کسی سیاسی جماعت یا نظریاتی گروہ کے آدمی نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کے نمائندہ ہیں۔ واشنگٹن کے تھنک ٹینکس انہیںThe stabilizer generalکہتے ہیں یعنی وہ شخص جس نے پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت کو قابو میں رکھا اور معیشت کو دوبارہ سمت دینے کی کوشش کی۔یہ درست ہے کہ ہر دور میں کوئی نہ کوئی جنرل امریکی پسندیدہ کہلاتا رہا، مگر فیلڈ مارشل عاصم منیر پہلی شخصیت ہیں جنہیں امریکہ نے احترام دیا، اور پاکستانی عوام نے محبت۔ ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے فوجی قیادت کو سفارتکاری کے نئے دور میں داخل کر دیا ہے جہاں تلوار کی جگہ تدبر، اور اقتدار کی جگہ کردار نے لے لی ہے۔ان سب حقائق کے باوجود صحافت کا طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں ملک کے اقتدار پر سیاسی جماعتوں کے تدبر کی جھلک بھی نظر آنی چاہئے بدقسمتی سے اس وقت سیاسی حکومت مکمل طور پر'سہاروں'کی محتاج بن چکی ہے جسکی وجہ سے سیاسی دانش اقتدار کے ایوانوں میں نظر نہیں آ رہی۔ جہاں بات چیت کے ذریعے مسائل حل ہو سکتے تھے وہاں طاقت کے غیر ضروری استعمال نے سول حکومت کا چہرہ مجروح کیا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو اس کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عسکری فہم کیساتھ ساتھ سیاسی دانش بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرے۔

تازہ ترین