• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے خیال میں تین طرح کے لوگ ہیں،جو نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تاریخ اسلام جناب نسیم حجازی سے پڑھ کے لشکر تیار کئے جائیں اور پوری دنیا کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ڈھال لیا جائے دوسرے ہر وقت واقعات عالم میں الجھے ہیں،صدر ٹرمپ کے آسیان کے دورے سے پہلے دیوالی کے موقع پر نریندر مودی کے ساتھ ان کے رازو نیاز کے بارے میں یا قومی افق پر چھائی چار شخصیتوں کے گرد گھومتی سیاسی پارٹیوں کے ماضی،حال یا مستقبل کے بارے میں ایسی جذباتی باتیں کی جائیں جنہیں ہمارے ہاں تجزیہ کہنے کا رواج ہے ،تیسری طرح کے لوگ موسیقی کے رسیا ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جب ریڈیو سیلون کی دیکھا دیکھی ہمارے ریڈیو پاکستان نے بھی بھارتی موسیقی کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی،فلموں میں خواجہ خورشید انور اور رشید عطرے اور پھر ماسٹر عنایت حسین شاید سب سے بڑے نوشاد اور پھر کلاسیکل موسیقی میں مغربی پاپ کا ٹانکا لگانے والے شنکر جے کشن اور او،پی نیر کے مقابلے میں آ گئے تھے ادھرہمارے پاس ملکہ ترنم کے ساتھ مہدی حسن آن ملے پھر نیرہ نور آ گئیں اس طرح سازینوں کے ساتھ فلمی شاعری پر بھی بہار آ گئی سیف،قتیل شفائی اور منیر نیازی کچھ کچھ ساحر لدھیانوی کی کمی پوری کرنے لگے آکاش وانی کے مقابلے پر ریڈیو پاکستان تھا پھر ٹیلی ویژن آ گیا اور ریڈیو کی دل کو لبھانے والی خوش آواز انائونسرز کو سامنے آنا پڑا موہنی حمید کے پاس آواز کا جادو بھی تھا اور نام کا بھی ہم سب انہیں منی باجی ہی سمجھتے تھے مگر بڑھی ہوئی توقعات والوں کو ان کے نین نقش خوش نہ آئے اس کے بعد ریڈیو زاہدان سےایک طلسمی آواز ہم کلام ہوئی’’آواز کی دنیا کے ساتھیو‘‘ اور مرد سامعین سارے ہی مومن ہو گئے پھر ایک عرصہ یہ آواز چھائی رہی یہاں تک کہ ثریا شہاب کی تصریر شائع ہو گئی۔ اسی زمانے میں ریڈیو ملتان سے عفت ذکی کی آواز سنائی دی اور جب تصویو بھی سامنے آئی تو اور تو اور فیض احمد فیض نے مکتوبات لکھنے شروع کئے اور اپنے قیام ملتان میں انہیں مستقل میزبان بنایا، یہ وہ دور تھا کہ محکمہ اطلاعات حاکموں کی چاپلوسی کے لئے وقف نہیں ہوتاتھا ثقافتی دنیا کو فروغ دینے کیلئے نیشنل سنٹر مع کتاب خانہ،آرٹس کونسل اپنے لوازمات کے ساتھ پھرایک توجولائی 77 آ گیا اور پھر یہ سب ’’خاک و خون‘‘ ہو گیا یا خواب و خیال۔

محترمہ بے نظیر کے پاکستان میں بر سر اقتدار آنے کے بعد وائس آف امریکہ سے مرتضیٰ سولنگی آئے اور انہوں نے کوشش کی کہ ریڈیو اسٹیشنوں کے جالے اتارے جائیں اور تالے کھولے جائیں اسی زمانے میں ریڈیو کے سب دوست بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کےزخم مندمل کرنے کیلئے کچھ پروگرام یا تقاریر بنگلہ دیش اور بھارت سے بھی منگوائے پھر یہ چرچا بھی ہوا کہ سارے پروگرام ڈیجیٹلائز ہوگئے یعنی اطلاعاتی طاقت میں ڈھل گئے پھر جنرل مشرف کے دور میں بظاہر انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ ملا امریکی ڈالر بھی آئے اور کم ازکم آٹھ نو برس جنرل صاحب کے والدین کی موسیقی سے رغبت اور ان کی اپنی جمال دوستی کا بھی چرچا ہوا مگر پھر کیا ہوا؟ اب ہمارے ریڈیو کے دوست عباس صاحب مجھے کہتے ہیں مہر عبدالحق،جابر علی سید، اسلم انصاری پر ہم ایک دستاویزی پروگرام کر رہے ہیں کوئی سات آٹھ منٹ میں اپنی رائے ریکارڈ کر کے بھیج دیں۔ہر مرتبہ میں پوچھتا ہوں کہ ان شخصیات کی اپنی آواز کہاں ہے؟ ریڈیو پروگراموں کی ڈیجیٹلائزیشن کا کیا ہوا ؟ دو عشرے پہلے قومی جامعات کو نہ صرف لائسنس دئیے گئے بلکہ چند ٹرانسمیٹرز بھی تحفے میں دئیے گئے ماجرا یہ ہے کہ جرنلزم کو کمیو نیکیشن اسٹڈیز کا نام دینا کافی نہیں ان شعبوں کے طالب علموں کو ایک بڑے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر ایسے کام کرنے چاہئیں ترجمہ، ایڈیٹنگ، انٹر ویو، پسندیدہ نغمے ۔بے شک آج گلی بازاروں میں زیادہ تر نوجوانوں کے کان پسندیدہ موسیقی سن سکتے ہیں کسی میچ کی کمنٹری بھی اور ساتھ ہی ساتھ ایک ہی مضمون کو بارہ چودہ مخاطبوں کیلئے باندھا جارہا ہے ادھر مخاطب کا بھی یہی احوال ہے اس کے باوجود وہ سب کہاں گیا؟ بے شک ریڈیو اسٹیشن کی عمارتیں تو ابھی بکی نہیں مگر لان اجڑے ہوئے،اسٹیشن ڈائریکٹر کے لئے تنخواہوں،ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کیساتھ کمرشل ریٹ پر بجلی کے بلوں کی ادائیگی کیساتھ ہم جیسے لوگوں کے سوال۔ پہلےعلاقائی موسیقی گئی،البتہ وزرائے کرام کے بے برکت خطاب پہلے سے زیادہ ہو گئے۔ کمرشل سروس آئی مگر کیا کیا حکیم تھے حکیم سعید،حکیم نیئر واسطی، اورحکیم خلیق الرحمان اور پھر کمرشل پروگراموں کے ذریعے کیسے کیسے حکمت نا آشنا کچھ جڑی بوٹیوں کی ایسی تاثیر بتانے لگے کہ انہیں آزمانے کے شوق میں پنجاب کی ایک جامعہ کے وائس چانسلر غریب معطل ہوگئے ۔جابر علی سید فارسی کے استاد تھے شاعر اور نقاد تھے مگر اپنے ہی منہ سے ادا ہونے والی تمثیلوں اور تمثالوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں پچاس برس پہلے مجھے بتا رہے تھے کہ ریڈیو ملتان پر پروگراموں میں عاصی کرنالی صاحب اور میری ’نیک ٹو نیک‘ریس ہے پھر اس کی تشریح کا لطف لینے لگے ، پھر عتیق فکری کی سنجیدگی، حسن رضا گردیزی کی بشاشت اور انور جٹ کی بذلہ سنجی کا امانت دار جو ریڈیو تھا وہ کہاں گیا۔ اصغر ندیم سید اور میرا اپنا سہ پہر کے بعد کا ٹھکانہ وہاں تھا،فخر بلوچ ڈرامے کی رہیرسل کرا رہا ہے قیصر نقوی اور صفدر عباس ترمذی ریہرسل کر رہے ہیں،عفت زکی،اکرام اللہ اورملک عزیز بھی وہی ہیں یہی عالم بہاولپور ریڈیو کا تھا وہاں نصراللہ خان ناصر رنگ لگائے ہوئے تھے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سرائیکی کی سربراہی میں ان کے ساتھ اسٹوڈیو میں بہاولپور جگمگ کر رہا ہوتا تو ساتھ چولستان کا گم شدہ دریا یا چنن پیر کا میلہ گیتوں میں کہانیوں میں سنائی دیتا۔ایک واقف حال سے پوچھا کہ وہ سولنگی صاحب کی ڈجیٹلائزیشن کیا ہوا تو انہوں نے کہا کہ کوریا کے ماہروں نے یہ کام کیا تھا ان سے کوڈ منگوائے جا رہے ہیں۔

تازہ ترین