• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے اس دفعہ اپنے دورہ امریکہ کے دوران یہاں سب سے زیادہ جس چیز نے متاثر کیا وہ یہاں پر وسیع پیمانے پر آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا بھرپوراستعمال ہے، امریکی سرزمین پر لینڈ کرتے ہی میرا سب سےپہلا واسطہ خودکار امیگریشن نظام سے پڑا،غیرملکی مسافروں کی شناخت اور پاسپورٹ و دستاویزات کی تصدیق کا عمل جوروائتی طور پر کسی بھی ایئرپورٹ پردشوار اور پیچیدہ سمجھا جاتا ہے، مصنوعی ذہانت کی جدید صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے چہرے اور پاسپورٹ اسکیننگ کے ذریعے آناََ فاناََبغیر کسی دِقت کے مکمل ہوگیا، ایئرپورٹ پر مختلف امور کی انجام دہی کیلئے مجھے روبوٹس بھی متحرک نظر آئے۔ایئرپورٹ سے باہر نکلا تو پتا لگا کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بھی اے آئی انقلابی تبدیلیاں لاچکی ہے، ۔ٹیسلا اور وائی مو کی خودکار گاڑیاں بغیر کسی انسانی ڈرائیور کے اب سڑکوں پر تیزرفتاری سے رواں دواں ہیں، سڑکوں پرنصب ٹریفک سگنل اے آئی کے الگورتھم کے تحت خود بخود کنٹرول ہوتے ہیں، جس سے ٹریفک جام کے مسائل پر مکمل قابو پالیا گیا ہے۔ اسی دوران ہوٹل کی چیٹ بوٹ کا خودکار خیرمقدمی پیغام واٹس ایپ پر موصول ہوگیا، آن لائن چیٹ بوٹ نے میرا اندراج کیا، کمرے کی تفصیلات سے آگاہ کیا بلکہ کھانے کےمینو اور مختلف تجاویز بھی دیں۔یہاں امریکی حکومت کی دعوت پرمجھے مختلف حکومتی و نجی سطح کے اداروں کے دوروں کا بھی موقع ملا، حکومتی معاملات میں اے آئی کے بڑھتےاستعمال نے نہ صرف عام آدمی کو اپنے شہری حقوق سے مزید آگاہی فراہم کی ہے بلکہ اداروں کی کارکردگی، عوام کے روبرو جوابدہی ، احتساب اور شفافیت کے حوالے سے بھی مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔مجھے یہاں ہیلتھ کیئر کے شعبے میںجانکاری حاصل ہوئی کہ مایو کلینک اور آئی بی ایم واٹسن ہیلتھ جیسے امریکی ادارے اے آئی کی مدد سے ان پیچیدہ بیماریوں کی بروقت تشخیص و علاج کے قابل ہوچکے ہیں جو کسی زمانے میں لاعلاج سمجھے جاتے تھے ،جدیدڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے آراستہ مشین لرننگ سسٹم ایکسرےاور ایم آر آئی سکین میں ایسی باریکیاں پہچان لیتے ہیں جنہیں انسانی آنکھ دیکھنے سے قاصر ہوتی ہے، چیٹ بوٹ نہ صرف مرض کی تشخیص کرکے میڈیسن ازخود تجویز کردیتی ہیں بلکہ سنجیدہ نوعیت کے مریضوں کی ڈاکٹرز کے ساتھ اپائنمنٹ بھی بُک کراتی ہے ۔یہاں امریکہ میں اے آئی روبوٹس سڑکوں، اسپتالوں، شاپنگ مالزاور دیگر عوامی مقامات میں نہ صرف روٹین کی صفائی میں مشغول ہوتے ہیں بلکہ خودکار طریقے سے ماحول کی نگرانی، جراثیم کشی، اور کوڑا کرکٹ کو تلف کرنے کی ذمہ داریاںبھی سنبھالے ہوئے ہیں، امریکی کمپنیاں ایسے روبوٹس تیار کر رہی ہیں جو جدید سینسرز، کیمرے، اور جی پی ایس ٹیکنالوجی کی مدد سےگاڑیوں اور پیدل چلنے والوں سے اپنا بچاؤکرتے ہوئے سڑکوں پر بکھراکچرا صاف کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔امریکی تعلیمی اداروں کانظامِ تعلیم تیزی سے اے آئی سے منسلک ہوتا جارہا ہے،آرٹیفشل انٹیلی جنس کی مدد سے طالبعلم کے رحجان کومدنظر رکھتے ہوئےاس کیلئے مضامین اور غیرنصابی سرگرمیاںتجویز کی جارہی ہیں، طالب علم کےسیکھنے کے انداز، استعداد اور رفتار کے مطابق نصاب خود بخود ڈھل رہا تھا، حتیٰ کہ امتحانات کے سوال و جواب اور نتائج بھی اے آئی کے مرہون منت ہیں ۔ امریکہ میں اے آئی کےتعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والے ڈاکٹر مائیکل ایورسٹ نے لاس اینجلس میں قائم اپنے دفتر میں بریفنگ میںمجھے آگاہ کیا کہ آج سے پانچ سال قبل کوروناکی صورت میں امریکہ کو ایک ایسے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا تھا جس نے امریکہ کو جڑوں سے ہِلا کر رکھ دیا تھا، امریکہ کو تعلیمی شعبے میں اساتذہ کی کمی کا شدید سامنا کرنا پڑرہا تھا، ایسے نازک موقع پر ڈاکٹر ایورسٹ کے ادارے نے ایک ایسا زبردست اے آئی پلیٹ فارم متعارف کرایا جس میں ورچوئل ٹیچر اسسٹنٹ امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم اسٹوڈنٹس کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں، ڈاکٹر ایورسٹ کی یہ کاوش امریکہ کو سپرپاور کے رتبے پر برقرار رکھنے میں نہایت اہم ثابت ہوئی اور آج ایڈیو ڈاٹ کام پلیٹ فارم سےبذریعہ اے آئی تعلیم حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس ہرمیدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی معاشرت اور معیشت کو بہتر سے بہترین کررہے ہیں۔یہاں امریکہ میں مختلف پاکستانیوں سے ملاقات میں یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ امریکہ کے ہر شعبہ زندگی کی طرح اے آئی کے میدان میں بھی پاکستانی نژاد امریکی کمیونٹی آگے آگے ہے۔تاہم ایک محب وطن پاکستانی کے طور پر میرے ذہن میں یہ سوال ضرور گونجا کہ آج کی تیزی سے بدلتی دنیا کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کیلئے ہم کیا کررہے ہیں؟بدقسمتی سے پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، کچھ عناصر کی جانب سے ٹیکنالوجی کےغلط استعمال کو جواز بناکر اے آئی اپنانے کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے توچند لوگوں کو خدشات لاحق ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے آجانے سے انکی نوکریوں کو خطرہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ دور انسانی ترقی کے عروج کا دور ہے،ہزاروں برسوں پر محیط ارتقائی سفر نے آج انسان کو اس قابل بنادیاہے کہ وہ اے آئی کی مدد سے کائنات کے اُن رازوں پر سے بھی پردہ اٹھائے جو صدیوں سے نامعلوم ہیں۔میری نظر میں اے آئی کسی صورت انسانی ذہانت کا نعم البدل نہیں بلکہ اصلی ذہانت کی طاقتور ساتھی ہے، میں نے امریکہ میں رہتے ہوئے اس حقیقت کا ادراک کیا ہے کہ اے آئی انسان کو بے کارنہیں بلکہ اورزیادہ باصلاحیت بنارہی ہے، سپرپاور امریکہ میں مصنوعی ذہانت کے بھرپوراستعمال سے ثابت ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت دورِ جدید کی نئی عالمی معیشت کا انجن ہےاورروشن مستقبل ان ہی ممالک کا ہے جو اپنے آپ کو جدید دنیا کی قیادت کیلئے تیار کرتے ہیں۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہماری آج کی ہچکچاہٹ کل ہمارا دوسروں پر انحصار بن جائے گی، اے آئی انسانی نوکریوں کو ختم نہیں کرے گی بلکہ انہیںنئے دور کے نئے تقاضوں کے مطابق نئی شکل دےگی ، اے آئی کا استعمال ہماری تخلیقی صلاحیت کو ختم نہیں بلکہ اسے کئی گنا زیادہ بڑھارہا ہے۔ آخرہم اس ٹیکنالوجی سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں جو ہمارا مستقبل سنوار سکتی ہے؟

تازہ ترین