 
                
                 
بےشک خود کش حملوں ،ریلوے ٹریک پر دھماکوں اور استنبول میں طالبان اور پاکستان کے مذاکرات کی وقتی ناکامی کے بعد ہمارے جوانوں کی شہادت کی خبروں سے دل اداس ہوجاتا ہےمگر بھنبھور اور کیچ کا ذکر آئے تو ایک بلوچ پنوں ہوت اور ایک شہزادی سسی کا قصہ یاد آجاتا ہے جسکی جنم پتری سن کر اس کے باپ نے اسے دریائے سندھ میں یوں بہایا کہ وہ لکڑی کے نفیس بکس میں سلامت رہے اور اس بچی کے سرہانے رکھے موتی شاید کسی بچانے والے کو پالنے والا بنا دیں۔ یوں حضرت موسیٰ اور سسی کے قصے کے ابتدائی مناظر ایک جیسے ہو جاتے ہیں بس ایک فرق کے ساتھ کہ وہاں دریائے نیل تھا یہاں دریائے سندھ تھا اور وہاں موسیٰ کی بہن جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ننھے بھائی کی ٹوکری کے ساتھ ساتھ دوڑتی رہی جب کہ سسی کیلئے شاید اس کی کوئی بہن ساتھ نہیں بھاگی ۔البتہ قصہ گو یہ کہتے ہیں کہ وہ بچی اس حالت میں بھی سو گئی دوسرے وہ چونکہ شہزادی تھی اس لئے گوری چٹی تھی اتنی کہ ہمارے صوفی شاعروں نے بھی اسے چاند کا ٹکڑا کہا ہے ۔ پھر اس کی ٹوکری کپڑے دھوتے ایک دھوبی کو ملی جسکی بیوی بے اولاد تھی ۔تب بلوچستان اور سندھ میں ڈومیسائل وغیرہ کا رواج نہیں تھا اور کوئی لسانی جھگڑا بھی نہیں تھا اور نہ ہی نادرا وجود میں آیا تھا سو، بے گھر سسی کو نئے ماں باپ اچھے لگے علاوہ اپنی نیند کے ،وہ کپڑے دھوتے ہوئے جو آوازیں نکالتے اورجو ساحلی پرندے ان آوازوں کی نقل کرتے سسی کی پسندیدہ موسیقی بن گئی۔ ڈاکٹر شاہ مری نے سولہویں صدی کے اوائل کے اس قصے میں دھوبی کا نام اٹّا یا اٹّے کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ پنوں،سسی کے حسن کا قصہ سن کر کئی اونٹ عطراور مشک کے لایا اور ساتھ اشرفیاں بھی بہت سا مشک اور کافور اس نے اونٹوں کو کھلایا اور پھر ان کے منہ باندھ دئیے تو اونٹوں کے بولنے یا ڈکارنے سے آس پاس خوشبو پھیل گئی یوں سسی کا پنوں سے پہلا تعارف خوشبوئوں کے تاجر کے طور پر ہوا ۔البتہ اس دھوبی کے پاس پنوں ہوت بلوچ کو عاشق کے روپ میںجب کپڑے دھونے پڑے تو جس جس کے کپڑے پھٹ جاتے تو یہ عاشق اس کپڑے میں ایک اشرفی رکھ دیتا اور شاید تب سے اپنوں اور پرایوں کو بلوچوں کے زخموں پر اشرفیاں رکھنے کا طریقہ آ گیا۔ پھر پنوں کے بھائی بند اسے نشہ پلاکے اور ممکن ہے دہشت گردوں کا کمانڈر ہی بنا کے لے گئے ہوں مگر اس قصے کو منظوم کرنے والے ہاشم ،لطیف اور فرید نے صحرا میں کوکتی کرلاتی کھوجتی سسی کو عاشق بنادیا جسےاپنی نیند یا غفلت کا کفارہ دینا تھا۔
اب سردار اکبر بگٹی ہوتے تو قصے کے اگلے مرحلے کے بارے میں بات ہوتی ۔وہ کہتے تھےکہ بلوچ ہر عورت کی عزت کرتا ہےپھر وہ چرواہا یا خیمے والا کون تھا جسکی نیت میں فتور آیا اور سسی نے ’’پردہ رکھنے والے‘‘ سے اپیل کی اور کچھ دیر کیلئے صحرا کی ریت شق ہوئی اور ہمیشہ کیلئے اپنی آبرو کی حفاظت کرنے والیوں کا گہوارہ بن گئی پھر یہ جنرل مشرف کے زمانے میں ڈاکٹر شازیہ کی بے حرمتی پر سردار اکبر خان آپ نے کیوں کہہ دیا کہ کوئی بلوچ کسی عورت پر نظر بد ڈال ہی نہیں سکتا۔افسوس یہ ہے کہ مشرف اس قصے کے چرواہے سے بھی گیا گزرا ثابت ہوا وگرنہ آج بلوچستان میں پھیلی آگ کو یہی ایک سردار پھیلنے سے روک سکتا تھا جو لاہور کے چیفس کالج میں پڑھا تھا بلوچ تاریخ کے ساتھ پاکستان کی تمام قومیتوں کی تاریخ میں دلچسپی رکھتا تھا اور جانتا تھا کہ ہمارے ریاستی ڈھانچے کو بکھیرنے کے آرزو مند ہاتھ کہاں ہیں اور انہیں کیسے روکنا ہے؟ میں اکثر ذکر کرتا ہوں کہ ہمارا سکول بہت اچھا تھا مگر وہاں اسلامیات کے استاد نے ہمیں جغرافیہ پڑھایا اس لئے میں یہ تو جانتا ہوں کہ چلغوزوں کا یہ موتیوں سے بھی قیمتی جنگل شین غر میں ہے مگر وہ کیچ سے کتنے فاصلے پر ہے اور خان کے پسندیدہ اور خانان کے بھی فیورٹ محمود خان اچکزئی ژوب کے اس علاقے میں چلغوزوں کے اس باغ کے بھی مالک ہیں یا نہیں یا بدخشاں میں سونے کی کانوں پر مورچہ بند متصادم طالبانی لشکر سے کتنا تعلق ہے؟یا ہمارا دوست بھارت پاکستان میں تخریب کاری کیلئے مبینہ طور ایک ارب ڈالر افغانستان کو دے رہا ہےاس کا کچھ حصہ بھی ہمارے خطے میں آگ سلگانے والوں کو ملتا ہے؟ آپ نے بی بی سی کی ایک ڈاکیومنٹری چلغوزے کے اس جنگل میں لگنے والی آگ کے متاثرین کی دیکھی ہو گی مگر میرے لئے اہم پہلو یہ ہے کہ چلغوزوں کے ٹھیکیدار جن مزدوروں سے کام لیتے ہیں ان کے بچے ناخواندہ ہیں ان کے پائوں میں جوتے نہیں اور نہ مستقبل قریب میں اس علاقے میں اسکول کھلنے کا امکان نظر آتا ہے ،اگر پنوں نے اپنے ترکے میں کچھ اشرفیاں چھوڑی ہوں تو وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کو دینے کی بجائے سسی کے نام پر یہاں بچیوں کے لئے اسکول کھولے جا سکتے ہیں ۔وہ سسی پلیجو کدھر ہیں؟ شازیہ مری کے پاس کوئی طاقت تو تھی کہ عوامی تائید سے سانگھڑ کے بڑے پیر کو ہرا دیا تھا۔ان اسکولوں سے پڑھنے اور پڑھانے والوں کا ایک جرگہ بن جائے وہ شاہ لطیف کے بیت پڑھیں یا شاہ ہاشم کا منظوم قصہ سسی پنوں یا پھر ہمارے سرائیکی ڈوہڑے والوں سے ہاتھ جوڑ کے کہیں کہ سسی کے ساتھ نندراں مُٹھی کا قافیہ ہٹا دیں۔مجھ جیسے خواب پرست کا خیال ہے کہ اگراس میں کہیں ملالہ فنڈ کی اعانت آگئی یا ہماری آصفہ بھٹو کی نظر پڑگئی یا پیارے مرتضیٰ سولنگی نےذرا سی توجہ دے دی تو بجائے یہ کہنے کے کہ سسی کی آہوں سے شین غر کے جنگل سلگتے رہتے ہیں ،یہاں جھوکاں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے ساتھ آباد ہو سکتی ہیں۔