• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ کی جنوب مشرقی ایشیا میں تازہ کام یابیاں

چینی صدر سے ملاقات ہی نہیں، چین کے گھیراؤ کے لیے اہم معاہدے بھی کیے
چینی صدر سے ملاقات ہی نہیں، چین کے گھیراؤ کے لیے اہم معاہدے بھی کیے

مشرقِ وسطیٰ میں سیز فائر کروانے کے بعد امریکی صدر اُس علاقے کی طرف بڑھے، جسے امریکا اپنا اصل علاقہ کہتا ہے، یعنی جنوب مشرقی ایشیا یا انڈوپیسیفک۔ صدر ٹرمپ نے اکتوبر میں ملائیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا کا دورہ کیا، جب کہ اُنھوں نے چین کے صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات کی۔ دو اہم فورمز آسیان اور ایپک میں شرکت کی۔ صدر ٹرمپ کا اقتدار میں آنے کے بعد اس کا علاقے کا یہ پہلا دورہ تھا۔ 

وہ یقیناً جاننا چاہتے تھے کہ علاقے میں کس قسم کی سیاسی تبدیلیاں آئی ہیں اور یہ بھی کہ اُن کی جانب سے عاید کردہ ٹیرف کے اثرات کیا رہے؟ ٹرمپ ایک تاجر صدر کی حیثیت سے اس علاقے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں اور اُن کے معاہدات اِسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ 

یہ دَورہ امریکا، علاقے اور دنیا کے لیے بہت اہم ہے، کیوں کہ یہی وہ خطّہ ہے، جہاں سب سے تیز رفتار ترقّی ہو رہی ہے اور یہ گزشتہ بیس سالوں سے ترقّی کا رول ماڈل چلا آ رہا ہے۔2011 ء میں امریکی پالیسی میں ایک فیصلہ کُن موڑ آیا، تو اُس وقت کے صدر، باراک اوباما نے کہا کہ’’امریکا، مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا سے جارہا ہے اور اب اُس کی توجّہ کا مرکز جنوب مشرقی ایشیا ہوگا۔‘‘ 

اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے، تو یہ ایک قسم کی واپسی تھی، کیوں کہ پہلی عالمی جنگ سے پہلے امریکا زیادہ تر یہیں مصروف رہا اور اُس نے باقی دنیا یورپ کے لیے چھوڑ رکھی تھی۔پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ ستّر سالوں میں ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقّی اور گلوبلائزیشن نے اِس خطّے کو دنیا کے ساتھ اِس طرح جوڑا، جیسا پہلے کبھی نہیں تھا۔

وگرنہ ماضی میں تو مارکو پولو کی کہانیوں ہی سے چین، ملائیشیا اور انڈونیشیا سے متعلق معلومات حاصل ہوتی تھیں۔ ویسے مارکو پولو کی کہانیوں سے یورپ اور دنیا نے یہ بھی جانا کہ ہزاروں سال پہلے بھی چین ایک مستحکم اور خوش حال مُلک تھا، جہاں کی سب سے بڑی خُوبی اُس کے حُکم رانوں اور عوام کی پُرامن پالیسی تھی۔ اُس زمانے میں یورپ کی ریاستیں ہر وقت جنگ وجدل میں مصروف رہتیں۔

امریکا کا دنیا کے نقشے پر ظہور پونے تین سو سال قبل ہوا، لیکن اسے قوّت حاصل کرنے اور سُپر پاور بننے میں مزید ایک سو سال لگے، خاص طور پر جب یورپی طاقتیں زوال پذیر ہوئیں، تو اسے عروج حاصل ہونے لگا۔ یورپی تارکینِ وطن امریکا اور کینیڈا کو اپنا گھر بنانے لگے۔ پیسیفک وار کے بعد یہ خطّہ امریکا کے لیے اہم ہوا، اِسی لیے اُس نے جاپان پر ایٹم بم پھینکا۔ کوریا کی جنگیں لڑنے اور ویت نام سے پسپائی کے باوجود اس نے ہر مُلک کو اپنا اتحادی بنایا اور آج وہ اس ڈپلومیسی کا پھل کھا رہا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اکتوبر کے دورے میں اپنے اہم اتحادیوں سے ملاقاتیں کیں اور بہت سے معاہدے کیے، لیکن سب سے اہم ملاقات چین کے صدر شی جن پنگ سے رہی، جسے گھیرنے کے لیے امریکا خطّے کے ممالک کو تیار کر رہا ہے۔ جس تیزی سے’’چائنا رائز‘‘ ہوا، اُس نے امریکا کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کہیں اِس علاقے میں اُس کی برتری خطرے میں نہ پڑ جائے۔ چین اور امریکا کے درمیان تجارت کا حجم دنیا میں سب سے زیادہ، تقریباً 850بلین ڈالرز ہے، لیکن امریکی صدور کے لیے پریشانی کی بات یہ رہی کہ یہ تجارت چین کے حق میں اور امریکا کے خسارے میں ہے۔ 

صدر ٹرمپ کا فوکس امریکا کی اقتصادی قوّت میں اضافہ ہے، چاہے اس سے دوست یا دشمن ناراض ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ جب اپنی پہلی الیکشن مہم چلا رہے تھے، اُسی وقت اُنہوں نے کہا تھا کہ’’چین نے امریکا کی انڈسٹری اور ایکسپورٹ کو غیر معمولی نقصان پہنچایا ہے، خاص طور پر امریکیوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہوئے۔‘‘ ٹرمپ کی پہلی ٹرم سے لے کر اِس بار کی ملاقات تک، یہی معاملہ دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان گفتگو کا محور رہا۔ ٹرمپ نے دوسری بار اقتدار میں آتے ہی چین پر پچاس فی صد ٹیرف عاید کیا، جس کا چین نے برابر کا جواب دیا۔تاہم، اب اِس ٹیرف میں کمی بھی ہو رہی ہے۔ 

اِسی سے مشروط ایک معاملہ نایاب معدنیات کا بھی ہے، جس پر ترقّی کی رفتار کا دارومدار ہے۔ اندازوں کے مطابق اِن معدنیات کا سب سے بڑا ذخیرہ چین کی زمینوں کے نیچے ہے۔ امریکی ٹیرف کے بعد صدر شی جن پنگ نے معدنیات پر سخت پابندیاں عاید کردیں، جو ظاہر ہے، امریکا کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔

اِسی لیے صدر ٹرمپ اُن ممالک کے دَورے کو ترجیح دیتے ہیں، جہاں سے امریکا نایاب معدنی وسائل حاصل کر سکے، جو اُس کی معیشت کے لیے ضروری ہیں۔جنوب مشرقی ایشیا کے دورے میں جہاں صدر ٹرمپ نے چین، امریکی فوجی برتری اور اتحادیوں کے سیکیوریٹی معاملات پر بات کی، وہیں جہاں ممکن ہوا، معدنیات کے معاہدے بھی کیے۔

جنوب مشرقی ایشیا یا انڈوپیسیفک میں چین سے لے کر شمالی کوریا تک کے ممالک شامل ہیں۔بیسویں صدی کے آغاز سے اِس خطّے کے ممالک نے غیر معمولی عزم کا مظاہرہ کیا اور ترقّی کی راہ پر گام زن ہوئے، جب کہ اِس سے پہلے یہ مچھیروں کے گائوں تھے۔ ترقّی کی یہ داستان دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان کی ترقی سے شروع ہوئی، جس میں امریکی ٹیکنالوجی کا بنیادی کردار رہا۔

پہلے جاپان اور پھر چین مثالی ترقّی کرتے ہوئے دنیا کی دوسری، تیسری بڑی اکانومی بنے۔ جنوبی کوریا سے سنگاپور تک معیشت کی اوّلیت کا نظریہ اپنایا گیا، اِسی لیے بہت کم قدرتی وسائل ہونے کے باوجود، وہاں کے لوگوں نے ٹیکنالوجی کے زبردست استعمال سے معاشی عجوبے دِکھائے۔ اِس خطّے کو اقتصادی ویژن رکھنے والے رہنما میسّر آئے، جنہوں نے اپنے عوام کو سمجھایا کہ دنیا میں عزّت، مضبوط معیشت ہی سے ہے۔

اِن ممالک کو’’ایشین ٹائیگرز‘‘ جیسے القاب ملے۔ ایشین ٹائیگر کی اصطلاح پاکستان میں بہت استعمال کی جاتی ہے، لیکن ہم اس کے قریب تک نہیں پہنچ سکے، کیوں کہ ہمارے ہاں ایسی کوئی خواہش ہے، نہ نظریہ اور نہ ہی عزم۔ انڈوپیسیفک ممالک فوجی قوّت کو ثانوی مانتے ہیں، جب کہ ہم اسے اوّلیت دیتے ہیں۔اِسی طرح مشرقِ وسطیٰ اپنے تیل کی بے پناہ دولت کے باوجود انڈوپیسیفک کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہوسکا۔

وجہ ایک ہی نظر آتی ہے کہ جاپان، چین اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک نے یہ سبق سیکھا کہ جنگ تباہی ہے۔ فوجی طاقت ایک سراب ہے اور اصل قوّت، عوام کی خوش حالی اور اُن کے معیارِ زندگی کی بلندی ہے۔ ہمارے ہاں اِس طرح کی مثالیں تو دی جا سکتی ہیں، مگر اُن جیسا بننا مشکل ہے، کیوں کہ ہماری لیڈر شپ بڑے فیصلوں کے لیے تیار ہے اور نہ ہی عوام کا ایسا کوئی موڈ ہے۔

وہ زیادہ سے زیادہ بھاگ کر کسی ترقّی یافتہ مُلک میں پناہ لے لیتے ہیں اور اسی کو خوش گوار زندگی کا حاصل سمجھ لیتے ہیں، خود کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ جب تک ہم معیشت کو تنازعات پر ترجیح نہیں دیں گے، اِسی طرح روتے پیٹتے اور رہنماؤں کو کوستے رہیں گے۔ حالات سنبھلیں گے اور نہ کوئی تبدیلی آئے گی۔

تبدیلی عمل کا نام ہے، بیانیے کا نہیں اور اس کی شہ رگ، ٹیکنالوجی ہے۔ ہمارے بعد یا ساتھ آزاد ہونے والا انڈوپیسیفک کا یہ خطّہ، آج معاشی طاقت ہے۔ بھارت نے مَن موہن سنگھ کی قیادت میں اِسی نظریے کو اپنایا، اِسی لیے آج اُس کی ترقّی کی رفتار بہت تیز ہے۔ بنگلا دیش کی ترقّی کی مثالیں تو کچھ برس پہلے تک یہاں عام تھیں۔

لفظ ’’PIVOT‘‘امریکی پالیسی میں پہلی بار2011 ء میں اوباما کے دَور میں استعال ہوا، جب امریکا نے اعلان کیا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا سے جا رہا ہے اور اب اُس کی توجّہ کا مرکز انڈوپیسیفک ہوگا۔ دیکھا جائے تو یہ امریکا ہی کا علاقہ ہے۔ نیز، یہاں کے ممالک تیز رفتار ترقّی حاصل کرچُکے ہیں یا کر رہے ہیں، جو امریکا کے معاون بھی ہیں۔ 

نیز، یہاں جاپان بھی ہے، جو امریکا کا سب سے قریبی اور طاقت وَر اتحادی ہے اور چوتھی بات یہ کہ دنیا کے دو بڑے سمندروں کا یہاں ملاپ ہوتا ہے، جس سے تجارت پَھلتی پُھولتی ہے۔ یہ پھیلاؤ چین، آسٹریلیا اور جنوبی امریکا تک جاتا ہے اور یہی سمندری راستے اسے ایشیا، افریقا اور مشرقِ وسطیٰ سے ملاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، امریکا میں تیل کی دریافت نے مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی اہمیت کم کردی ہے۔ 

بحرِ ہند اور بحر الکاہل، جہاں سے عالمی تجارت کا چالیس فی صد مال گزرتا ہے، انڈوپیسیفک ہی میں ہیں۔ امریکا کے مشہور سات فلیٹس، جو اس کی فوجی برتری قائم کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، اِنہی سمندروں میں گشت کرتے اور تجارتی راہ داریاں کُھلی رکھتے ہیں۔ یہ بات مستند سمجھی گئی ہے کہ جو سمندروں پر حاوی ہے، وہی دنیا پر راج کرتا ہے۔

سو سال قبل برطانیہ کو یہ کنٹرول حاصل تھا اور آج امریکا کے پاس ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی طاقت چین کو، جو امریکا کے لیے چیلنج بن چُکی ہے، محدود کرنے کے لیے انڈو پیسیفک پر برتری ضروری ہے۔ مشرقی حصّے کے الگ ہونے سے پہلے پاکستان بھی جنوب مشرقی ایشیا کا شراکت دار تھا۔ وہ علاقائی معاہدے’’سیٹو‘‘ کا رُکن رہا، جس کا ہیڈکوارٹر بینکاک میں تھا، لیکن71 ء کے بعد اس کا یہ کردار ختم ہو گیا اور وہ جنوبی ایشیا تک رہ گیا۔شاید اب ہمارے عوام اور رہنماؤں کو اِس پر تاسف ہوتا ہو…!!

جنوبی کوریا میں صدر ٹرمپ اور صدر شی جن پنگ کی اہم ملاقات ہوئی، جس کا محور عالمی اقتصادی معاملات تھے۔ چین پر لگائے گئے ٹیرف اور تائیوان جیسے مسائل کے باوجود دونوں ممالک نے بات چیت ہی کو ترجیح دی۔ شی جن پنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ، دونوں کا شمار قوم پرست رہنماؤں میں ہوتا ہے، تاہم یہ امر قابلِ غور ہے کہ اختلافات کے باوجود وہ خطّے میں جنگ نہیں ہونے دیتے۔

جب کہ مشرقِ وسطیٰ، مغربی یا جنوبی ایشیا کے جذباتی لوگ ہر وقت کسی نہ کسی جنگ میں مبتلا رہتے ہیں اور اپنے وسائل تنازعات ہی میں جھونک رہے ہیں۔ شاید یہی عظیم اور چھوٹی قوموں میں فرق ہوتا ہے کہ چھوٹی قومیں اپنے خول سے باہر نہیں نکل پاتیں، جب کہ بڑی قومیں اپنے عوام اور مُلک کو ترجیح دیتی ہیں۔ 

بہرکیف، شی جن پنگ، ٹرمپ ملاقات کے بعد چین پر عاید ٹیرف میں دس فی صد کمی کردی گئی۔جواباً چین نے کہا کہ وہ معدنیات پر کنٹرول میں نرمی لائے گا۔یوکرین جنگ اور مشرقِ وسطیٰ میں امن معاہدہ بھی اس بات چیت کا موضوع رہے۔مجموعی طور پر تو اس میٹنگ میں کوئی بڑا’’ بریک تھرو‘‘ نہیں ہوا، لیکن خطّے کو پُرامن رکھنے پر اتفاق بھی چھوٹی کام یابی نہیں۔

ٹرمپ نے جاپان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم سے بھی ملاقات کی۔تکاشاکی، سابق وزیرِ اعظم شنزو ایبے کی قریبی ساتھی ہیں اور اُن ہی کی طرح کے قوم پرست نظریات رکھتی ہیں۔ یاد رہے، شنزو ایبے نے جاپان کے آئین میں ترمیم کرکے اس کا غیر فوجی کردار ختم کردیا تھا۔آج جاپان فوج رکھنے پر راضی ہے اور خواہش مند بھی، جب کہ اس کے پاس فوج رکھنے کی صلاحیت بھی ہے۔ 

تکاشاکی جاپان کو پھر سے ایک بڑی فوجی قوّت بنانا چاہتی ہیں اور امریکا اُن کی حوصلہ افزائی کررہا ہے، حالاں کہ امریکا ہی نے اس پر فوج رکھنے پر پابندی عاید کی تھی۔ امریکی صدر اور جاپانی وزیرِ اعظم نے’’ نئے سنہرے دَور‘‘ نامی ایک معاہدے پر دست خط کیے، جو خطّے کے دو بڑے اتحادیوں کے درمیان تعلقات کی تجدید تھی، وہیں تعاون کی نئی راہیں کھولنے کا عزم بھی۔

واضح رہے، چین کو جاپان کے فوجی کردار پر شدید تحفّظات ہیں، کیوں کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے جاپان کا اُس پر قبضہ تھا اور امریکا کی جانب سے ایٹم بم گرائے جانے کے بعد چین کو جاپان سے آزادی ملی تھی۔ تاہم، اس کے باوجود دونوں ترقّی یافتہ ممالک میں تجارتی حجم علاقے میں سب سے زیادہ ہے۔

ملائیشیا میں صدر ٹرمپ نے آسیان کے اجلاس میں شرکت کی۔آسیان ممالک دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہیں اور یہ ممالک امریکا کی ترقّی کے لیے بہت اہم ہیں، کیوں کہ یہ نایاب معدنیات سے مالا مال ہیں۔ اِسی لیے ملائیشیا سے اِس سلسلے میں ایک جامع معاہدہ ہوا۔ امریکا اور آسیان ممالک کی باہمی تجارت500 بلین ڈالرز سے زیادہ ہے۔

ویت نام اور انڈونیشیا امریکی دفاعی حکمتِ عملی میں بہت اہم ہیں کہ اِنہی ممالک سے قریبی دوستی کی وجہ سے امریکی فلیٹ ،بحیرۂ چین میں آزادانہ گشت کرتا ہے، جسے وہ اپنے اور اتحادیوں کے دفاع کے لیے بہت اہم مانتا ہے۔ اسے’’چائنا پلس وَن پالیسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اِسی علاقے میں امریکا نے کواڈ فورم لانچ کیا، جس میں آسٹریلیا اور بھارت بھی شامل ہیں۔یہ فورم بنیادی طور پر چین کو محدود کرنے کے لیے بنایا گیا ہے اور اسی کے تحت آسٹریلیا وہ پہلا غیر ایٹمی مُلک ہے، جسے ایٹمی آب دوزیں فراہم کی گئیں۔

ملائیشیا میں ٹرمپ نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان امن معاہدے کی تقریب میں بھی شرکت کی اور اسے اپنے عالمی امن قائم کرنے کی پالیسی کا ایک اہم حصّہ بتایا۔ اُنھوں نے جنوبی کوریا سے بھی امریکا میں 360بلین ڈالرز سرمایہ کاری کے معاہدے کیے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے دورے میں کوشش کی کہ چین سے تجارت میں توازن کی تلاش بڑھائی جائے اور ساتھ ہی اپنے ترقّی یافتہ اتحادیوں کو امریکی تعاون کے تسلسل کا یقین دلایا، جو اِس لیے بھی اہم تھا کہ اُن کے پہلے آٹھ ماہ میں زیادہ تر توجّہ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ پر رہی۔

سنڈے میگزین سے مزید