طالبان کی عبوری حکومت کو قائم ہوئے تین سال سے زیادہ عرصہ ہوچُکا ہے۔ اِس دوران پاک، افغان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا، حالاں کہ یہاں سوچ پائی جاتی تھی کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے ہماری مغربی سرحد محفوظ ہوجائے گی۔
دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ وہ دہشت گرد گروپس ہیں، جنہیں طالبان حکومت نے نہ صرف پناہ دے رکھی ہے، بلکہ اُنہیں یہ چُھوٹ بھی حاصل ہے کہ جب چاہیں، پاکستان میں داخل ہوکر دہشت گردی کی وارداتیں کریں، جن میں فوجی جوان و افسران کے ساتھ، معصوم شہری بھی شہید ہو رہے ہیں۔ شاید ہی کوئی سفارتی رابطہ ہو، جس کے ذریعے پاکستان نے طالبان حکومت کو وارننگ نہ دی ہو کہ اپنی سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال روکنا اُس کی ذمّے داری ہے۔
پاکستان کے جو احسانات ہیں، کم ازکم اُن ہی کا لحاظ کر لیا جائے، پھر یہ کہ طالبان حکومت نے تین سال قبل دوحا معاہدے میں دنیا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ کسی صُورت اپنی سرزمین دہشت گردی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی۔اِسی وعدے کے بعد امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا ممکن ہوا۔دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے کِن مشکلات کو عبور کر کے وہ سہولت کاری کی، جس کے نتیجے میں دوحا مذاکرات کام یاب ہوپائے۔
اب طالبان حکومت اگر پاکستان کا لحاظ نہیں کرتی، تو اپنے وعدے تو پورے کرے۔ ان افغانوں کو پچاس سال سے ہمارے ہاں ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ ہمارے ذہنوں میں رچ بس گیا کہ افغان بادشاہ اور سپاہی کوئی مافوق الفطرت لوگ تھے اور اُن کی یہ نسلیں ناقابلِ تسخیر ہیں۔ قومی طاقت، مار دھاڑ یا دہشت گردی کا نام نہیں، بلکہ مضبوط معیشت اور ٹیکنالوجی کا امتزاج ہے۔
یہ قصّے کہانیاں بھی عروج پر رہیں کہ افغان عوام کے پاس کوئی ایسا جادو یا طاقت ہے، جس کے ذریعے وہ ہر حملہ آور کو شکست دے دیتے ہیں، حالاں کہ تاریخ میں وہ علاقہ کئی بار بیرونی حُکم رانوں کے زیرِ تسلّط رہا ہے۔ افغان طالبان نے جن حالات میں عبوری حکومت سنبھالی، اُس کے بعد تو ہوش مند قیادت اپنے عوام کے حالات بہتر بنانے پر توجّہ دیتی، لیکن یوں لگتا ہے کہ اب بھی اُن کے ذہن نہیں بدلے یا ان میں سرے سے حُکم رانی کی اہلیت ہی نہیں ہے اور وہ ابھی تک ملیشیا اسٹیٹس سے نہیں نکل پائے۔
پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے درمیان گزشتہ ماہ ہونے والی جھڑپیں انتہائی شدید تھیں اور جیسا کہ ہم نے بتایا، اس کی وجہ وہ دہشت گردی ہے، جو افغان سرزمین سے کالعدم تحریک طالبان، داعش یا دیگر انتہا پسند گروپ پاکستان میں داخل ہو کر کرتے ہیں۔ اِن گروپس کو درست طور پر’’فتنۃ الخوارج‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جنہیں اِس دہشت گردی میں بھارت کی پُشت پناہی اور مکمل حمایت حاصل ہے۔
اِس مرتبہ پاکستان نے افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمتِ عملی تبدیل کی ہے۔ پہلے یہ دہشت گرد پاکستان آتے اور یہاں دہشت گردی کرکے افغانستان فرار ہوجاتے، لیکن اب پاکستان نے افغان سرزمین پر ان گروپس کو ٹارگٹ کیا۔ افغانستان میں کیا جانے والا آپریشن ٹارگٹڈ تھا اور صرف دہشت گردوں کے اڈّوں اور ان کے سہولت کاروں کو نشانہ بنایا گیا، جب کہ افغان شہری مکمل طور پر محفوظ رہے۔ مئی کے مہینے میں پاکستان اور بھارت کے مابین چار روزہ جنگ ہوئی، جس میں پاکستان نے اپنی برتری ثابت کردی۔
اس کے بعد سے بھارت کی کوشش رہی کہ پاکستان کو زک پہنچائے۔ اس کی ایک بڑی شکل اُس وقت سامنے آئی، جب طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ نے بھارت کا ایک ہفتے کا طویل دورہ کیا۔ وہاں کی قیادت سے گرم جوشی سے ملے اور سفارت خانے قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کے خلاف بیانات دیئے گئے، یہاں تک کہ کشمیر کو بھارت کا حصّہ بھی قرار دے ڈالا۔ پاک، افغان جھڑپیں طالبان وزیرِ خارجہ کے بھارت میں قیام کے دوران ہوئیں۔
بھارت نے طالبان کو بے وقوف بنا کر اُسے اپنے سب سے بڑے محسن کے خلاف کرنے کی کوشش کی، طالبان بے قوف کیوں اور کیسے بنے، یہ تو آگے چل کر پتا چلے گا کہ بھارت اس میں کہاں تک کام یاب رہا، کیوں کہ تاریخی طور پر افغان قوم کا ریکارڈ وفاداری اور دوستی نبھانے میں بہت کم زور ہے۔
شاید ہی اُن کے کسی بادشاہ نے بہادری یا برادری کو ترجیح دی ہو، ہمیشہ ذاتی مفادات ہی کو اوّلیت حاصل رہی ہے۔ حالیہ واقعات دیکھ لیں۔ پاکستان نے ستّر لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ افغانستان کی سابقہ اور موجودہ قیادت یہاں رہی، لیکن جب آزمائش کا وقت آیا، تو بھارت کی پراکسی بننے میں ذرا دیر نہ کی۔ یہ ہے اُن کا قومی کردار۔اِس وقت بھارت کی وہاں تقریباً بارہ فی صد سرمایہ کاری ہے۔بھارت،افغان تعلقات سے متعلق کچھ امور ذہن میں رہنے ضروری ہیں۔
افغانستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ بہت اچھے رہے ہیں۔ظاہر شاہ کے زمانے میں تو یہ پاکستان مخالف تھے اور روسی کمیونسٹ بلاک کا حصّہ۔ پھر اچانک روس سے جنگ کر لی۔ پاکستان سمجھا کہ بڑا موقع ہاتھ لگ گیا ہے، سو، اس جنگ میں کود پڑا، جب کہ روس کے خلاف جنگ میں بھارت غیرجانب دار رہا، کیوں کہ وہ افغان مزاج اور سیاست کو اچھی طرح جانتا ہے۔ امریکا کے زیرِ اثر حکومتوں سے بھی بھارت کے اچھے تعلقات رہے، جیسے کرزئی اور غنی ادوار میں دونوں ممالک کے درمیان قربتیں بڑھیں۔
قریبی تعلقات کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت، افغانستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا مُلک ہے۔ ڈیمز اور سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ، وہاں کی پولیس اور بیوروکریسی کو تربیت بھی دے رہا ہے۔ چابہار بندرگاہ کے سہ طرفہ معاہدے پر مودی، کرزئی اور حسن روحانی نے دس سال قبل دست خط کیے تھے، جو علاقے کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہے۔ یہ ایک تو بھارت کو خلیجِ عرب میں رسائی فراہم کرتا ہے، دوم اس کے ذریعے بھارتی مال افغانستان اور وسط ایشیا تک پہنچتا ہے۔
یہ گوادر پورٹ کے مقابل ہے، جو سی پیک کا پراجیکٹ ہے۔ اِس لیے یہ کہنا کہ بھارت نے اچانک افغان طالبان سے تعلقات قائم کیے، درست بات نہیں ہے، ہاں یہ بات اپنی جگہ ہے کہ وہ ماضی میں الزام لگاتا رہا کہ افغان گروپس کشمیر اور بھارت میں پاکستان کی شہ پر کارروائیاں کرتے ہیں۔ اب پھر بھارت طالبان سے اپنے تعلقات ری سیٹ کر رہا ہے۔
روس نے بھی حال ہی میں طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی مشن قائم کیے ہیں، جب کہ چین کے بھی افغانستان سے تعلقات ہیں۔ یہ ساری تبدیلیاں علاقے میں ہوتی رہیں اور ایسا ممکن نہیں کہ پاکستانی قیادت اس سے بے خبر ہو۔ پاکستانی ڈپٹی وزیرِ اعظم افغانستان کا دورہ کرچُکے ہیں، جب کہ اس سے قبل بڑے بڑے حکّام وہاں جاتے رہے اور وکٹری کا نشان بنا کر بتاتے رہے کہ’’سب ٹھیک ہے، معاملات ہمارے کنٹرول میں ہیں۔‘‘
افغانستان چار کروڑ آبادی کا ایک لینڈ لاکڈ مُلک ہے۔ پاکستان اور اس کے درمیان 2500کلو میٹر طویل سرحد ہے، جس پر پاکستان نے امریکی قبضے کے دَوران باڑ لگائی۔ یہ باڑ کتنی مؤثر ہے، اس پر تو فوجی ماہرین ہی تبصرہ کر سکتے ہیں، لیکن گزشتہ مہینوں میں افغان سرزمین سے جس قسم کی دہشت گردی ہوتی رہی، وہ بہت سے سوالات جنم دیتی ہے۔ افغانستان میں کابل کے علاوہ کوئی جدید شہر نظر نہیں آتا، جب کہ حکومت نام کی شاید ہی کوئی چیز وہاں ہے، اِسی لیے ابھی تک دنیا کے کسی بھی مُلک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔
روس، بھارت، پاکستان اور سعودی عرب سے ان کے غیر رسمی سفارتی تعلقات ہیں۔ افغانستان کا زیادہ تر تجارتی سامان پاکستان کی کراچی بندرگاہ سے جاتا ہے، جب کہ بھارتی مال واہگہ بارڈر سے، جس پر پاکستان نے پابندی عاید کر دی ہے۔ اِس پر بھارت نے چا بہار پورٹ سے سڑک بنا کر اپنا مال افغانستان تک پہنچانے کی کوشش کی۔یاد رہے پاکستان، افغانستان کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔
عمران خان2021ء میں تین ماہ میں دو مرتبہ صدر ٹرمپ سے ملے، جس کا واحد مقصد دوحا مذاکرات میں سہولت کاری تھی۔ بہت سے افغان رہنماؤں کو پاکستان سے دوحا بھیجا۔ طالبان کے کابل پر قبضے کا جشن پاکستان میں بھی منایا گیا۔تاہم، جب وہاں سے ہونے والی دہشت گردی نے پاکستان کے صبر کا پیمانہ لب ریز کردیا، تو پھر بھرپور جواب دیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ تین افغان مہاجر نسلیں یہاں پلی، بڑھیں، تو یہ پاکستانی قوم کی مہربانی اور احسان ہے یا ان کا قصور۔سب کو افغان مہاجرین پر رحم آتا ہے، لیکن پاکستانی قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کو کوئی تیار نہیں، جس نے اِس میزبانی کے بدترین نتائج بُھگتے اور اب بھی دہشت گردی کی صُورت نقصانات برداشت کرنے پر مجبور ہے۔
اب ایک اور دوحا معاہدہ ہوا ہے، جس کے بعد پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے درمیان سیز فائر ہوگیا۔ اِس مذاکراتی عمل میں قطر اور تُرکیہ بھی شامل رہے۔ یہی وہ دونوں مسلم ممالک ہیں، جو مشرقِ وسطیٰ کے معاہدوں میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان سے اِن دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات ہیں، جب کہ افغان طالبان بھی اُن کی بات سُننے پر مجبور ہیں۔
جیسا کہ ہم نے بتایا، اِس مرتبہ پاکستان نے زیرو ٹالرینس کی پالیسی اختیار کی اور افغان دہشت گروپس کو اُسی مُلک میں نشانہ بنایا، جہاں اُن کے ٹھکانے ہیں۔ دنیا بھر، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں ملیشیاز کے خلاف یہی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔
بدقسمتی سے مسلم دنیا میں پراکسیز کا کردار بہت اہم رہا ہے، لیکن غالباً اب دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ان کی وجہ سے علاقے اور مُلک عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں ایک حد میں رکھنا مشکل تر ہو رہا تھا، کیوں کہ مذہبی اور نظریاتی جذبوں کی وجہ سے پبلک سپورٹ بھی انہیں ملتی ہے، پھر سوشل میڈیا جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔
اِسی لیے مسلّح گروہوں کو اب غیر مؤثر کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اُن ممالک میں سرِفہرست ہے، جنہوں نے پہلی اور دوسری افغان وار کے فال آئوٹ سے بڑے گہرے زخم کھائے۔پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا، تو دوسری طرف ہزاروں افراد کی لاشیں بھی اُٹھانی پڑیں۔ امن تباہ ہوگیا، سرمایہ کاری ختم ہوگئی اور مُلک سیاسی و نظریاتی تقسیم سے دوچار ہوگیا۔ پاکستان نے افغان طالبان کو بتادیا کہ اب معاملات ناقابلِ برداشت ہیں۔عام شہری پوچھ رہا ہے کہ اِتنی طاقت رکھنے کے بعد بھی ایک ایٹمی مُلک اِتنا بے بس کیوں ہے۔
غزہ اور دوسرے علاقوں میں قیامِ امن کے لیے سرگرم ہیں، مگر اپنے مُلک میں دہشت گرد دندناتے پِھر رہے ہیں۔ اِسی لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے افغان طالبان کو خبردار کیا کہ اِن دہشت گرد گروپس کو لگام دیں۔ لیکن بہرحال، ہر فوجی کارروائی کا اختتام سفارت کاری ہی سے ہوتا ہے، لہٰذا دوحا مذاکرات اپنی حد تک ٹھیک ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ افغان حکومت، جو جہاد کی داعی اور اسلامی نظام کی پیروکار ہے، ہندوتوا کے علم برادر، مودی سے کیوں گلے مل رہے ہیں۔
وہ مذہب یا نظریہ کہاں گیا، جو انہیں پاکستان کی سرزمین پر نظر نہیں آتا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان تو پچاس سال سے اُن کے جہادی نظریے کی خاطر الزامات کا سامنا کر رہا ہے اور وہ انتہاپسند ہندو حکومت سے گلے مل رہے ہیں۔ روس، چین اور بھارت تو اُن کے عزیز ٹھہرے، جب کہ مسلم مُلک پاکستان دشمن۔
ویسے کیا کبھی ہمارے پالیسی سازوں نے بھی اپنے آپ سے یہ سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا۔ دہلی میں خواتین صحافیوں کو پریس کانفرنس میں نہ بُلانے پر افغان وزیرِ خارجہ نے دوسرے ہی دن معذرت کرلی اور خواتین صحافیوں کے لیے پریس کانفرنس بھی کردی، حالاں کہ اپنے مُلک میں تو لڑکیوں کو اسکولز تک جانے نہیں دیتے اور بھارت میں یہ آزادی قبول ہے۔ کیا یہی اسلامی نظام طالبان لا رہے ہیں اور ان کی پراکسیز اسی سوچ کی پیروکار ہیں؟