• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر مملکت آصف علی زرداری نے گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن (NFC) کی تشکیل نو کردی اور وزارت خزانہ نے نومبر 2025ء کے دوران اس آئینی فورم کا اجلاس طلب کرنے کیلئے صوبوں سے باقاعدہ مشاورت کرلی ہے جسکے نتیجے میں رسمی اجلاس بلایا جاسکتا ہے۔ ملک کے اندر سیاسی اور معاشی وسائل کی تقسیم سلگتا ہوا ایشو ہے جسکے سیاسی مضمرات بھی سامنے آسکتے ہیں۔ ملک کے اندر 27ویں آئینی ترمیم کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے اور اس بات کا عندیہ دیا جا رہا ہے کہ اگر گیارہویں قومی مالیاتی کمیشن وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہا تو وسائل کی تقسیم کا فارمولہ ٹھونسنے کی حکمت عملی کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے اس تناظر میں نئے قومی مالیاتی کمیشن کی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ساتویں قومی مالیاتی کمیشن کے تحت مرکز اور صوبوں کے درمیان مالی سال 11-2010ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق رائے ہوا جس کے تحت صوبوں کے حصہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور مرکز کے شیئر میں کمی واقع ہوئی۔ اس مالیاتی ایوارڈ میں وسائل کی تقسیم کو تبدیل کر کے مرکز کا حصہ کم جبکہ صوبوں کے حصہ کو بڑھا دیا گیا۔ عملی طور صوبوں کا حصہ مالیاتی وسائل میں 60فیصد کر دیا گیا۔ گزشتہ 15 سال کے دوران این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق رائے قائم نہیں کیا جا سکا۔ وزارت خزانہ نے پہلے رسمی اجلاس کیلئے حکمت عملی مرتب کرلی ہے اوراس امر کا جائزہ بھی لیا گیا ہے کہ ساتویںNFCایوارڈ کے نتیجےمیں گزشتہ 15 سال میں قومی قرضے میں اضافہ ہوا ہے جس کی ایک وجہ NFC ایوارڈ کے تحت صوبوں کے حصے میں اضافہ ہے۔ معاشی امور کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرضہ لینا بری بات نہیں اگر اسکا استعمال شرح نمو میں اضافے کا باعث بنے لیکن اگر قرضہ اللوں تللوں اور عیاشیوں پر خرچ کر دیا جائے تو یہ بوجھ آئندہ آنیوالی نسلوں پر منتقل ہو جاتا ہے۔

جاپان کا قرض اسکے GDP کا 200 فیصد ہے جبکہ پاکستان کا قرضہ اس کے GDP کے تناسب سے 75 فیصد کے قریب ہے لیکن اگر قرضے کو مرکز کی خالص آمدن کے تناسب سے دیکھا جائے تو مالی سال 2023ء کےا ندر 120فیصد پر پہنچ گیا تھا۔ موجودہ مالی سال 2025-26ء کے دوران اس کا تخمینہ 85فیصد تک ہے یہ تخمینہ اس امرکی دلیل ہے کہ مرکز کے پاس اگر 100 روپے موجود ہیں تو 85 روپے صرف قرضوں کی مد میں سود اور اصل رقم کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتے ہیں اور بقایا 15 روپے کے اندر دفاع، ترقیاتی کام، حکومت چلانے کیلئے درکار وسائل،سبسڈی، تنخواہیں ، پنشن اور گرانٹس کیلئے حکومت کو مزید قرض لینے پڑتے ہیں۔

اس گھمبیر صورتحال سے نکلنے کیلئے آمدنی میں اضافہ اور غیر ضروری اخراجات میں کمی کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ گیارہویں NFC کو مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر اتفاق پیدا کرنا پڑئیگا اس کے ساتھ ساتھ صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے بنیادی فارمولے کو بھی طے کرنا ہو گا۔ موجودہ فارمولے کے تحت صوبوں کے درمیان 82 فیصد وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور 10 فیصد غربت اور پسماندگی ریونیو جنریشن کی بنیاد پر 5 فیصد اور علاقہ کی بنیاد پر 7 فیصد وسائل مہیا کئے جاتے ہیں۔صوبہ پنجاب کا حصہ سب سے زیادہ ہے ان حقائق کی روشنی میں نئے NFC ایوارڈ کیلئے کوششیں جاری ہیں جسکے اندر اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ محدود وسائل کو کیسے معاشی سرگرمیوں میں اضافے کیلئے استعمال کیا جاسکتاہے ۔ ضروری ہے کہ وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر تحقیق کیلئے ایک مستقل ادارہ قائم کیا جائے جسکے تحت دنیا کے مختلف ممالک میں وسائل کی تقسیم کودیکھتے ہوئے پاکستان کے زمینی حقائق کی روشنی میں کوئی حل تلاش کیا جا ئے۔

اس وقت صوبوں کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں لیکن وہ صوبوں کے اندر ضلعوں اور تحصیل کی سطح پر وسائل کی تقسیم کے فارمولہ PFC پر خاطر خواہ کام نہیں کر رہے اس سے NFC کے مینڈیٹ میں اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ صوبوں کو کیسے PFC پر عمل درآمد کا پابند کیا جائے اس باب میںمؤثر مقامی حکومتوں کا قیام اور اسکے انتخابات بھی ضروری ہیں۔جب تک صوبے اپنے اختیارات ضلعی اور تحصیل کی سطح پر منتقل نہیں کرتے اس وقت تک وسائل کے موثر استعمال اور گڈ گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ساتویں NFC کے تحت یہ ہدف رکھا گیا تھا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 15 فیصد تک پانچ سال کے اندر لایا جائے گا لیکن پندرہ سال کے بعد FBR کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی صرف 32فیصد پر کھڑا ہے۔ اسکا موجودہ سال کا ہدف 11 فیصد کا حصول ہے مرکز کی مالی مشکلات میں کمی وسائل کو بڑھا کر کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف اٹھارہویں ترمیم کے تحت جو وزارتیں اور محکمہ جات صوبوں کو منتقل کئے گئے تھے آج بھی مرکزکے اندر وہ وزارتیں اور محکمے موجود ہیں جسکی وجہ سے اخراجات میں کمی نہیں ہو سکی اسکے ساتھ ساتھ 1973 کے آئین کے مطابق صوبوں کے اختیارات میں خدمات پر GST ، رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس، زرعی انکم ٹیکس اور ایکسائز ٹیکس صوبوں کے اختیارات میں مرکز سے حاصل کئے گئے وسائل صوبوں کو دینے کے ساتھ اس بات پر قائل کیا جائے کہ ان کو وسائل صرف اسی بنیاد پر دئیے جائیں گے کہ اگر وہ خود بھی اپنے محاصل کے اندر اسی تناسب سے اضافہ کر سکیں تاکہ وہ آسان آمدن ( Easy money) اور اسکے خرچ پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے وسائل پیدا کرنے پر بھی توجہ مرکوز کر سکیں۔

تازہ ترین