گزشتہ دنوںہونے والی اسلام آباد میں دو روزہ ریجنل ٹرانسپورٹ منسٹرز کانفرنس کے انعقاد کا وقت اور کانفرنس میں شریک ملکوں کی 20سے زیادہ تعداد دونوں اہمیت کے حامل ہیں ۔ علاقائی ملکوں کی سفارشات اور تجاویز سامنے آنے میں وقت لگ سکتا ہے مگر وزیراعظم شہباز شریف کا اختتامی اجلاس سے خطاب واضح کررہا ہے کہ چائنہ پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) کا دوسرا مرحلہ دراصل اس قدیم شاہراہ ریشم کی فعالیت کی صورت میں سامنے آرہا ہے جو پہلے بھی خطے کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی اور اب ایسی سہولتوں کے ساتھ سامنے آرہی ہے جس میں تجارتی مال کے آمد و رفت کے وقت اور فاصلے سکڑ رہے ہیں لاگت کم ہورہی ہے اور تحفظ کا احساس فزوں تر ہے۔ ایک علاقائی کانفرنس میں 20سے زیادہ ملکوں کی شرکت معمولی بات نہیں، بلکہ اس احساس کا واضح اظہار ہے کہ خطے کی قسمت بدلنے کا وقت آچکا ہے۔سی پیک کے پہلے مرحلے میں زیادہ توجہ بنیادی ڈھانچے پر تھی شاہراہوں، بندرگاہوں، بجلی گھروں اور توانائی کے منصوبوں پر کام ہوا۔ گوادر بندرگاہ کی تیاری، قراقرم ہائی وے کی توسیع اور بجلی کی کمی کی صورتحال پر قابو پانے کے اقدامات بروئے کار لائے گئے ۔ چند برسوں میں بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا، شاہراہوں اور موٹر ویز کا جال بچھایا گیا ملک کے دور دراز علاقوں کو مرکزی شہروں سے جوڑا گیا۔ یہ مرحلہ ملکی معیشت میں جان ڈالنے، لگ بھگ دو لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرنے، صنعتوں کو نئی زندگی دینے، سرمایہ کاری کے نئے دور سے عبارت ہے۔ چینی سرمایہ کاری کے ساتھ ٹیکنالوجی اور تجربے کی بھی پاکستان کو منتقلی کا ذریعہ یہ مرحلہ بنا۔ ایسے وقت میں کہ ملک بجلی کے سنگین بحران سے دوچار تھا، موٹر ویز ادھوری تھیں شمالی اور جنوبی پاکستان کے درمیان آمد و رفت دشوار تر تھی سی پیک منصوبے کے تحت انفر اسٹرکچر پر بھرپور کام ہوا ۔ستائیس بڑے منصوبے شروع کئے گئے جن میں زیادہ تر 2020ءتک مکمل ہوگئے ۔ توانائی کے 14منصوبوں میں تقریباً دس ہزار میگا واٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل ہوئی ۔ شاہراہوں کے6منصوبوں کے تحت تقریباً 1100 کلومیٹر سڑکیں اور موٹر ویز تعمیر ہوئیں ۔ گوادر بندرگاہ اور فری زون کی تعمیر و فعالیت میں اہم پیشرفت ہوئی ،ریلوے لائن (ML-1) کی اپ گریڈیشن کی تیاری مکمل کی گئی۔ بلوچستان میں گوادر ، مکران کوسٹل ہائی وے اور بجلی پیداکرنے کے منصوبوں کے ذریعے مقامی روزگار و ترقی میں بڑھوتری نمایاں ہوئی ۔ جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سڑکوں، توانائی کے منصوبوں اور صنعتی زونز سے معاشی سرگرمی میں اضافہ ہوا۔اب سی پیک کے دوسرے مرحلے کا باضابطہ آغاز کیا جاچکا ہے تواس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ابتدائی تیاریوں اور اسٹرکچر سمیت ایسی مضبوط بنیاد قائم ہوچکی ہے جس پر دوسرے مرحلے کی شاندار ،باوقار اور مستحکم عمارت کی تعمیر کا کام تیزی سے آگے بڑھتا نظر آئے گا۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ صنعتی ، زرعی اور سماجی ترقی کا دورہوگا ، اب توجہ انفرادی اسٹرکچر سے آگے بڑھ کر عوامی فلاح ،روزگار اور برآمدات کے فروغ پرہے خصوصی اقتصادی زونز ، ٹیکنالوجی پارکس، تعلیم و تربیت کے منصوبے اس کا مرکزی حصہ ہیں ۔یہ مرحلہ پائیدار ترقی اور خودکفالت کی طرف پیش قدمی کا مرحلہ ہے ۔ انسانی وسائل کی ترقی کے اس دورکیلئے پیشہ ورانہ ادارے اور صنعتی ترقی کے مراکز متعارف ہورہے ہیں ۔جبکہ زراعت کے جدید طریقے بھی بروئے کار لائے جائیں گے ۔
دوسرے مرحلے کے تحت اب تک چار خصوصی اقتصادی زونز (SFZs) میں کام شروع ہوچکا ہے جن میں رشکئی، دھابیجی، علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی اور بوستان شامل ہیں۔ مشینری کی تنصیب سمیت 80فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ ساتھ ہی ملک گیر ڈیجیٹل نیٹ ورک کے تحت 2500کلومیٹر فائبر آپٹک کیبل بچھائی جاچکی ہے۔ گوادر میں نیا ہوائی اڈہ، ووکیشنل انسٹیٹیوٹ اور پانی کی صفائی کا نظام تیار ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کے لئے تربیتی مراکز نہ صرف پہلے متعارف ہوچکے ہیں بلکہ پاکستانی طلبہ کو چینی جامعات میں اسکالر شپس کے تحت جدید علوم سے لیس کرنے کا سلسلہ اس دوسرے مرحلے میں بھی جاری رہے گا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ سی پیک منصوبے کے پہلے مرحلے میں چین (کاشغر یا سنکیانگ) تک تیل یا دوسرا سامان لانے یا لیجانے کا فاصلہ جو پہلے تقریباً 13 ہزار کلومیٹر تھا، اب صرف تین ہزار کلومیٹر رہ گیا ہے۔ پہلے بحری جہازوں کے ذریعے جس سامان کے لانے یا لیجانے میں 25سے 30دن لگتے تھے اب ٹرک یا پائپ لائن کے ذریعے اس کی ترسیل صرف 4تا5دن تک محدود ہوگئی ہے۔ اس سے جہاں چین کے ایندھن اور سامان کی ترسیل کے اخراجات میں 60تا 70فیصد کمی ہوئی وہاں پاکستان کی گوادر بندرگاہ کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔سی پیک سے فائدہ اٹھانے والے دوسرے ممالک کو بھی اخراجات اور وقت کے اسراف میں کمی کے ساتھ احساس تحفظ بھی ہوا۔ آنے والے وقتوں میں گوادر اور کراچی کے علاوہ مزید بندرگاہوں کی تعمیر کی ضرورت ہوگی۔ راہداری فیس کی وصولی اور تجارتی سرگرمیوں سے پاکستان کو غیر معمولی فوائد متوقع ہیں۔ یہ منصوبہ بلاشبہ پاکستانی معیشت کے حوالے سے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ مگر اس حقیقت کو بہر طور سامنے رکھنا ضروری ہے کہ ہر قیمتی چیز کی طرح ہمیں اپنے قیمتی محل وقوع اور قیمتی سی پیک منصوبوں کی حفاظت کے حوالے سے ہر لمحے مستعد رہنا ہوگا۔ اس باب میں کسی کو بھی کسی عنوان سے کوئی بھی رعایت دینے کی گنجائش نہیں۔ سی پیک منصوبہ اب کتابی اعداد و شمار سے نکل کر عملی حقائق کا روپ دھار رہا ہے تو ہمیں نہ صرف ہر طرح سے اس کی کامیابی یقینی بنانے کے لئے مستعد رہنا ہوگا۔ بلکہ یہ پہلو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ اس کی حفاظت کے تقاضوں کے حوالے سے بھی کسی اعتبار سے نرمی کی کوئی گنجائش نہیں۔