• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے سیاسی افق پر جب طاقت کے توازن میں تبدیلی آتی ہے تو اس کے اثرات صرف دو ملکوں تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری دنیا کی سمتیں بدل جاتی ہیں۔ انڈیا اور امریکہ کے درمیان نیا معاہدہ دراصل اسی عالمی تغیر کا مظہر ہے۔ بظاہر یہ معاہدہ تجارت، توانائی اور ٹیکنالوجی کے تبادلے سے متعلق ہے، مگر درحقیقت یہ اس بات کا اظہار ہے کہ رواں صدی کے وسط تک ایشیا عالمی طاقت کا نیا مرکز بننے جا رہا ہے اور اس نئے منظرنامے میں بھارت اور امریکہ کا اشتراک کسی نئے اتحاد کا پیش خیمہ ہے۔ امریکہ اور بھارت کا رومانس نیا نہیں ہے۔ 2005ءمیں امریکہ اور بھارت کے درمیان سول نیوکلیئر معاہدہ ہوا تھا جس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئے دور میں داخل کیا۔ تب سے لے کر اب تک دفاعی، تجارتی اور سائنسی تعاون میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2024میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 212ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا، جو دس برس پہلے محض 100 ارب کے قریب تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تجارت بھی قابلِ ذکر ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں بھارت نے امریکہ سے تقریباً 20 ارب ڈالر مالیت کا دفاعی سامان خریدا، جس میں جدید طیارے، ہیلی کاپٹر اور میزائل نظام شامل ہیں۔صدر ٹرمپ جو قبل ازیں بھارت کا تمسخر اڑاتے تھے اب اسے اپنے مفادات کے لیے ایک اسٹرٹیجک اتحادی کے طور پر اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔

امریکہ کے نزدیک بھارت کی اہمیت صرف تجارت تک محدود نہیں، بلکہ جغرافیائی لحاظ سے بھی مرکزی ہے۔ بحرِ ہند، مشرقِ وسطیٰ، خلیج بنگال اور جنوبی چین کے سمندر کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے اسے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے امریکہ نے انڈو پیسفک اسٹرٹیجی کے نام سے ایک نئی پالیسی ترتیب دی ہے جس میں بھارت کو کلیدی کردار دیا گیا ہے۔ یہ ڈیل محض اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ سیاسی خودمختاری کا امتحان بھی ہے۔ بھارت اپنی ’’اسٹرٹیجک خودمختاری‘‘کے نظریے پر ہمیشہ فخر کرتا آیا ہے۔ لیکن اب جب وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرا کر رہا ہے تو یہ سوال شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا بھارت ایک بار پھر کسی نئے عالمی بلاک کا حصہ بننے جا رہا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا اس سے روس کے ساتھ اس کے پرانے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے؟

چین کیلئے یہ ڈیل ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان لداخ کی جنگ ہوئی تھی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی آج تک ختم نہیں ہوئی۔ حالیہ برسوں میں لداخ اور ڈوکلام کے علاقوں میں جھڑپوں نے کشیدگی میں اضافہ کیا۔ اب جب امریکہ کھلے عام بھارت کو عسکری تعاون فراہم کر رہا ہے تو چین کے لیے یہ ایک اسٹرٹیجک چیلنج ہے۔ بیجنگ کے نزدیک امریکہ بھارت کے ذریعے چین کے گرد گھیرا مضبوط کر رہا ہے۔ اسی کے ردِعمل میں چین اپنے دیرینہ اتحادی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید وسعت دے رہا ہے۔ چین پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) اسی اسٹرٹیجک مقابلے کی ایک اقتصادی صورت ہے۔

پاکستان کے لئے یہ صورتِ حال ایک امتحان بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ اگر بھارت امریکہ کی ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی دفاعی اور صنعتی صلاحیت بڑھاتا ہے تو ظاہر ہے کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بھارت کے حق میں جھک جائے گا۔ پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں کو جدید خطوط پر استوار کرے تاکہ وہ اس نئے اقتصادی نقشے میں پیچھے نہ رہ جائے۔ سی پیک کے منصوبوں کو وسطی ایشیائی ریاستوں سے جوڑ کر پاکستان اپنے لئے نئی تجارتی راہیں کھول سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی، ایران، ملائیشیا اور خلیجی ممالک کیساتھ تعلقات کو وسعت دے کر پاکستان ایک متبادل تجارتی بلاک تشکیل دے سکتا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں بھارت، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل‘‘Quad’’ اتحاد تیزی سے فعال ہو رہا ہے۔ دوسری طرف چین، روس، پاکستان اور وسطی ایشیا کی ریاستیں‘‘شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)’’اور‘‘BRICS’’کے پلیٹ فارم پر ایک متبادل نظام کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔ اس منظرنامے میں دنیا ایک بار پھر دو اقتصادی دھڑوں میں بٹتی جا رہی ہے۔ ایک طرف مغربی سرمایہ داری کا اتحاد اور دوسری طرف ایشیائی تعاون کا ماڈل۔ اس دوڑ میں پاکستان کیلئے دانشمندی یہی ہے کہ وہ کسی ایک خیمے میں مکمل طور پر داخل ہونے کے بجائے توازن کی راہ اختیار کرے اور اپنی سرزمین کو پل کے طور پر استعمال کرے، میدانِ جنگ کے طور پر نہیں۔اگر ماضی کی مثالیں دیکھی جائیں تو 1971 ء میں جب امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بحال ہوئے تو پاکستان نے اس میں ثالث کا کردار ادا کیا۔ آج بھی اگر پاکستان توازن اور حکمت کیساتھ کام کرے تو وہ ایک مرتبہ پھر مشرق اور مغرب کے درمیان سفارتی رابطے کا مرکز بن سکتا ہے۔ یہ وہ کردار ہے جو پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کے عین مطابق ہے۔

یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا کی اصل طاقت اب بندوق نہیں بلکہ علم، ٹیکنالوجی اور معیشت ہے۔ انڈیا،امریکہ ڈیل کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ مستقبل کی جنگیں معیشت کے محاذ پر لڑی جائیں گی۔ جس ملک کی ٹیکنالوجی مضبوط ہوگی، وہی طاقتور ہوگا۔ پاکستان کے لیے بھی یہی پیغام ہے کہ وہ تعلیم، تحقیق اور صنعتی ترقی میں سرمایہ کاری کرے تاکہ آنیوالے وقت میں عالمی مسابقت میں اپنی جگہ بنا سکے۔پاکستان میں سرمایہ کاری کو درکار سازگار ماحول بنانے کیلئے سیاسی و سیکورٹی کا استحکام بہت ضروری ہے۔بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ پاکستانی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہئے۔کاروبار کیلئےافسر شاہی کے بنائے ہوئے سرخ فیتوں سے نجات،رشوت کے ہوشربا نرخ پر کنٹرول اور بیجا رکاوٹیں اگر ختم کر دی جائیں تو پاکستانی سرمایہ کار خود ہی ملکی معیشت کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔

تازہ ترین