• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج سرکاری سیکٹر کے اس اشاعتی ادارے کی طبیعت بھی ناساز ہے مگر ایک وقت تھا کہ نیشنل بک فائونڈیشن کی خوبصورت کتابوں کا راج تھا ہر ائیرپورٹ پر،ریلوے اسٹال پر،مختلف شہروں میں اس کے قائم کردہ اسٹور تھے اور سب سے بڑھ کر ایک شاندار اسکیم تھی کہ کوئی بھی پاکستان کا شہری شناختی کارڈ کی کاپی کےساتھ ایک سو روپے دے کر ایسا کارڈ بنوا لیتا تھا جسے دکھا کر وہ اس فائونڈیشن کی مطبوعات ہی نہیں آکسفورڈ پریس اور دیگر اداروں کی مطبوعہ کتابیں پچاس فیصد رعایت پر خرید سکتا تھا۔ کئی طالب علم یونیورسٹی کیفے پر سینکڑوں لٹا دیتے مگر اس سوروپے کیلئے بھی استادوں سے مدد مانگتے تھےمجھے یقین ہے کہ میں اکیلا استاد نہیں تھا جو اس امداد کو علم افروزی کا وسیلہ خیال کرتا تھا ۔آپ جانتے ہیں کہ نامور شاعر احمد فراز کو ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا چیئرمین بنایا تھا،بھٹو کے بعد جو دور آیا اس میں احمد فراز معطل ہو جاتے پھر کوئی عدالت انہیں بحال کرتی پھر ان کی کسی نظم یا چٹکلے(زمانے دو ہی ہیں قبل مسیح اور بعد از تارا مسیح) پر وہ معطل ہو جاتے ، کچھ عرصے کے بعد وہ بحال ہو جاتے یوں بہت پہلے پشاور ریڈیو سے وابستہ احمد فراز جب مشاعرے کا رخ کرتے تو انہیں رنگ فیض کا شاعرہی نہیں خیال کیا جاتا مسلح بد صورتی کیخلاف ایک مزاحمت کار بھی خیال کیا جاتا پھر اس ادارے نے بھٹو کی بیٹی کے دور اقتدار میں بہت اچھے دن دیکھے جب نامور افسانہ نگار مظہرالاسلام اس کے ڈی جی بنے۔مظہر کو ڈیزائننگ اور آرائش کتاب سے بہت دلچسپی تھی، سو بہت خوبصورت کتابیں محض اپنی کلر اسکیم کی وجہ سے باذوق خواتین کی اسٹڈی یا ڈرائنگ روم میں پہنچ جاتیں۔یہی وہ دور ہے جب میں اسلام آباد میں ایک سرکاری ادارے سے منسلک ہوا تو مجھے کیبنٹ ڈویژن میں موجود بعض احباب کے طفیل کچھ ’قومی رازوں‘ کی بھی بھنک پڑ جاتی۔مجھے تجسس تھا کہ شبلی نعمانی ،سید سلمان ندوی اور ایسے کچھ بزرگوں کی کتابیں اس فائونڈیشن نے کیوں اور کیسے شائع کیں؟۔ تب ایک فائل نے سرگوشی کی کہ دارالعلوم ندوہ (بھارت) سے علما کا ایک وفد پاکستان آیا اور امداد کا طالب ہوا مذہبی امور کے وزیر نے بھی مشورہ دیا کہ بھارت میں موجود علما کی خیرسگالی حاصل کرنے کیلئے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے تاہم وزیر اعظم بھٹو نے لکھا کہ مناسب یہ ہوگا کہ ان علما سے دارالمصنفین ندوہ کی کتب کے حقوق خرید کے یکمشت ادائی کر دی جائے تاکہ بھارت کو بھی اعتراض کا موقع نہ ملے ۔ گویا ہر منصب اور ہر ادارے کی سربراہی ایک دو منفعتوں کے حصول کا ماجرا نہیں بلکہ انہیں سماجی اور سیاسی شعور پھیلانے کا وسیلہ بھی بنایا جا سکتا ہے اور اس کیلئے سب سے معتبر کتاب ہے پھر جس کتاب کے آرزو مند نہ ہوں اور جو کتاب لوگوں میں امید پیدا نہ کرے وہ چند سو ورق کی جمع بندی نہیں۔آخر کوئی وجہ تو ہوگی کہ دنیا کی ہر بڑی یونیورسٹی نے جہاں کلاس روم بنائے لیبارٹریاں قائم کیں اچھے استادوں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا وہاں پریس یا اشاعت گھر بھی بنائے جو ان یونیورسٹی کیلئے امتحانی پرچے ہی نہیں چھاپتے تھے پورے معاشرے میں روشنی پھیلانے والی کتابوں کو ترجمے کے ذریعے، تصنیف و تالیف کر کے سامنے لاتے ۔آج جامعات میں بھی سیمینار ہوتے ہیں،آن لائن کانفرنس ہوتی ہیں، مگر زیادہ تر ان کے سربراہوں کے تمغوں اور ملبوسات کی نمائش ہوتی ہے اور انہیں مرکز عرفان و دانش کہا جا رہا ہوتا ہے وہی کچھ عرصے کے بعد بعض مقدمات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں ان کیخلاف فرد جرم میں کچھ دوائیاں اور ٹیکے بجٹ سے خریدنے کا الزام ہوتا ہے انکے دربار میں بیٹھے جو لوگ انہیں وژن اور عرفان کا منبع کہہ رہے ہوتے تھے وہی ان کیخلاف سلطانی گواہ بنے ہوتے ہیں ۔ایسے میں ان کے قائم کردہ ادارہ ترجمہ و تالیف یا ان کےاشاعت گھروں کی کتابیں عشروں تک ان کی صفائی دیتی ہیں۔ ایک زمانے میں مجھے علامہ عبداللہ یوسف علی کی سوانح کتابی صورت میں پڑھنے کا شوق ہوا،پروفیسر فتح محمد ملک اسلامک انٹر نیشنل کے ریکڑ تھے میں نے ان سے ذکر کیا کہ ان کی تصانیف تو ہیں،قران مجید کا ترجمہ بھی مگر میں ذرا سمجھنا چاہتا ہوں کہ تقسیم ِ ہند سے پہلے پنجاب کے دواور سورت یا بمبئی کے ایک مسلمان انگریز حاکموں کی نظر میں بہت جچ رہے تھے،علامہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال،سر محمد ظفراللہ خان اور علامہ ڈاکٹرسر عبداللہ یوسف علی ،حکومت کوشش بھی کر رہی تھی کہ ہندوستان کیلئے آئینی اصلاحات لانے اور داخلی خود مختاری کا جو پروگرام بنایا گیا ہے وہ گول میز کانفرنسوں میں شریک ہوکر اس کی تائید کریں پھر کیا ہوا کہ علامہ عبداللہ یوسف علی نے جن دو انگریز خواتین سے یکے بعد دیگرے شادیاں کیں ان سے تنازعات نے ان کی شہرت کو گہنا دیا اور میں نے کہیں پڑھا ہے کہ علامہ یوسف علی نے ایک انگریز بیوی کو مسلمان کرکے ان کا نام بھی معصومہ رکھا اور بچوں کے بھی نام شاید کتاب مقدس سے فال نکال کے رکھے مگر ان سب نے انہیں ایسا عاجز کیا کہ آخر میں اپنی یادداشت بھی کھو بیٹھے تھے کہ ویسٹ منسٹر ہسپتال میں جب انہیں لایا گیا تو وہ اپنا نام پتا بتانے سے بھی قاصر تھے ،حالانکہ وہ علامہ اقبال کی سفارش پر دو برس اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل بھی رہے تھے۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنی یونیورسٹی کی بک شاپ کا پتا بتایا وہاں جا کے میں نے سیاہ جلد میں مطلوبہ کتاب خریدی جس کے مصنف ملائشیا کے ایک اسکالر تھے مگر اسے اردو میں منتقل پاکستان کے ایک عالم نے کیا تھا اور اسے اس یونیورسٹی کے پریس نے چھاپا تھا۔ ملک صاحب کے وہاں سے جانے کے بعد میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ اسلامک انٹر نیشنل یونیورسٹی نے اس پر کوئی سیمینار کرایا ہو ممکن ہے اسلامیہ کالج لاہور میں اس پر کوئی علمی مکالمہ ہوا ہو اپنے دو دوستوں عطا الحق قاسمی یا اصغر ندیم سید سے معلوم کروں گا ۔

تازہ ترین