• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرا جمعے کے دن اِس لئے کالم شائع نہیں ہو سکا کہ میرا قلم شدتِ غم سے فگار تھا اور آنکھیں اشک بہاتے رہنے سے سرخ ہوتی جا رہی تھیں۔ ہم تو اِس رسمِ وفا میں حضرت غالبؔ کے پیروکار ہیں جنہوں نے کہا تھا
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے وہ لہو کیا ہے
آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں ٗ اُن پر دل خون کے آنسو روتا ہے اور فصیل کی وہ دیواریں جو جسم و جاں سے چنی گئی تھیں ٗ آج لرزہ براندام ہیں۔ ایک طرف ملکی بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے اور دوسری طرف جنگِ اقتدار زوروں پر ہے۔ کیسے کیسے بہروپیے قوم کی مسیحائی کے دعوے دار ہیں۔
ہماری قوم کی حالت بنی اسرائیل جیسی ہو گئی ہے جس نے حضرت موسیٰ ں سے کہا تھا جاؤ اور اپنے رب کے ساتھ دشمن سے لڑو ٗ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔آج ہم نے اپنی فوج کو محاذِ جنگ پر بھیج کر غالباً سُکھ کا سانس لیا ہے اور تمام تر ذمے داری اِسی پر ڈال دی ہے۔ وہ دہشت گردی جس نے ہماری معیشت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور پچاس ہزار سے زائد شہری اور فوج کے اعلیٰ افسر اور ہزاروں جوان شہید کر دیئے ہیں ٗ اِس کا آخری ٹھکانہ اب شمالی وزیرستان رہ گیا تھا جہاں ضربِ عضب کا معرکہ بپا ہے۔ پہلے آپریشن راہِ راست کے ذریعے دو ماہ کے اندر سوات میں ریاست کی رِٹ بحال کی گئی اور آپریشن راہِ نجات میں فقط 33دنوں کے اندر جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا تھا۔ اِس مرتبہ سرورِدوعالم حضرت محمدؐ کی تلوار عضب کے نام پر آپریشن شروع کیا گیا ہے جس کی منصوبہ بندی میں کلیدی کردار آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ادا کیا ہے۔
اُنہوں نے یقین دلایا ہے کہ ہماری بہادر فوج بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی اور قوم اِس آزمائش کے اندر سے سرخرو ہو کے نکلے گی۔ صرف دس بارہ دنوں میں فوج کو قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ٗ 327دہشت گرد مارے گئے ٗ 19نے ہتھیار ڈال دیے ٗ 24گرفتار ہوئے اور 45ٹھکانے تباہ کر دیے گئے جبکہ 10فوجی شہید ہوئے۔ اِن تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے قدم اُکھڑنے لگے ہیں ٗ مگر ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ایک گوریلا جنگ ہے جو طول کھینچ سکتی اور وسیع ہو سکتی ہے۔
ہم سب لوگ محب وطن ہونے کا دعویٰ کرنے میں ایک گونہ فخر محسوس کرتے ہیں ٗ مگر شاید اِس امر سے کم ہی واقف ہیں کہ حب الوطنی کے حقیقی اور عملی تقاضے کیا ہیں۔ اب جبکہ ہماری ملکی سا لمیت داؤ پر لگی ہے اور شمالی وزیرستان میں آپریشن جاری ہے ٗ اِس پر ہماری بقا اور سلامتی کا بہت زیادہ انحصار ہے ٗ تو ہماری قومی قیادت کو تمام جھمیلوں سے نکل کر اِن معاملات پر ساری توجہ مرکوز کر دینی چاہیے جن سے عمدگی سے نبردآزمائی ہماری کامیابی اور سرفرازی کی یقینی کلید ہے۔ اِس فیصلہ کن جنگ میں پوری قوم کو یکسوئی کے ساتھ ایک فعال اور تاریخ ساز کردار ادا کرنا ہو گا ٗ مگر ہمارے قومی قائدین بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے اور لامحدود خواہشات کے سرابوں میں بھٹکے ہوئے ہیں۔ دراصل اِس موقع پر جناب وزیراعظم کو اپنی قائدانہ صلاحیتیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ٗ مگر وہ بصیرت اور اہلیت سے محروم ایک ٹولے میں گھرے ہوئے ہیں اور واقعات سے گزرنے کے بعد فیصلے کرتے ہیں جو مسائل مزید اُلجھا دیتے ہیں۔ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے بجاے فقط پنجاب کے وزیراعظم ہیں ٗ کیونکہ اُن کے گرد زیادہ تر وہی منظورِ نظر دکھائی دیتے ہیں جن کا تعلق پنجاب سے ہے۔ مزیدبرآں وہ سیاسی سطح پر کہیں بھی متحرک دکھائی نہیں دیتے۔ اُنہوں نے اپنی سیاسی جماعت کو عملاً خیر باد کہہ دیا ہے۔ اِس کے دفتر ویران پڑے ہیں اور اُس کے عہدے دار اپنی ’’عزت ِ سادات‘‘ بچانے کی فکر میں ہیں۔ ایک منظم سیاسی جماعت کے ذریعے عوام کے ساتھ مستقل رابطہ قائم رہتا ہے اور دوسری جماعتوں سے بھی قومی مسائل پر بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے غیر فعال ہو جانے سے حکمران تنہا ہوتے جا رہے ہیں اور اُن کے خلاف گرینڈ الائنس بنانے کی وحشت ناک خبریں آئے دن آتی رہتی ہیں جن سے اربابِ اقتدار گھبرائے گھبرائے سے نظر آتے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں سے بھیک مانگ رہے ہیں کہ وہ اُسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیں۔
بلاشبہ شریف برادران عظیم الشان ترقیاتی منصوبوں کے لیے منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں اور اُن کے لیے فنڈز حاصل کرنے کی کوشش بھی۔ پہلی دفعہ ملک میں ہوا ٗ شمسی توانائی ٗ کوئلے اور پانی کی طاقت سے بجلی کے کارخانے بڑی تیزی سے لگ رہے ہیں اور داسو کے بعد بھاشا ڈیم تعمیر ہونے کی اُمید پیدا ہو چلی ہے۔ اُن کی تعمیر کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے12ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر یقینا بہتر ہوئی ہے اور زرِمبادلہ میں بھی خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ٗ مگر عام شہری کی روزمرہ کی اذیتیں دوچند ہوتی جا رہی ہیں۔
جمعہ کے اخبارات میں ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر اشیائے خوردونوش میں 20فی صد تک اضافہ جبکہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں غائب ہیں۔ اِس موقع پر وزیر مملکت جناب عابد شیر علی نے ’’مژدہ‘‘ سنایا ہے کہ ماہِ رمضان میں تمام وقت بجلی فراہم نہیں کی جا سکے گی۔ بدقسمتی سے سانحۂ ماڈل ٹاؤن نے اِس پھیلائے ہوئے تاثر کی قلعی کھول دی ہے کہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی مرضی کے بغیر ایک تنکا بھی نہیں ہل سکتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت اور ہیبت کا سحر ایک وقت ٹوٹ ہی جاتا ہے اور وہی حکومت پائیدار ہوتی ہے جو دلوں پر راج کرتی اور مشاورت سے اپنے امور سرانجام دیتی ہے۔
ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے انسانوں کا ایک سمندر بنوں ٗ ڈیرہ اسماعیل خاں اور کوہاٹ کی طرف اُمڈا چلا آ رہا ہے۔ وہ پانچ لاکھ بے گھر لوگ ہیں جنہیں ہمارے قائدین جھوٹے منہ سے اپنے ہیرو قرار دے رہے ہیں ٗ وہ ساٹھ ساٹھ میل تپتی چٹانوں سے پیدل سفر کرتے ہوئے جنوبی اضلاع کی طرف آ رہے ہیں۔ بوڑھے اور بچے بے ہوش ہو کر گر پڑتے ہیں ٗ ہوش آجائے تو پوچھتے ہیں کتنی دور اور چلنا ہے۔ اِن میں اسی اور نوے سال کے بوڑھے مرد اور عورتیں بھی ہیں۔ اُن کے پاس کھانے ٗ پینے اور سرچھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ چھوٹے بچے مر رہے ہیں۔
ایک خبر کے مطابق صرف ایک قافلے کے چودہ شیر خوار بچے پیاس اور گرمی سے تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ میں نے جب یہ تصویر دیکھی کہ ایک انتہائی بوڑھی عورت کے ہاتھ میں روٹی کا ایک چوتھائی ٹکڑا تھمایا جا رہا ہے ٗ تو میرا کلیجہ پھٹنے لگا تھا اور آنکھوں سے اشکوں کا ایک سیل رواں ہو گیا۔
میں سوچتا رہا کہ ایک طرف وطن کی خاطر اپنے ہی علاقوں سے ہجرت کرنے والے پانچ لاکھ خستہ حال انسان ہیں اور دوسری طرف ہماری آسائشوں اور اللوں تللوں میں کوئی فرق نہیں آیا اور ہمارے دلوں میں اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچنے کی کوئی لہر نہیں اُٹھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم کے ساتھ پوری قیادت اُن بے گھر افراد کے کیمپوں کا دورہ کرنے کے لیے نکلتی اور اُن کی فلاح و بہبود کے لیے ایک تحریک چلاتی۔ کالجوں کے طلبہ جو گرمی کی چھٹیاں منا رہے ہیں ٗ جوق درجوق اُن علاقوں میں جاتے جہاں ہزاروں ہیروز اُن کے قدموں کی چاپ سننے کے لیے بے تاب ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین جناب ملک ریاض حسین نے پانچ ارب روپے امداد کا اعلان کیا ہے جو سخت حبس میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کے مخیر اور اہلِ دل لوگوں کو آزمائش کی اِس گھڑی میں دست گیری اور چارہ گری کا فریضہ ادا کرنا ہو گا۔ اگر ہمارے حکمران ڈائیلاگ کے ذریعے اِس کارِ خیر میں زیادہ سے زیادہ سیاسی اور دینی جماعتوں کو شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ٗ تو اُنہیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔
تازہ ترین