• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاید انیس برس پہلے کی بات ہے پنجاب کی ایک ضلعی یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو نے ایک ’’بین الاقوامی کانفرنس ‘‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا سامعین محترم !آپ جانتے ہیں کہ اردو ایک سامراجی زبان ہے۔ بد قسمتی سے مجھے بھی اسٹیج پر اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے ساتھ بٹھایا گیا تھا اسلئے انہوں نے بے ساختہ کہا’’استغفراللہ! اگر آںجناب کے یہ خیالات ہیں تو ان سے پوچھنے کی جسارت کرنی چاہئے کہ پھر یہ سارا وبال کانفرنس کا ہمارے سر پر کیوں منڈھا ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ اردو زبان و ادب کے برگد کی چھائوں میں بیٹھنے والے لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں مذہب و ملت اور رنگ و نسل کی قید سے آزاد کہ اب انہیں اردو دنیا سے کیسے جلاوطن کر سکتے ہیں؟ پھر اس زبان سے محبت کا نشہ ،ملامت سے کچھ اور بڑھتا ہے سو اسے وقفے وقفے سے غاصب نہ کہا جائے،گھر کی لونڈی تھی ،گھر کی مالکن بن بیٹھی؟ اور کچھ اسی قسم کے طعنے نہ دئیے جائیں یا اسی نے بنگلہ دیش بنوا دیا تو اس زبان کے محسوسات کی دنیا سکڑ جائے گی‘‘ ۔ مجھے بار بار 1971 کا کوئٹہ یاد آتا تھا جب محمود خان اچکزئی کے والد گرامی عبدالصمد اچکزئی اور ایک مری بلوچ سردار کو جناح روڈ کے ایک ہوٹل میں اردو زبان کے خلاف ایسے ہی خیالات کے ساتھ محو گفتگو سنا تھا اور لطف لیا تھا کہ وہ دونوں اردو بول رہے تھے کہ بلوچ کو پشتو نہیں آتی تھی اور ہمارے محترم اچکزئی کو براہوی یا بلوچی پر دسترس نہیں تھی۔ پھر جب سردار عطا اللہ مینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ہوئے تو بلوچستان کی دفتری زبان اردو بنائی گئی۔ بھٹو کے دور میں اردو سندھی تضاد کے حوالے لسانی فسادات ہوئے تھے اسی زمانے میں لاڑکانہ کالج سے طالب علموں کا ایک ٹرپ کوئٹہ آیا تو ان کے ساتھ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کچھ لیڈر تھے جو یہی مظلوم زبان(سامراجی) بول رہے تھے۔ گویا یہ زبان پاکستان میں رابطے کی سب سے بڑی زبان ہے اس میں شک نہیں بعض اہل زبان کا رویہ بھی تنگ دلی کا رہا وہ تلفظ اور لہجے کو علمیت کا معیار جانتے تھے یا اس بات سے واقف نہیں تھے کہ وسطی پنجاب کے رہنے والے کسی لفظ کی دو ساکت آوازیں ایک ساتھ ادا نہیں کر سکتے اس لئے وہ علم ،حسن اور عشق بولتے وقت دوسرے حرف (آواز) کو متحرک کر دیتے تھے مگر آج چوہدری شجاعت حسین کے بچے ان آزمائشوں سے بآسانی گزر جاتے ہیں۔ تاہم چند باتیں آج طے شدہ ہیں اول یہ کہ اردوزیادہ سے زیادہ دو کروڑ افراد کی مادری زبان ہے،پنجاب اور بعض دوسرے صوبوں میں کچھ اختلافات کے سبب بہت سے گھروں میں اردو کو اپنا لیا گیا ہے پھر زیادہ تر تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم کے طور پر اردو رائج ہے،پھر بعض مرکزی اور صوبائی اداروں نے اپنے مقاصد کی ترویج و اشاعت کیلئے اردو زبان کو وسیلہ بنایاجیسے مقتدرہ قومی زبان (ادارہ فروغ قومی زبان)،بزم اقبال،مجلس اقبال،مجلس ترقی ادب،اردو لغت بورڈ۔ پھر زمانہ اطلاعیات یا ڈیجیٹل انقلاب کا آیا جس میں ڈاکٹر سرمد حسین جیسے لوگوں نے چین اور کوریا کی آئی ٹی کی کمپنیوں کے ساتھ مل کراردو بول چال کے ذخیرہ الفاظ(ڈیٹا بیس) کو صاف کرنا اورزرخیز کرنا شروع کیا اور پھر بے شک ایک انقلاب آیا کہ گھر میں کام کرنے والی مائیوں اورماسیوں کے ہاتھ میں بھی موبائل آگیا میں خود اسی طبقے کا فرد ہوں اسلئے اس طبقے کے بچوں اور بچیوں کیلئے نصابی اور معاون قاعدے اور کتابیں بستے سمیت فراہم کرنا میرا مشن رہا ہے کچھ عرصے کے بعد اخلاقیات کی دنیا کچھ زلزلوں سے آشنا ہوئی ان پڑھ یا تین چوتھائی ان پڑھ بچوں بچیوں نے باہم ایسے میسج کرنے شروع کئے کہ جس طرح غلام عباس کے ’بامبے والا‘ کچھ شرفا کی نظروں میں مشکوک ہوا تھا اس طرح ترویج تعلیم کی میری کوششوں کو بھی بعض والدین نے دیکھنا شروع کیا۔ پھر کچھ سندھیوں نے مجھ سے شکوہ کرنا شروع کیا کہ اردو کی وکالت اتنی کیوں کرتے ہیں ۔میں ان سے کہتا تھا کہ پاکستان میں کم وسیلہ لوگوں کا سہارا اردو زبان ہے گویا اس معاملے کو طبقاتی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔جن لوگوں نے جسٹس بھگوان داس کی نعتیں پڑھی ہیں اور انہیں کسی محفل میں اپنے پسندیدہ شاعر امجد حیدر آبادی کی رباعیات سناتے دیکھا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ جب فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے سربراہ تھے تو میں نے اسلام آباد کے ایک سرکاری ادارے میں بلا کر ڈاکٹر نجیب جمال سے سوال کرایا کہ اگر مقابلے کے امتحانات کا ذریعہ اظہار اردو کر دیا جائے تو کم وسیلہ افراد کے بچے بھی انتظامیہ کے ان عہدوں پر پہنچ سکیں گے جن پر انگریزوں کے زمانے سے ایچی سن یا چیفس کالج کے طالب علموں کا ’’اجارہ ‘‘ ہے تو انہوں نے کہا کہ کمیشن کے سربراہ کے طور پر میں دو مرتبہ لکھ چکا ہوں مگرانگریزی زبان سے ’’بھروسے کی دسترس نہ رکھنے والے وزیر اعظم ‘‘ نےزلزلے کے خوف سے منظوری نہیں دیتے ۔آج نیویارک کے نئے میئر زہران ممدانی کے انتخاب پر کہا جارہا ہے کہ امریکہ کا عام آدمی تو جھوم رہا ہے البتہ خاص ذرا لرز رہا ہے یہی ماجرا اردو میڈیم اور انگلش میڈیم کا ہے ۔ امیر قطر نے عندیہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کے دروازے پاکستانیوں پر کھولنا چاہتے ہیں اسی لئے صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں تعلیم کی شرح نوے فیصد کرنا چاہتے ہیں گویا آج ٹیکنالوجی کی مدد سےناممکن دکھائی دینے والا ہدف چند مہینوں میں پا سکتے ہیں۔ میرا گزشتہ کالم نیشنل بک فائونڈیشن کے ’اضمحلال‘ سے متعلق تھا میں ان کے موجودہ ایم ڈی کا ممنون ہوں کہ انہوں نے پروفیسر فتح محمد ملک کے صاحب زادے ڈاکٹر طاہر نعیم ملک کے ذریعے وضاحت کی ہے کہ کیسے ان کے بعض پیش روئوں نےکچھ اختراعات کے شوق میں دروازے نکلوا کےدیواریں چنوا دیں کہ مہنگی ٹائلیں لگا سکیں کچھ کام نہ جاننے والےبھرتی کر گئے۔ریکارڈ بھی نہیں چھوڑا۔کئی ناگفتنی باتیں ہیں کیا عرض کروں؟

تازہ ترین