• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا پاناماانکشافات کا کوئی نتیجہ برآمد ہوگا؟ کیا اگلے چند ایک ماہ تک اپوزیشن مل کر وزیر ِاعظم نواز شریف کو اقتدار کے ایوانوں سے اٹھا باہر کرے گی؟ کیا جنرل راحیل شریف ملازمت میں توسیع لیںگے؟عام لوگ سوچتے ہیں کہ پاناما لیکس سے اٹھنے والا طوفان گزرچکا، پی ایم ایل (ن) نے تین ماہ تک پس و پیش سے کام لیتے ہوئے اس بحران کی شدت کم کردی ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسٹر شریف ابھی بھی خطرے سے باہر نہیں ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سامنے دائر کی گئی ایک پٹیشن اُن کے لئے خاص طور پر مسائل کھڑے کرسکتی ہے ۔ نواز شریف صاحب کے بیٹوں کے عوامی سطح پر دئیے گئے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ سمندر پار اثاثوں کے شیئرز محترمہ مریم نواز کے نام بھی ہیں، اور محمد نواز شریف نے 2013 ء میں الیکشن کمیشن کے پاس جمع کرائی گئی اپنے اثاثو ں اور دولت کی تفصیل میں اُن کا ذکر نہیں کیا حالانکہ مریم نواز کو اُن کے زیر ِ کفالت ظاہر کیا گیا تھا۔
اثاثے چھپانے کا یہ چھوٹا سا ٹیکنکل پوائنٹ وزیر ِاعظم کو پارلیمنٹ(جتنی بھی اس کی باقی مدت رہ گئی ہے) کی رکنیت سے ’نااہل ‘ قرار دلاسکتا ہے ۔ تاہم اسی پوائنٹ پرالیکشن کمیشن عمران خان کو بھی اسمبلی کی رکنیت سے محروم کرسکتا ہے کیونکہ خان صاحب نے بھی اپنے 2013 کے کاغذات میں اپنی سمندر پار کمپنی کی تفصیل نہیں بتائی تھی۔ اس سے ایسا سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے جس سے الیکشن کمیشن اجتناب کرنا ہی بہتر سمجھے گا۔ اس دوران اپوزیشن مل کر تحریک چلانے کی کوشش میں ہے ۔پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں دھرنے یا لاہور میں رائے ونڈ کی طرف لانگ مارچ کرکے حکومت کی نیندیں حرام کرنے کی بجائے خیبر پختونخوامیں پرامن احتجاج کر کے شوق پورا کرلیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اندرونی اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی کی عوامی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اب اس کی حکمت ِعملی یہ ہے کہ وہ ملک میںبے چینی کی آگ سلگائے رکھے تا کہ تنائو کا شکار ہوکر مسٹر شریف کسی موقع پر غلطی کرجائیں اور خان صاحب کی خواہش کے مطابق ’’تیسرے امپائر ‘‘ کو مداخلت کا موقع مل جائے ۔
جہاں تک پی پی پی کا تعلق ہے تو وہ سندھ کے ذریعے وفاقی حکومت کے سامنے کھڑی ہوتی دکھائی دیتی ہے لیکن اس دوران اُس کی کوشش ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراض نہ کر بیٹھے ۔ اس کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ اگر رینجرز نے اندرون ِ سندھ قدم بڑھایا تو وہ جاگیرداری نظام خطرے میں پڑ جائے گا جس پر پی پی پی کی طاقت کا دارومدار ہے ۔ چنانچہ وہ سندھ میں رینجرز کو آرٹیکل 147کے تحت اختیارات دینے کے سامنے مزاحم ہے ۔ وہ جانتی ہے کہ ان کے انفراسٹرکچر کا بھی وہی حشر ہوگا جو کراچی میں ایک بڑی سیاسی جماعت کا ہوا ہے ۔ چنانچہ رینجرز کو اندرون ِ سندھ کارروائی سے روکنے کے لئے پی پی پی اس بات پر غور کررہی ہے کہ وہ پاناما لیکس کے ٹرمز آف ریفرنس پراپنی پوزیشن میں لچک پیدا کرکے وفاقی حکومت کوناراض نہ ہونے دے ۔ آصف علی زرداری صاحب کے سامنے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر وہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے وزیر ِاعظم نوازشریف کوچلتا کرتے ہیں تو اپنی گردن کیسے بچا پائیں گے ؟ مسٹر شریف کے سامنے الجھن یہ ہے کہ وہ سندھ میں زرداری صاحب کا ساتھ دیتے ہوئے خود کو اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی سے کیسے بچائیں؟منطق یہی کہتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہیں ، اسی میں ان کی بہتری ہے ۔
اس دوران ڈاکٹر طاہر القادری بھی 2014 کے سانحہ ماڈل ٹائون کے ’’شہدا‘‘ کے نا م پر لاہور میں ایک چھوٹا سا طوفان برپا کرنے کے لئے کمر کس رہے ہیں۔ وہ توقع کررہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا حامی میڈیاجوڈیشل رپورٹ اور جے آئی ٹی کو سامنے لائے ۔ ڈاکٹر صاحب کی کوشش ہوگی کہ اُس واقعہ کی تمام ذمہ داری وزیر ِاعلیٰ پنجاب، شہباز شریف اور ان کی انتظامیہ پر ڈالی جاسکے ۔ تاہم اگر شریف برادران اٹھائے ہوئے طوفان کو کنٹرول کرنے اور اسے پرتشدد شکل اختیار کرنے سے روکنے میں کامیاب ہوگئے تو ڈاکٹر قادری جوشیلی تقریریں کرتے، زمین و آسمان کے قلابے ملاتے اور پیروکاروں کو نجات کا مژدہ سناتے ہوئے اپنا بیگ لے کر کینیڈا جانے والے طیارے پر سوار دکھائی دیں گے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہر موقع پر، ہرجگہ کھیلنے کے لئے کچھ پتے ضرور ہوتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نواز سویلین حلقے ٹی وی اسکرین پر بہت پرامید دکھائی دیتے ہیں کہ افسران نے تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ہے ، چنانچہ وہ شریف برادران کے اقتدار کے علاوہ زرداری بھٹو کی سیاسی بساط لپیٹنے کا کوئی راستہ تلاش کرلیں گے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ گزشتہ ہفتے جنگ اور جیو گروپ پر نادیدہ طاقتوں کا حملہ اسے سائیڈلائن کرنے کے لئے تھا کیونکہ اس نے ترکی میں فوجی بغاوت کے موقع پر جمہوریت کی فتح کو بے مثال طریقے سے اجاگر کیا تھا۔تاثر ہے کہ اس سے کچھ طاقتور حلقوں تک کوئی پیغام ضرور پہنچا ہوگا۔
اس دوران یہ بحث بھی کسی نتیجے پر پہنچتی دکھائی نہیں دیتی کہ کیا جنرل راحیل شریف کو مدت ِ ملازمت میں توسیع دینے سے مسٹرشریف کے مسائل میں کمی آئے گی یا نہیں؟تاہم منطق کہتی ہے کہ ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ مسٹر شریف کو درپیش مسائل کی وجہ آرمی چیف کا عہدہ نہیں ہے ۔ پہلی بات یہ کہ وزیر ِاعظم فوجی قیادت کی تبدیلی کے قوانین پراثرانداز ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔ دوسری بات یہ کہ جنرل راحیل شریف عوامی طور پر توسیع قبول نہ کرنے کااعلان کرچکے ہیں۔ اگر وہ اب قبول کرلیتے ہیں تو پھر اُن پر الزام لگے گا کہ وہ ’’قومی مفاد ‘‘ پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے ’’محسن ‘‘ کو اقتدار سے باہرنہیں کررہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جنرل راحیل شریف جیسے باوقار اور پیشہ ور سپاہی کے بارے میں گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ پاکستانی سیاست کے گدلے پانی میں پائوں رکھنے کے لئے تیار ہوںگے ۔مزید یہ کہ اس وقت زیادہ تر سول سوسائٹی، جج حضرات اور میڈیا کے بڑے حلقے ’’بدعنوانی اور نااہلی‘‘ کے سدابہار الزامات کو جواز بناتے ہوئے جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنے کی حمایت نہیں کریںگے ۔ بہرحال بکی تبدیلی کے لئے شرط لگارہے ہیں۔ خواتین و حضرات، کیا خیال ہے؟
تازہ ترین