• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی طاقتوں کے مابین تعاون یا مقابلے کی دوڑ ... ؟

جنگیں ہوں یا امن کے معاہدے، اقتصادی بحران آئیں یا عالمی وَبائیں پھوٹیں، معاشرتی مسائل ہوں یا پھر موسمیاتی تبدیلیاں، دنیا کی نظریں فوراً عالمی طاقتوں کی طرف اُٹھتی ہیں۔ سب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ امریکا، چین، روس اور یورپ کس معاملے کو کس طرح دیکھتے ہیں۔

اگر رواں برس کی بات کریں، تو اِس عرصے میں چار اہم جنگیں اور پھر اُن کے بعد معاہدے ہوئے۔ اِن میں پاک، بھارت جنگ سب سے اہم تھی کہ دو ایٹمی طاقتیں مدّ ِمقابل تھیں اور اگر یہ جنگ پھیلتی، تو بڑی تباہی کا خدشہ تھا۔ اِسی طرح غزہ کا بحران لڑائی سے انسانی المیے میں تبدیل ہوا۔ قحط، جانوں اور املاک کی تباہی دنیا بھر کی توجّہ کا مرکز رہی۔

یوکرین کی جنگ، جو چوتھے سال میں داخل ہوگئی ہے، اپنے ہمہ گیر اثرات کے سبب یورپ اور روس ہی نہیں، دنیا بَھر کو بُری طرح متاثر کر رہی ہے۔ ایران، اسرائیل جنگ بظاہر تو مشرقِ وسطیٰ تک محدود تھی، لیکن کبھی آبنائے ہرمز، تو کبھی تیل کے ممکنہ بحران نے دنیا کو پریشان کیے رکھا۔ اگر دیکھا جائے، تو اِن معاملات میں امریکا کے علاوہ کسی دوسری بڑی طاقت کا براہِ راست کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

یوں لگا کہ صدر ٹرمپ امریکی طاقت کے بل پر ان تمام معاملات میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے، لیکن دوسری طرف نظر ڈالی جائے، تو بڑی طاقتیں پسِ پردہ رہ کر اور گاہے سامنے آکر بھی اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔ اِسی لیے امن معاہدے تیسرے ممالک میں طے پائے۔ اِس ضمن میں عموماً قطر کا نام زیادہ آیا، لیکن کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ قطر کے پاس وہ طاقت یا اثر ورسوخ ہے کہ وہ اپنے طور پر کسی بڑے تصادم کو روک سکے؟ 

وہ تو ایران اور اسرائیل کی طرف سے پھینکے گئے چھوٹے موٹے میزائلز اور ڈرونز سے بھی نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ایک تکلیف دہ بات یہ بھی سامنے آئی کہ اقوامِ متحدہ جیسے عالمی ادارے بُری طرح ناکام رہے۔ سلامتی کاؤنسل ویٹو کی وجہ سے قراردادیں تک پاس نہیں کرواسکی، تو جنگیں کیسے رکواتی؟ شنگھائی فورم اور آسیان تنظیم وغیرہ بھی محض بیانات تک محدود رہیں۔ قیامِ امن کے لیے زیادہ تر امریکا کے صدر ٹرمپ ہی کردار ادا کرتے نظر آئے۔

تاہم، یہ کہنا کہ سب کچھ اکیلے امریکا ہی نے کیا ہے، عالمی نظام سے ناواقفیت ہوگی۔ عالمی طاقتیں جب کسی معاملے پر متفّق ہوتی ہیں، چاہے ایسا پسِ پردہ ہی کیوں نہ ہو، تب ہی معاملات بہتری کی طرف جاتے ہیں۔ البتہ اِس امر میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ امریکا، چین، روس اور یورپ اپنے اپنے علاقوں اور عالمی سطح پر اپنے اثرات وسیع کرنے میں مصروف ہیں۔ کیا اب دنیا ملٹی پولر ہوجائے گی یا ہر طاقت کا اپنا اپنا زون آف انفلوئنس ہوگا؟

سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد سے دنیا، امریکا کو واحد سُپر پاور کا درجہ دیتی چلی آ رہی ہے، لیکن ایک خاص تبدیلی نے اُسے چیلنج بھی کررکھا ہے اور وہ ہے اقتصادی قوّت کی برتری۔ گزشتہ صدیوں پر نظر ڈالی جائے، تو پتا چلتا ہے کہ فوجی برتری سے دنیا میں فیصلہ کُن تبدیلیاں آتی رہیں۔ 

مُلک فوجی حملہ کرتے اور علاقوں پر قابض ہوجاتے۔ کم زور پڑتے، تو دوسری طاقتیں اُن کی جگہ لے لیتیں۔ گزری صدیوں میں برطانیہ، جرمنی، فرانس، جاپان اور تُرک عثمانی سلطنت اِس کی اہم مثالیں ہیں۔ 

اُنہوں نے جنگوں سے سرحدیں بدل ڈالیں، نوآبادیات قائم ہوئیں، لیکن گزشتہ صدی کی دو عالمی جنگوں نے اِس قدر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلطنتیں زمین بوس ہوگئیں۔ گو، اس کے بعد دو قطبی دنیا، یعنی امریکا اور سوویت یونین نے چالیس سال تک عالمی حُکم رانی کی۔ 

دنیا دو کیمپس میں بٹ گئی، کمیونسٹ نظام اور سرمایہ دارانہ نظام۔ سوویت یونین کے بکھرنے سے یہ عالمی تقسیم بھی ڈھے گئی۔ شکست و ریخت کے ڈھیر میں سے پہلے جاپان کی اقتصادی برتری نے دنیا کو ایک نئی قوّت سے رُوشناس کروایا کہ جو مُلک معاشی طور پر برتر ہے، وہی طاقت وَر ہوگا۔ سوویت یونین کا بکھرنا اُس کی ٹیکنالوجی کی بھی ہار تھی کہ وہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تو بنانے میں کام یاب رہا، لیکن وہ معاشی قوّت پیدا نہ کرسکا، جو اپنے بلاک میں شامل ممالک کو بلند معیارِ زندگی دے سکتی۔ 

اِسی برتے پر مغربی طاقتوں نے اُسے مات دی، یہاں تک کہ روسی بلاک سے تعلق رکھنے والے ممالک بھی معاشی بہتری کی طرف دوڑے، جو اُنہیں مغربی ممالک میں نظر آئی۔ جیسے آج مسلم اور کم زور ممالک میں ہو رہا ہے کہ لوگ اپنا سب کچھ لُٹا کر مغربی ممالک کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے روس نواز مشرقی یورپ، مغرب کا حصّہ بن گیا۔

روس کو یہ بات نئی صدی میں سمجھ آئی، وگرنہ وہ سوشلسٹ نظریے اور فوجی طاقت سے دنیا فتح کرنے کے زعم میں تھا۔ چین جو خود کمیونسٹ مُلک کے طور پر اُبھرا، چالیس سال ہی میں سمجھ گیا کہ اقتصادی برتری ہی عالمی مقام پر فائز کرتی ہے۔ مال ہر جگہ پہنچتا ہے اور پیسا ہر ایک کو پسند ہے، جب کہ ہتھیاروں کی طاقت سے کیا گیا قبضہ چند سالوں میں کم زور پڑنے لگتا ہے۔ اُس نے یہ تبدیلی اپنے علاقے میں، اپنے حریف جاپان میں رُونما ہوتے دیکھی اور پھر’’چائنا رائز‘‘ کا زمانہ شروع ہوا۔

امریکا آج دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوّت ہے اور اقتصادی طاقت بھی۔ اُسے جدید ترین ٹیکنالوجی کے میدان میں مکمل برتری حاصل ہے۔جو بھی نئی ایجادات یا دریافتیں گزشتہ ایک سو سال میں ہوئیں، اُن میں امریکا سرِفہرست رہا۔مواصلاتی سیّاروں، خلائی تسخیر، انٹرنیٹ اور آج آرٹی فیشل انٹیلی جینس، سب میں امریکا آگے ہے۔ جاپان بھی اِسی کے بَل پر دوسری عالمی طاقت بنا اور چین بھی اسی ٹیکنالوجی کی بدولت اور سَستی پراڈکٹس کے ذریعے بڑی طاقت کے مقام پر فائز ہوا۔

امریکا کی فوجی طاقت بھی برتر ہے، جس کا ایک ثبوت تو اُس کے سات بحری بیڑے ہیں، جو دنیا بَھر کے سمندروں پر تیرتے رہتے ہیں اور اُن پر نصب نیوکلیئر ہتھیاروں سے قیامت برپا ہوسکتی ہے، تو دوسری طرف، کسی کی مجال نہیں کہ وہ تجارتی راستے بند کرے۔ روس اِس وقت دنیا کی واحد بڑی جنگ میں ملوّث ہے۔یاد رہے، گزشتہ صدی کے آخر میں سوویت یونین کی بھی یہی پوزیشن تھی۔

ایک طرف روس حملہ آور ہے، دوسری طرف یورپ اور اس کے اتحادی یوکرین کے ہم نوا ہیں۔ روس نے جب یہ جنگ شروع کی، تو وہ اِسے جلد ختم کرکے مغرب کو اپنی فوجی اور اقتصادی طاقت سے مرعوب کرنا چاہتا تھا۔اِس مقصد کے لیے اُس نے دو راستے اختیار کیے۔

اوّل، یورپ کی گیس اور تیل بند کردیا۔دوم، چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے تاکہ پابندیوں کے اثرات کم ہوسکیں۔ یورپ، امریکی مدد سے اس جنگ اور روسی اقتصادی دباؤ سے نکل آیا۔ یوں روس کی یہ حکمتِ عملی ناکام رہی کہ جنگ جلد ختم کرسکے، لیکن اس نے سستا تیل فروخت کر کے اپنی اقتصادی طاقت بہرحال برقرار رکھی۔ اس نے یورپ سے مقابلے کے لیے چین سے اپنی دوستی بہت مضبوط کی، یہاں تک کہ وہ شنگھائی فورم پر اُس کے نمبر دو پارٹنر بننے پر بھی راضی ہوگیا۔ یعنی چین کی برتری تسلیم کی، جب کہ سوویت یونین کے زمانے میں دونوں میں سخت دشمنی تھی۔

چین نے خود کو اقتصادی طاقت کے طور پر پیش کیا ہے، تاہم اس نے اپنی پالیسی مغربی نظام سے ایڈجسٹمنٹ کے طور پر رکھی ہے۔ اِسی لیے کبھی امریکا سے کسی بھی میدان میں براہِ راست ٹکر لینے کی کوشش کی اور نہ ہی اپنے تجارتی روابط کو نقصان پہنچنے دیا۔ چین، امریکا باہمی تجارت 850بلین ڈالرز ہے، جب کہ اس کے اربوں ڈالرز امریکی بینکس میں پڑے ہیں۔

اِسی لیے اس نے کبھی بھی ڈالر کو کم زور کرنے کی کوشش نہیں کی۔یہ ضرور ہے کہ انڈو پیسیفک میں تائیوان کی وجہ سے دونوں میں تناؤ بڑھ جاتا ہے، لیکن انہوں نے باہمی رابطوں کا جو میکنزم بنایا ہے، اُس میں یہ گنجائش موجود ہے کہ جنگ سے کیسے بچا جائے۔

جو اہلِ دانش اور ماہرین ہر وقت چین، امریکا جنگ کی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں، وہ اِس بات سے لاعلم ہے کہ دونوں بڑی طاقتوں نے بڑی جدوجہد کے بعد اپنے عوام کو ایک خوش گوار زندگی دی اور مربوط معیشت بنائی ہے۔ دنیا میں ان کی اقتصادی اور فوجی طاقت کی دھوم ہے۔ کیا ان کی قیادت اِتنی بے وقوف ہے کہ چند نام نہاد تجزیہ کاروں کی خواہش پر سب کچھ جنگ میں جھونک کر قرض مانگنے والے ممالک کی صف میں شامل ہوجائیں یا دوسری عالمی جنگ جیسے المیے سے دوچار ہوں۔

حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات ہوئی، جس کے نتائج سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادتیں کیا سوچ رکھتی ہیں۔ٹرمپ دنیا کے9 ممالک میں امن قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، جن میں چین کا سب سے قریبی دوست، پاکستان بھی شامل ہے۔ ظاہر ہے، پسِ پردہ ڈپلومیسی میں چین، روس اور یورپ سب ہی شامل تھے۔

دوستیاں اور تعاون اپنی جگہ، لیکن کوئی طاقت کسی مُلک کے لیے کیوں اپنے عوام کو مشکل میں ڈالے۔ ایران کی روس اور چین دونوں سے بڑی قربت ہے، لیکن جب اُس کی اسرائیل سے جنگ ہوئی، تو کیا کسی نے ایران کو ایک بندوق تک دی۔ امریکا نے بڑے بڑے بم برسائے، مگر سب خاموش رہے۔ 

اِسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ پاک، بھارت جنگ یا کسی اور جنگ کے لیے چین یا امریکا کیوں خود کو مشکل میں ڈالیں گے۔ ہاں، گرما گرم بیانات اور میڈیا کو گرمانے کی باتیں جاری رہتی ہیں تاکہ کہا جاسکے کہ یہ ہمارے ساتھ ہے یا وہ ہمارا اتحادی ہے، مگر اصل فائدے تو اقتصادی میدان میں اُٹھائے جاتے ہیں اور اسٹریٹیجک ڈپلومیسی اِسی کو کہتے ہیں۔

چین کی خواہش ہے کہ وہ اب دنیا کے معاملات میں اپنا کردار ادا کرے، لیکن اِس مقصد کے لیے اُس نے حکمتِ عملی یہ طے کی ہے کہ طاقت کے مراکز کئی ہوں۔ یعنی ملٹی پولر ورلڈ ہو۔ شنگھائی فورم، برکس بینک، چین ترقیاتی بینک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اِسی حکمتِ عملی کا حصّہ ہیں، جو تیزی سے کام کر رہے ہیں۔لیکن امریکا اور چین میں ایک فرق ہے۔

چین اِن منصوبوں کے لیے قرض دیتا ہے اور وہ بھی سود پر۔جیسے کہ سی پیک پر کام ہو رہا ہے اور اِس ضمن میں پاکستان پر غالباً سب سے زیادہ قرض چینی بینکوں کا ہے، جو واپس کرنا ہے۔ اِس کے مقابلے میں امریکا اور کئی مغربی ممالک امداد دیتے ہیں۔ یعنی پیسے واپس نہیں کرنے پڑتے۔ ہاں، یہ شکایات ضرور سامنے آئیں کہ اِس امداد کو وہ اپنے دباؤ اور سیاسی فوائد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اب اگر کوئی امیر مُلک ہے اور اُسے مجبوراً قرض لینا پڑتا ہے، مگر وہ اِس پوزیشن میں ہے کہ مقرّرہ وقت پر رقم واپس کرسکے، تو پھر وہ دباؤ برداشت کرسکتا ہے، لیکن اگر پاکستان جیسا اقتصادی طور پر کم زور مُلک ہو، تو اُسے قرض کے بدلے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مُلک اور قوم کو جُھکنا پڑتا ہے۔یہ ایک ایسا المیہ ہے، جو ہم برسوں سے جھیلتے دیکھتے چلے آ رہے ہیں، یعنی یہ کوئی انکشاف نہیں، بلکہ سامنے کی حقیقت ہے۔

بہرکیف، اہم بات یہ ہے کہ ساری کش مکش کے باوجود کیا بڑی طاقتوں میں عالمی سطح پر تعاون جاری رہتا ہے یا نہیں۔ جیسا ہم نے بتایا کہ چین گلوبل ساؤتھ کی آواز کے طور پر خود کو پیش کرنا چاہتا ہے اور یہ بھی کہ اس نظام کی قیادت اس کے پاس ہو۔ یورپ ابھی تک ماحولیاتی تبدیلی، تجارت اور عالمی اداروں میں تعاون کو اہم سمجھتا ہے، کیوں کہ اس نظام میں اس کے عالمی جنگ کا تجربہ شامل ہے۔

امریکا اب بھی عالمی اداروں، جیسے یو این سلامتی کاؤنسل اور عالمی بینک وغیرہ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، لیکن امریکا اور یورپ دونوں میں قوم پرستی کا عُنصر بھی شامل ہوگیا ہے، اِس لیے اب ذاتی مفادات حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔ چین کے پاس نایاب معدنیاتی وسائل ہیں، جن سے سیمی کنڈکٹر بنتے ہیں۔

یہ آرٹی فیشل انٹیلی جینس سے ہوائی جہاز اور نیوکلیئر بموں تک کے لیے ضروری ہیں، اِسی لیے ٹرمپ انہیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ نہیں چاہتے کہ چین اِس میدان میں امریکا کو پیچھے چھوڑ دے۔ ٹرمپ، شی جن پنگ ملاقات کے بعد جہاں ٹرمپ نے ٹیرف میں کمی کی، وہیں چینی صدر نے نایاب معدنیات پر اپنا کنٹرول کم کردیا۔

دوسرے الفاظ میں تمام تر مقابلے کے باوجود بڑی طاقتیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار ہیں اور اس کی بنیادی وجہ وہ بلند معیارِ زندگی اور ترقی ہے، جس کے بغیر اُن کے لیے زندگی کا تصوّر محال ہے۔ کم زور ممالک میں تو اقتصادی کم زوری کی وجہ سے غربت نے ایسے ڈیرے ڈالے ہیں کہ اُن کے لیے جینے اور مرنے میں بہت کم فرق رہ گیا ہے۔ اُن کے عوام کی قسمت میں فی الحال تو محض بیانات، وعدے اور سنہرے خواب ہی ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید
عالمی منظر نامہ سے مزید