• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کو لاحق مالیاتی مسائل اور ٹیکس گریزی کی درپیش فضا کے تناظر میں پچھلے دنوں اداکئے گئے وزیر خزانہ اورنگزیب کے ایک خاص جملے کے مفاہیم فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اقدامات کی صورت میں سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ بعض اصلاحات کے حوالے سےوزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ’’حکومت معیشت کا ڈی این اے (DNA) درست کرنا چاہتی ہے‘‘ درج بالا جملے کا ایک مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ معیشت کو لاحق روگ پرانے بھی ہیں اور گہرے بھی۔ یوں بات قیام پاکستان سے پہلے کے اس استعماری دور تک پہنچتی محسوس ہورہی ہے جس کا بنیادی مقصد ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہلانے و الے جنوبی ایشیاکی دولت پر تصرف حاصل کرنا تھا اور جس میں نو آبادیاتی مفادات کے حصول کے لئے انگریزوں کے اپنے قائم کردہ ٹیکس نظام میں با اثر قرار دیئے گئے افراد کو ٹیکس چھوٹ سمیت بعض مراعات دے کراپنے ہم وطنوں پر غیر ملکی قابضین کی دھاک بٹھانے اور ان میں غلامی کی خوبی نمایاں کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ اس دور کے بعض مظاہر ملک کے مختلف علاقوں میںتادیر ذاتی کروفر کے ایسے واقعات کی صورت میں نظر آتے رہے جن میں نجی جیلوں کے قیام، سرکش و نافرمان قرار پانے والے انسانوں پر تربیت یافتہ خونخوار کتے چھوڑے جانے، بے گناہی ثابت کرنے کیلئے جلتے کوئلے پرننگے پائوں چلائے جانے کے مناظر نمایاں ہیں۔ ذاتی طاقت و اختیار کا مظاہرہ کرنے کا یہ ’’ڈی این اے‘‘ بعض مراعات اورٹیکس گریزی کی صورت میںتاحال اپنا اثردکھاتامحسوس ہوتاہے۔

وفاقی وزیر خزانہ کے معیشت کا DNA درست کرنے کا اعلان ٹیکس جمع کرنےو الے مرکزی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حالیہ اقدامات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو یہ پیغام دیوار پر لکھا محسوس ہوتا ہے کہ’’ بس بہت ہوچکا، اب ٹیکس دینا ہی پڑے گا‘‘۔ٹیکس نظام کسی بھی ملک کی بقا کے تقاضوںسے لیکر عوامی فلاح و بہبودکے اقدامات، ترقیاتی کاموں، امن و امان، تعلیم و صحت سمیت ان تمام ضرورتوں کا لازمہ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں درپیش رہتی یا سامنے آسکتی ہیں۔ ایک لحاظ سے ہر ٹیکس دہندہ ریاست کی مالیاتی ضرورتوں میں اپنی اس ذمہ داری کو نبھاتا ہے جو ریاست اور سماج کی جانب سے حاصل فوائد کے جواب میں اس پر عائد ہوتی ہے۔ ریاست ایسا عظیم و محفوظ گھر ہے جس کے فوائد اور نعمتوں سے بہرہ مند ہونےو الے تمام ا فراد ان اخراجات و ضروریات میں اپنا حصہ ادا کرنے کے پابند ہیں جوگھر کے فوائد سے بہرہ ور ہونے کے صلے میں لازم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے وسائل و فوائد میں مزید اضافے کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ کنٹری بیوشن ان لوگوں کی باعزت کفالت کی بھی ضرورت ہے جو کسی معذوری، پسماندگی، لاچاری کی بنا پر اس اجتماعی رقم سے حصہ پانے کے مستحق ہیں۔ اسی لئے متعدد ملکوں میں بلاواسطہ ٹیکس لوگوںپر ان کی آمدنیوں اور جائیدادوں کے حوالے سے لگائے جاتے ہیں تاکہ امیروں سے حاصل ہونےو الی رقم ریاست کی ضروریات کے علاوہ پسے ہوئے طبقوں کی بحالی پر خرچ کی جاسکے۔ یوں دولت کے بہائو کا رخ امیروں سے غریبوں کی طرف رہتا ہے۔ جن ملکوں میں صاحبان حیثیت ریاستی وسائل کے بھرپور فوائد سے بہرہ مند ہونے کے باوجود ٹیکسوں کی صورت میں ریاست کواس کا حصہ دینے میں تذبذب محسوس کرتے ہیں وہاں بجلی، گیس، پٹرول جیسی عام استعمال کی اشیاء کے نرخ بڑھانے کی صورت میں امیروں کے ٹیکس کا ایک حصہ بھی غریبوں پر مسلط کردیاجاتا ہے۔ اسی لئے کئی ملکوں کے ٹیکس دہندگان اس بات پر فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ملک کے محاصل میں کسی ہیر پھیر کے بغیر بڑا حصہ ادا کرتے اور بروقت ادائیگی یقینی بناتے ہیں۔

پاکستان وہ ملک ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ اسلامی تعلیمات شخصیت کی ایسی مکمل تعمیر کا ذریعہ ہیں جن میں دیگر امور کے علاوہ روزانہ کی پنج وقتہ نمازوں، جمعہ ، عیدین اور حج کے بڑے اجتماعات کی صورت میں جہاں حق تعالیٰ کی بندگی کا اظہار کرنے،اس کے احکامات کی بجا آوری کا عہد دہرانےکے علاوہ دوسرے بندگان خداسے باہمی رابطوں اور وسیع تر سوچ کی کیفیت و ضرورت اجاگر ہوتی ہے وہاں یہ تعلیمات قربانی، فطرہ، زکوٰۃ، صدقات ایسے تمام امور کی طرف متوجہ کرتی ہیں جن سے لوگوں میں حسن سلوک اور معاشرتی سطح کی مالی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا جذبہ پروان چڑھے۔ ریاستی سطح کے امور چونکہ اجتماعی دفاع، تحفظ، ترقی اور انسانی بھلائی سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے ریاستی ٹیکسوں کی اجتماعی کیفیت انفرادی جودوسخا کے جذبے پر فوقیت رکھتی ہے۔ ان حقائق کو سامنے رکھاجائے تو یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ 24؍ کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک پاکستان میں ایف بی آر سال 2025ء میں نو لاکھ نئے فائلرز کو دائرہ محاصل میں لانے میں کامیاب ہوا۔ یوں ٹیکس دہندگان کی تعداد اب بھی 50؍ لاکھ سے کم ہے۔ یعنی آبادی کا محض دو فیصد۔ اس کے مقابلے میں بھارت، ترکی اور برطانیہ جیسے ممالک میں یہ شرح 60فیصد تک ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال 2024-25 میں ایف بی آر جی ڈی پی کی مد میں تقریباً 9.4کھرب روپے ٹیکس جمع کرنے میں کامیاب ہوسکا۔ یہ رقم اس صورت میں یقینا زیادہ ہوتی جب ملک کی 40؍ فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور نہ ہوتی۔ اس کے باوجود اندرون و بیرون ملک متعدد لوگوں کی جائیدادیں، گاڑیاں اور اثاثے ایسی حقیقت ہیں جن کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا لائف اسٹائل سیل سرگرم ہے۔ ایسے متعدد کیسز کا پتہ لگایا جاچکا ہے جن سے کروڑوں کے اثاثوں، گاڑیوں کی ملکیت، کثرت سے بیرون ملک سفر اور سوشل میڈیا پر پرتعیش زندگی کی نمائش کا اظہار نمایاں ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں شواہد جمع کرنے کی کاوشیں اس امر کی نشاندہی کررہی ہیں کہ معیشت کا ڈی این اے درست کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔جبکہ اس عمل کو جاری رکھتے ہوئے اس امر کا جائزہ بھی لیا جانا چاہئے کہ رواں مالی سال 2025-26 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میںتھوک فروشوں اور برآمد کنندگان کی مجموعی ٹیکس ادائیگی تنخواہ دار طبقے کے ادا کردہ 130؍ ارب روپے کے ٹیکس کا نصف کیوں ہےجبکہ تجارتی، صنعتی اور برآمدی سرگرمیاں پوری شدت سے جاری محسوس ہوتی ہیں۔ اس باب میں متعلقہ حلقوں کی مشاورت سے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کیا جانا چاہئے۔ حال ہی میں آنے والی ایک خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ تھوک اور پرچون فروشوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا نیا ضابطہ نافذ ہوگیا ہے۔ یہ اقدام FBR کی فعالیت کو ظاہر کررہے ہیں تاہم محصولات وصول کرنے والے اداروں کا داخلی نظام شفاف بنانے اور ٹیکس فائلنگ کا کام آسان بنانے کی تدابیر بھی ضروری معلوم ہوتی ہیں۔

تازہ ترین