بہت پرانی بات ہے میری اپنی یونیورسٹی میں پروفیسر شپ کا انٹرویو تھا۔آپ جانتے ہیں کہ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ اور پروفیسر کا انٹرویو رسمی ہوتا ہے کہ سلیکشن کا دارومدار تین ماہرین( دو غیر ملکی ایک ملکی) کی رپورٹوں پر ہوتا ہے تاہم اس کی نوعیت جداگانہ یوں تھی کہ ہمارے شعبے میں پروفیسر کی ایک پوسٹ تھی جس پر میرے استاد اے بی اشرف صاحب کام کر رہے تھے اور وہ انقرہ یونیورسٹی میں اردو چیئر پر جا چکے تھے اور ان کی ریٹائرمنٹ میں ابھی کئی برس باقی تھے۔یونیورسٹیوں میں تب نظریاتی کشمکش ہوتی تھی جس کے باعث میرا واسطہ ایک گروپ سے تھا جو ضیائی مارشل لا کا مخالف تھا اکیڈمک کونسل میں حکومت کی طرف سےکچھ متضاد نوٹیفکیشن آتے تھے جن پر یہ کہا جاتا تھا کہ اسے لاگو کرو اور کوئی چوں چرا نہ کرے بالکل ملتان یونیورسٹی ایکٹ پنجاب اسمبلی میں 1974 میں پیش ہوا پھر یہ ایک مجلس قائمہ میں پیش ہوا کچھ لوگوں نے مخالفت کی کہ ملتان اور ڈیرہ غازی خان کے لوگوں کی تہذیبی تربیت ادھوری رہ جائے گی اگر اسے پنجاب یونیورسٹی سے یکسر الگ کر دیا گیا پھر کچھ سیانوں نے کہا کہ اگر دس پندرہ سال کیلئے وائس چانسلر رجسٹرار اور سینئر فیکلٹی لاہور سے آتی رہے تو شاید ملتان یونیورسٹی ’دال دلیہ‘ کے قابل ہو جائے۔ بہر طور پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر خیرات ابن رسا کو چند ماہ کے بعد ہی پنجاب یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا اور سول ایوی ایشن میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر الطاف علی قریشی کو وائس چانسلر بنا دیا ۔ یونیورسٹی تب ایک ماڈل اسکول کی عمارت میں اور تین چار شامیانوں کے نیچےآ گئی البتہ کیمپس کیلئے ایک ہزار ایکڑ مختص ہو گئے اوراس کیلئےکچھ موہوم عمارتوں کے خاکے بننے لگے تاہم جولائی 1977 میں مارشل لا نافذ ہوا اور وہ ضابطے آنے لگے جن کا میں نے ذکر کیا جنرل سوار خان پنجاب کے گورنراور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے تب وہ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد نئے کیمپس میں ر کھنے کیلئے تشریف لائے سنگ بنیاد شاید آج کہیں محفوظ ہو تھوڑی بہت شکستگی کے ساتھ ۔اس پر ملتان یونیورسٹی کندہ ہے اسے نصب کرنے کے بعد دعائے خیر ہوئی اور پھر انہوں نے گلابی اردو میں کہا’’ سلو رفتاری سے کام ہمیں اچھا نہیں لگتا،میں ادھر آ رہا تھا تو کچھ معزز لوگوں یعنی جینٹری نے بتایا کہ تم لوگوں کا مطالبہ ہے اس کا نام ملتان یونیورسٹی سے بدل کے بہائو الدین زکریا یونیورسٹی رکھ دیا جائے تو میرے ہاتھ کے نیچے میرا سیکرٹریٹ ایک نوٹیفکیشن جاری کر دے گا‘‘۔ کم و بیش سناٹا چھا گیا، ایک دو سرپھروں کے سوا کسی نے سوال نہ کیا کہ یہ لاکھوں کروڑوں کی اسٹیشنری ضائع ہونے سے زیادہ ایک درس گاہ کی شناخت کا معاملہ ہے ۔بہائوالدین زکریا سمیت کئی اولیا نے ملتان کی فضیلت بڑھائی مگر ملتان تو ماں ہے ان سب درگاہوں کی انکے ماننے والوں کی ۔پھر یہی نہیں مارشل لا کے تحت حکم نامے جاری ہونا شروع ہو گئے ایک نوٹیفکیشن آیا کہ علامہ احمد سعید کاظمی کا تبادلہ جامعہ اسلامیہ بہاولپور سے زکریا یونیورسٹی میں کر دیا پھر اس کی تصحیح یا ترمیم ہوئی کہ مظہر سعید کاظمی کی جگہ انکے والد گرامی کا نام لکھا گیا تھا پھر ایک حکم نامہ جاری ہوا کہ جب تک ایک ناخواندہ کو پڑھا لکھا بنانے کا حلفیہ بیان نہ لگایا جائے ، کسی گریجویٹ کو ڈگری نہ دی جائے۔تب بھی دو چار نے کہا کہ آپ جھوٹ کو فروغ دے رہے ہیں ایسے جھوٹے حلفیہ بیانات سے آپ جس طرح کی شرح خواندگی بڑھائیں گے وہ مضحکہ خیز ہو گی۔ پھر جب نصاب اکیڈمک کونسل میں پیش ہوتے تیغوں کے سائے میں تہتر کا آئین شریف الدین پیرزادہ کے مشورے پر منسوخ نہیں معطل یا منجمد ہو گیا تھا، فیلڈ مارشل ایوب خان سےاقتدار جب جنرل یحییٰ خان نے لیا تو باسٹھ کا دستور بھی کالعدم ہوگیا اس سے پہلے چوہدری محمد علی کا چھپن کا آئین بھی منسوخ ہو گیا تھا مگر ہمارے ایم اے سیاسیات کے ایک پرچے کا عنوان تھا پاکستان میں آئینی ارتقا۔ اس پر ایک دو مجذوبوں کے قہقہے بلند ہوئے مگر زیادہ تر احساس زیاں سے بے تعلق تقریریں! اور پھر مسند نشیں نے کہا جس کو اس پرچے سے جو کچھ سمجھ میں آرہا ہے وہی کچھ پڑھایا جائے۔ہائر ایجوکیشن کمیشن کا نام تب یونیورسٹی گرانٹس کمیشن تھا اس نے دو چیئرز اس یونیورسٹی کو دیں بہائو الدین زکریا چیئر اور علامہ اقبال چیئر،پہلی چیئر شعبہ تاریخ کو ملی اور اس کے تحت ایمرسن کالج کے ایک لائق استاد جناب اسلم انصاری کو پی ایچ ڈی اسکالر کے طور پر رجسٹرڈ کیا گیا یہ اور بات کہ چھ سات برس کے بعد یہ اعزاز ہمیں ملا کہ انہیں اردو کے اسکالر کے طور’ اردو شاعری کے المیہ تصورات ‘پر ڈاکٹریٹ کیلئے رجسٹریشن دی ،ادھر علامہ اقبال چیئر فزکس کے شعبے کو منتقل ہو گئی تھی اسے شعبہ اردو میں کافی مراحل سے گزار کے لایا گیا پھر یہ مشتہر ہو گئی جسکی شرائط میں لکھا تھا ایک کتاب اور کم از کم پانچ مقالات اقبالیات سے متعلق ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال سے متعلق بہت اچھی تیس سے چالیس کتب اور کم اچھی سینکڑوں کتب ہیں۔میں نے ضرورت مند کے طور پر روح اقبال سے معذرت کر کے تین دن میں ایک کتاب ’’تحریک پاکستان میں علامہ اقبال کا کردار‘‘ کا مسودہ تیار کرکے ایک نیک دل پبلشر کو دیا جس نے اسے شائع کر دیا۔ ابتدائی سطور میں جس سلیکشن بورڈ کا ذکر کیا گیا اسی میں ڈاکٹر افتخار احمد راجہ مرحوم نے سوال کیا کہ علامہ اقبال کی والدہ کا کیا نام ہے؟ تب میں نہیں جانتا تھا کہ میں اردو چیئر پر منتخب ہوکے انقرہ یونیورسٹی جائوں گا اور قونیہ میں اقبال کا تمثیلی مزار دیکھوں گا،ہائیڈل برگ میں اقبال کی نظم کا جرمن ترجمہ اور فلاسفرزا سٹریٹ میں یادگاری تختی دیکھوں گا اور پھر گجرات یونیورسٹی کے سیالکوٹ کیمپس میں علامہ اقبال کی والدہ امام بی بی کے نام پر کم وسیلہ مگر لائق طالب علموں کیلئے یادگاری فنڈ قائم کرونگا جس کی پہلی تقریب میں علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال مہمان خصوصی ہونگے۔